• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان حقِ خودارادیت کی بنیاد پر قائم ہوا تھا، مگر اِس میں مذہب اور تاریخ کے سوا اور کوئی چیز مشترک نہیں تھی۔ اِس اعتبار سے اِسے قومی یکجہتی کا سب سے بڑا چیلنج آغاز آفرینش سے درپیش تھا جس سے نمٹنے کے لیے غیرمعمولی بصیرت اور اَعلیٰ درجے کی منصوبہ بندی درکار تھی۔ ایسے دانش مندانہ اقدامات دَرکار تھے جو جغرافیے کے فیکٹر پر بھی قابو پا لیتے اور اِقتصادی، معاشرتی ہم آہنگی اور باہمی اعتماد کو زیادہ سے زیادہ فروغ بھی دیتے، مگر بدقسمتی سے مرکزی حکومت پر جاگیردار طبقہ اور افسرشاہی غالب آ گئے۔ وہ مشرقی پاکستان کے عوام کے ساتھ مغل بادشاہوں کی طرح پیش آتے رہے۔

مسلم لیگ جسے تخلیق پاکستان کا اعزاز حاصل تھا، اِس نے جمہوری اصولوں سے قدم قدم پر انحراف کیا۔ وزیرِاعلیٰ نورالامین نے حسین شہید سہروردی، جو تقسیمِ ہند کے بعد فسادات پر قابو پانے کے لیے کلکتہ ہی میں ٹھہر گئے تھے، کا مشرقی پاکستان میں داخلہ بند کر دیا اور اسمبلی کی 38نشستوں پر ضمنی انتخابات کرانے سے مسلسل گریز کیا، چنانچہ وہ تمام بڑے بڑے سیاسی لیڈر جو قیامِ پاکستان کے بعد اقتدار سے محروم ہو گئے تھے، اُنہوں نے مارچ 1954کے انتخابات میں متحدہ محاذ قائم کر کے مسلم لیگ کا تقریباً صفایا کر دیا۔ پاکستان کے لیے یہ بہت بڑا سیاسی حادثہ تھا، کیونکہ اِس کے بعد عوامی حمایت سے لیس کوئی بھی سیاسی جماعت قومی کردار ادا کرنے کے قابل نہ رہی تھی۔ ستم بالائے ستم یہ کہ اسکندر مرزا جیسے انتہائی گھٹیا کردار قومی سیاست پر حاوی ہو گئے۔ اُن کے بارے میں مشہور تھا کہ جب وہ صوبہ سرحد میں پولیٹکل ایجنٹ تھے اور بعض قبائلی سردار سرکشی پر آمادہ تھے، تو اُنہوں نے اِنہیں عشائیے پر مدعو کیا اور کھانے میں جمال گھوٹا ملا دیا۔

1954کے انتخابات کے بعد جناب اے کے فضل الحق وزیرِاعلیٰ منتخب ہوئے، مگر دو ماہ بعد ہی مرکزی حکومت نے اُن کی حکومت برطرف کر دی اور گورنر راج نافذ کرتے ہوئے سیکرٹری ڈیفنس اسکندر مرزا کے نام گورنری کا پروانہ جاری کر دیا۔ اُس وقت مغربی پاکستان سے تعلق رکھنے والے بیوروکریٹ اور ممتاز اَدیب الطاف گوہر مشرقی بنگال کے محکمۂ داخلہ میں تعینات تھے۔ وہ اپنی تصنیف ’گوہر گزشت‘ میں لکھتے ہیں:’’اسکندر مرزا کی تقرری کی خبر نے صدمے سے سراسیمگی طاری کر دی تھی۔ مَیں گورنر ہاؤس کے اہلکار کے ہمراہ گورنر کے بیڈروم کے ساتھ والے لاؤنج میں پہنچا، وہاں چیف سیکرٹری اور آئی جی پولیس پہلے سے موجود تھے۔ اُن کے چہروں سے ایسا لگ رہا تھا جیسے کسی بلائے ناگہانی کے منتظر ہوں۔ اچانک اسکندر مرزا لال رنگ کا ڈریسنگ گاؤن پہنے نمودار ہوئے اور بولے ’’مَیں اُن تمام غنڈوں کی فوری گرفتاری چاہتا ہوں، کل صبح تک 1500؍افراد اندر کر دیے جائیں۔‘‘ اگلی صبح تک 1500؍افراد گرفتار ہو چکے تھے۔ اُن میں رکشا ڈرائیور، محنت کش، بےگناہ مسافر، غریب خوانچے والے شامل تھے۔

