• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہاں تو دوستو بات ہو رہی تھی لاہور کے سینما گھروں اور تھیٹروں کی۔ تھیٹروں کا ذکر آگے چل کر کریں گے، فی الحال ہم لاہور کے سینما گھروں کی بات کرتے ہیں۔ لاہور چھائونی جس کا اصل نام میاں میر چھائونی ہے اور اس برج کا نام بھی میاں میر پل ہے۔ دراصل یہ سارا علاقہ کبھی ایک گائوں تھا اور اس کا نام میاں میر گائوں آج بھی اپر مال پر انٹرنیشنل ہوٹل کے قریب لکھا ہوا ہے۔ اس کو باوا پارک بھی کہتے ہیں کہ مغل بادشاہ شاہ جہاں نے حضرت میاں میرؒ ؒ کو یہ اراضی دارا شکوہ کی صحت یابی پر دی تھی۔ حضر ت میاں میرؒ نے یہ سو مربع اراضی لینے سے انکار کر دیا تھا۔ حضرت میاں میرؒ ؒ کی دعا سے دارا شکوہ صحت یاب ہوا تھا۔ حضرت میاں میر ؒ کے مزار مبارک کے بالکل قریب شہزادی نادرہ بیگم کا مقبرہ ہے۔ اس کے بارے میں آئندہ کسی کالم میں ذکر کریں گے۔

میاں میر چھائونی سول اسٹیشن (یہ لاہور اسٹیشن کا پہلا نام ہے) سے تین میل کے فاصلے پر ہے۔ پہلی چھائونی انارکلی میں تھی مگر جب جگہ کی کمی محسوس ہوئی تو انارکلی کے غیرصحت مندانہ ماحول کی وجہ سے اسے موجودہ جگہ یعنی میاں میر کے علاقے میں منتقل کر دیا گیا۔ یہ ایک چٹیل میدان تھا۔ لاہور گزییٹیئر میں سینٹ میری چرچ لاہور کینٹ کو پنجاب کا خوبصورت ترین گرجا قرار دیا گیا ہے حالانکہ پنجاب اور لاہور کے سب سے خوبصورت دو گرجا گھروں میں سے ایک کیتھڈرل چرچ مال روڈ اور دوسرا سینٹ انتھونی چرچ لارنس روڈ ہے۔

حضرت میاں میرؒ ؒ کا مزار مبارک میاں میر ویسٹ ریلوے اسٹیشن سے صرف نصف میل کے فاصلے پر ہے۔ آپؒ ؒبابا گورونانک کے ہم عصر تھے۔

لاہور کینٹ میں حضرت میاں میرؒ ؒ کے آخری دو مریدوں کے مزار مبارک بھی ہیں اور ایچی سن کالج کے اندر بھی میاں میر ؒ کے تین مریدوں کے مزار ہیں۔ ان کے بارے میں بھی پھر کبھی بات کریں گے۔ لاہور کے کئی تعلیمی اداروں میں بھی مزار ہیں، آپ کو سن کر حیرت ہوگی۔ میاں میر چھائونی (لاہور کینٹ) میں دو سینما تھے۔ ایک کا نام گلوب سینما اور دوسرا پاک فورسز۔ پاک فورسز سینما کا نام بعد میں افشاں ہو گیا تھا۔ گلوب سینما میں بڑی وسیع پارکنگ تھی۔ کبھی ہم نے بھی وہاں فلم دیکھی تھی۔ میاں میر چھائونی میں کبھی ملٹری پولیس ٹریفک کنٹرول کرتی تھی اور چالان بھی ہوتے تھے۔ ہمیں یاد ہے کہ ٹریفک لائن کی خلاف ورزی پر ملٹری پولیس سویلینز کو بھی روک کر پوچھ گچھ کرتی تھی۔ لاہور ریلوے اسٹیشن کے پاس ایک سینما ریوالی کے نام سے ہوتا تھا جو چھوٹا تھا مگر وہ لاہور کے شمالی علاقوں کیلئے تفریح فراہم کرتا تھا۔ اس سینما میں ایک فلم ’جی دار‘ ایک سال تک لگی رہی تھی۔ کہتے ہیں کہ یہ فلم بڑی منحوس تھی۔ جب فلم بن رہی تھی تو اس کے فلمساز اور ہدایت کار مر گئے تھے اور جب ریوالی سینما میں لگی تو اس کی گیلری گر گئی تھی۔ ریوالی سینما کے بالکل سامنے کئی ریلوے لائنیں ہیں۔ اب یہ سینما نہیں رہا۔ لاہور میں مزنگ چونگی میں ایک بڑا خوبصورت صنم سینما ہوتا تھا۔ وہ بھی زمانے کی نذر ہوگیا۔لاہور کے شمالی علاقے چوک وسن پورہ میں پہلا سینما صغیر بنا تھا۔ اب وہاں لوہا مارکیٹ ہے جب کہ سینما گرایا جا چکا ہے۔

