• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
علی سلمان نے ٹھیک ہی تو کہا ہے کہ چاروں صوبوں کی زنجیر سمجھی جانے والی پارٹی یعنی پاکستان پیپلز پارٹی صرف ایک صوبے سندھ تک محدود ہو کر رہ گئی ہے۔ باقی تینوں صوبوں میں پی پی پی کو صرف 2 سیٹیں ملی ہیں اور وہ بھی سابق گورنر احمد محمود نے انہیں سرائیکی بیلٹ سے لے کر دی ہیں۔ دوسرے معنوں میں اگر دیکھا جائے تو تین صوبوں سے پی پی پی کا صفایا ہو گیا ہے۔ کیا اس کو دیرپا صفایا کہا جا سکتا ہے، کیا ان صوبوں سے پی پی پی دوبارہ انتخابات جیتنے کا خواب دیکھ سکتی ہے؟ اس تمام شکست کا اصل ذمہ دار کو ن ہے؟ یہ وہ سوال ہیں جن کے جواب اس وقت پی پی پی سے ہمدردی رکھنے والے دانشور تلاش کرنے کی کوشش میں ہیں۔ اپنی جیو ٹی وی سے وابستگی کے اوائل میں مجھے بھی محترمہ بے نظیر بھٹو سے ملنے کا اتفاق ہوا۔ دو تین بار ان سے لمبی گفتگو بھی ہوئی۔ اس گفتگو میں میں نے انہیں بہت بردبار، ملنسار اور قوم کا درد رکھنے والی شخصیت کے طور پر جانا۔ اپنے وسیع مطالعے کے باعث اور اپنی گہری نظر جو وہ ملکی اور بین الاقوامی سیاست کے حوالے سے رکھتی تھیں، کی وجہ سے وہ واقعی ایک ایسی شخصیت تھیں کہ جو پاکستان کی سیاست میں اہم کردار ادا کر سکتی تھیں۔ انہیں ملک و قوم کا درد تھا۔ اسی کا احساس کرتے ہوئے ملک کے عوام انہیں چاروں صوبوں کی زنجیر کہا کرتے تھے۔ ان کی المناک موت واقعی ایک بڑا سانحہ تھا لیکن اس سے بڑا سانحہ یہ ہوا کہ ان کی پارٹی کی قیادت ایسے لوگوں کے ہاتھ میں آ گئی جو اس کے اہل نہیں تھے۔ بے نظیر صاحبہ کی شہادت کے نتیجے میں ان کی پارٹی کو 2007ء کے الیکشن میں ہمدردی کے ووٹ ملے۔ اپنی چالاکیوں کی بدولت صدر صاحب نے صدارت بھی حاصل کرلی اور آئندہ آنے والے 5برس میں حکومت بھی چلا لی، لیکن اصل حقیقت یہ ہے کہ ان کی چالاکیوں کی بدولت اور نااہل وزیروں کی وجہ سے ان کی پارٹی کی جڑیں کمزور ہوتی چلی گئیں۔
اس سب کو میں بی بی سی کے تعاون سے منعقدہ ایک ورکشاپ میں سیکھے گئے ایک سبق کے حوالے سے بھی دیکھتا ہوں۔ میں نے ورکشاپ میں بی بی سی کے ہیڈ سے سوال کیا کہ کوئی چینل پاپولر کس طرح سے ہو سکتا ہے، میں نے انہیں بتایا کہ 1965ء اور 1971ء کی جنگوں کے دوران اصل حقیقت جاننے کے لئے ہمار ے اکثر لوگ بی بی سی ریڈیو سنا کرتے تھے اور کافی حد تک اس کا اعتبار بھی کرتے تھے۔ انہوں نے جواب دیا کہ یہ جو تم نے لفظ استعمال کیا ہے نا ”اعتبار“ تو بھائی بس سب کچھ یہی ہے۔ اگر کوئی چینل اپنا اعتبار قائم کر لے تو وہ کامیاب ہو جاتا ہے، بالکل یہی کچھ حکومتوں کے بارے میں کہا جا سکتا ہے۔ اگر انہوں نے اپنا اعتبار قائم کر لیا تو وہ لمبی مدت تک کامیابی سے چلیں گی۔ اعتبار سچ سے قائم ہوتا ہے۔ جھوٹ اور فریب کی سیاست پر قائم کردہ عمارت کے ذریعے اعتبار قائم نہیں ہو سکتا۔ پی پی پی کے اس بار الیکشن میں بری طرح ہارنے کی اصل وجہ یہی اعتبار ہے ۔ آپ پرانے کارکنوں سے لے کر عام ووٹر سے بات کر کے دیکھیں تو ہر شخص آپ کو یہ کہتا ملے گا کہ پی پی پی کا قائم کردہ نظام جھوٹ پر مبنی تھا۔ زرداری صاحب کو لیڈری جھوٹ کے سہارے ملی اس پر کمال تو یہ ہو گیا کہ جب انہوں نے اپنے اقوال کو کہہ دیا کہ بھائی بات کہی تھی کوئی ”حدیث“ تو نہیں کہہ دی۔ میرا خیال ہے کہ اگر پاکستان کی سیاست میں سب سے زیادہ بے اعتبار شخص کا حوالہ دیا جائے تو یقینا سر فہرست زرداری صاحب کا نام آئے گا۔ اور اگر کسی پارٹی کے صدر یا مرکزی لیڈر ایسے لوگ ہوں تو کیا اس کا کوئی مستقبل ہو سکتا ہے ۔ جواب بالکل نہیں ہے۔ جس طرح سے ان 5 سالوں میں لوگوں نے تڑپ تڑپ کر پی پی پی سے جان چھڑانے کی کوششیں کیں ہیں اس کے بعد یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ اب پی پی پی کے لئے ایسی لیڈر شپ لانا کہ جس پر لوگ اعتبار کر لیں تقریباً ناممکن ہے۔
سو پی پی پی کی اس شکست کی سب سے بڑی ذمہ داری خود صدر زرداری صاحب پر عائد ہوتی ہے۔ رہی سہی کسر ان کے بنائے ہوئے وزراء اور دو وزرائے اعظم نے پوری کر دی۔ یوسف رضا گیلانی کی پوری فیملی کے حوالے سے جس طرح کے سکینڈلزمسلسل سامنے آتے رہے ہیں انہیں بھی ایک موقع پرست شخص کے حوالے سے ہی یاد رکھا جائے گا جس کا سب سے بڑا کارنامہ اپنے خاندان کے لئے وسیع جائیدادیں بنانا تھا۔ پھر نام آتا ہے راجہ رینٹل کا۔ موصوف ابھی تک رینٹل پاور منصوبوں سے لی جانے والی کک بیکس کے مقدموں میں پھنسے ہوئے ہیں۔ لوڈشیڈنگ ختم کرنے کے حوالے سے ان کے درجنوں دعوے آج بھی قوم کے لئے دردناک تحفہ ہیں اور رحمن ملک کا تو ذکر ہی کیا خود پی پی پی کے لیڈر ذوالفقار مرزا صاحب کے بقول اگر یہ کیلا کھا رہے ہوں تو کہیں گے میں سیب کھا رہا ہوں، یہ سب لوگ اپنا اعتبار کھو چکے تھے۔ صرف یہی نہیں اس لسٹ میں اور بھی بہت سے نام آتے ہیں اور اسی وجہ سے یہ تمام برج الیکشن میں الٹ گئے۔ اس طرح سے کہ ان کی سیاست میں واپسی تقریباً ناممکن ہے۔ کیا یہ اپنا اعتبار دوبارہ قائم کر سکیں گے۔ ایک آزاد میڈیا کے ہوتے ہوئے جس میں عوام شعور کی منزلیں تیزی سے طے کر رہے ہیں ایسا ہونا ناممکن ہے۔
تازہ ترین