اسکندر مرزا دو سال بعد جوڑتوڑ کے ذریعے صدرِ پاکستان بن گئے۔ اُنہوں نے سیاسی جماعتوں کو بازیچۂ اطفال بنائے رکھا اور رات بھر میں اپنی پسند کی سیاسی جماعت ’ری پبلکن‘ کھڑی کر لی جو ملک میں سیاسی عدم استحکام کا باعث بنی رہی۔ اسکندر مرزا نے اقتدار پر قابض رہنے کے لیے وزیرِاعظم حسین شہید سہروردی کو برطرف کر کے مشرقی اور مغربی پاکستان کے درمیان سب سے مضبوط سیاسی پُل توڑ ڈَالا اور جنرل ایوب خان کی ملازمت میں دوسری بار توسیع کر دی۔ وہ اگر توسیع نہ دیتے، تو ملک میں 7؍اکتوبر 1958کی شب مارشل لا نافذ ہوتا نہ جنرل ایوب خان، جناب منظور قادر کے مشورے سے ایسا دستور نافذ کرتے جس میں عوام اِقتدار سے یکسر محروم کر دیے گئے تھے۔ اِس کے ردِعمل میں شیخ مجیب الرحمٰن نے چھ نکات پیش کیے جو سقوطِ ڈھاکہ پر منتج ہوئے۔ بریگیڈیئر صدیق سالک جنہوں نے سقوطِ مشرقی پاکستان کا سانحہ اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا، اُنہوں نے واپس آ کر لکھا ’’پاکستان کو سیاست کی ضرورت ہے‘‘۔ واقعی آج بھی ہمیں سیاسی طرزِ احساس، سیاسی بصیرت، سیاسی تحمل، سیاسی مذاکرات اور سیاسی راست بازی درکار ہے۔

گزشتہ جمعہ کو 16 دسمبر کے حوالے سے میرا کالم چھپا، تو ہفتے کی رات دس بجے عزیزم رؤف طاہر کا فون آیا۔ اِس پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ مجھے بعض تاریخی حقائق اور واقعات کا آپ کے کالم سے پہلی بار علم ہوا ہے۔ اتوار کی شام بھی اُن سے بات ہوئی اور کہنے لگے ہمیں سقوطِ مشرقی پاکستان سے ایک بڑا سبق یہ بھی ملتا ہے کہ آرمی چیف کی ملازمت میں توسیع کا قانون ختم کر دیا جائے۔ پیر کے روز کوئی گیارہ بجے صبح عزیز دوست جناب محمد مہدی کا فون آیا۔ اُنہوں نے بتایا کہ پروفیسر لبنیٰ ظہیر نے میسج کیا ہے کہ رؤف طاہر انتقال کر گئے ہیں۔ دل بری طرح دھڑکا۔ جناب سجاد میر نے خبر کی تصدیق کی اور مجھ پر سکتہ سا طاری ہو گیا۔ ہمارے عہد کا ریاضت کیش صحافی، ایک بیدار مغز کالم نگار اور اِسلام، پاکستان اور جمہوریت کا مجاہد پل بھر میں حرکتِ قلب بند ہونے سے دنیائے فانی سے کوچ کر گیا۔ رؤف طاہر نے ہمارے ساتھ ہفت روزہ زِندگی میں کام کیا اور وہی رشتہ آگے چل کر ناقابلِ شکست نظریاتی طاقت میں منتقل ہو گیا تھا۔ وہ سول بالادستی پر پختہ یقین رکھتے تھے اور اپنے نظریات پر آخری دم تک قائم رہے۔ وہ ایک خوددار اِنسان اَور لاہور کی محفلوں کی جان تھے۔ لا کالج یونیورسٹی کے پروفیسر امان اللہ خاں سے اُن کا خاص تعلق تھا۔ وہ دونوں مجھ سے ملنے بکثرت آتے۔ جناب مجیب الرحمٰن شامی سے فیض حاصل کرتے۔ اُن کے مرشد سید ابوالاعلیٰ مودودی تھے جن کے نقشِ قدم پر چلنے کے لیے وہ بڑی پامردی سے عمر بھر کوشاں رہے۔ بلاشبہ وہ ہماری سیاسی تاریخ کا ایک انسائیکلوپیڈیا تھے اور ہزاروں اشعار کا خزینہ اُن کے حافظے میں محفوظ تھا۔ مولانا ظفر علی خان ٹرسٹ کے سیکرٹری اور کئی یونیورسٹیوں کے وزیٹنگ پروفیسر تھے۔ اللہ تعالیٰ اُن کے درجات بلند فرمائے اور اُن کے پس ماندگان کو صبرجمیل عطا فرمائے۔ اُن کے جنازے میں ہر طبقۂ فکر کے احباب اور جوہر شناس بڑی تعداد میں شریک ہوئے۔ اپنا ہی شعر یاد آ رہا ہے؎

قحطِ آشفتہ سراں ہے، یارو!

شہر میں امن و اماں ہے، یارو!

تازہ ترین