1965ء کی جنگ تک لاہور کے کئی سینما گھروں میں بھارتی فلموں کی نمائش ہوا کرتی تھی۔ ہم نے خود کئی بھارتی فلمیں لاہور کے مختلف سینما گھروں میں دیکھی ہیں۔ اتوار کو فلموں کے چار شو ہوتے تھے۔ ایک شو گیارہ بجے بھی ہوتا تھا۔ بعض سینما گھروں میں خواتین کے لئے علیحدہ شو اور پردے کا انتظام بھی ہوتا تھا۔ مثلاً پاکستان ٹاکیز سینما میں بدھ کے روز خواتین کیلئے شو ہوتا تھا۔ عورتوں کیلئے بعض سینما گھروں میں ٹکٹوں کے لئے الگ اور بارہ آنے کی ٹکٹ خریدنے والوں کے لئے الگ کھڑکی ہوتی تھی۔ یہ لوگ فلم کے دوران بہت زیادہ شور مچایا کرتے تھے۔ بیرون بھاٹی گیٹ میں تین سینما گھر تھے‘ ملک تھیٹر، نگار اور پیرا مائونٹ۔ پیرامائونٹ کو ختم کر کے وہاں بسوں کا اڈا بنا دیا گیا اور نگار سینما کو گرا کر مارکیٹ بنا دی گئی۔ البتہ ملک تھیٹر کے مالکان ہمارے اسکول فیلو ملک مبین کا ہے جس کا پہلا نام پرل تھیٹر بھی رہا ہے،اب صرف ملک تھیٹر ہی چل رہا ہے۔ ملک تھیٹر کے سامنے کرائون ٹاکیز بھی ہوا کرتا تھا۔ بعد میں اس کا نام پیرامائونٹ پڑ گیا۔ عجیب مکان نما سینما گھر تھا، اس سینما کے نیچے رنگ برنگ کے شربت اور ٹھنڈے دودھ کی بوتلیں ملا کرتی تھیں۔ بڑا مزے دار، ذائقے دار دودھ اور شربت ہوتا تھا۔ شربت زیادہ تر سکرین سے بنایا جاتا تھا اور دعویٰ کیا جاتا تھا کہ یہ خالص سفید چینی سے تیار کردہ شربت ہے۔ یہیں پر ایک پلائو، زردہ والا بھی ہوتا تھا جس کا پلائو زردہ اتنا مزے کا تھا کہ دو بجے تک سب فروخت ہوجاتا تھا، اب پتہ نہیں کہ ہے یا نہیں۔ اس طرح موری دروازے کے پاس بھی ایک حاجی پلائو زردے والا بیٹھا کرتا تھا، اسی طرح رام گلی (کیلوںو الی سڑک) موجودہ نام برانڈرتھ روڈ پر ولیمہ ہائوس کا پلائو زردہ اور پالک گوشت کا ذائقہ بھی کمال کا تھا۔ ایک کرائون سینما گڑھی شاہو میں بھی تھا بلکہ کرائون اور تاج سینما ایک ہی احاطے میں تھے۔ جس طرح ناز اور نگینہ سینما بھی ایک احاطے میں تھے۔ بہت سے سینما گھر و تھیٹرز شادی ہالوں میں تبدیل ہو چکے ہیں۔ ناز سینما میں پاکستان کی پہلی رنگین فلم نائلہ کی نمائش ہوئی تھی۔ ہم نے یہ فلم وہاں دیکھی تھی۔ یہ 1966ء یا 1967کی بات ہے۔

لاہور کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ برصغیر کی پہلی بولتی فلم ’عالم آرا‘ کی نمائش کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج کے ہوسٹل کے سامنے ریجنٹ سینما میں ہوئی تھی۔ اس سینما کا پہلا نام کیپٹل تھیٹر تھا جبکہ موجودہ کیپٹل سینما ایبٹ روڈ پر ہے۔ (جاری ہے)

تازہ ترین