• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اقصیٰ منور ملک، صادق آباد

سُنا ہے روزِ قیامت ہر طرف’’ نفسی، نفسی‘‘ کی پکار ہوگی، لیکن قیامت سی قیامت ہے کہ آج بھی’’ نفسی، نفسی‘‘ کے عملی نمونے جگہ جگہ دیکھنے کو ملتے ہیں۔ ترقّی کی دوڑ میں بھاگتے ہر شخص کو صرف اپنی پڑی ہے۔ اخلاق، روا داری، حُسنِ سلوک، صلۂ رحمی، احسان اور ایثار و ہم دردی جیسے اوصاف تو جیسے ہم بہت پیچھے چھوڑ آئے ہیں، حالاں کہ یہی صفات ہماری دینی تعلیمات کی بنیاد ہیں اور ہماری روایات بھی۔ اگر دیکھا جائے، تو من حیث القوم خود غرضی اِتنی عام ہوچُکی ہے کہ انتہائی قریبی رشتے داروں میں ایسی ایسی عداوتیں دیکھنے میں آتی ہیں کہ الامان والحفیظ۔ 

ماموں زاد، پھوپھی زاد، چچا زاد کو تو چھوڑیے، سگے بہن بھائیوں کے مابین نفرت کی ایسی دیورایں چُن دی گئی ہیں کہ ایک دوسرے کا منہ تک دیکھنا گوارا نہیں۔ آپس میں بول چال بند ہوجاتی ہے اور جب ایمبولینس آکر رُکتی ہے، تب معلوم ہوتا ہے کہ وہاں کوئی بیمار تھا۔ دراصل، آج کا انسان بہت حد تک خود غرض اور مفاد پرست ہو گیا ہے۔ اُس نے تمام رشتے پسِ پُشت ڈال کر اپنی خواہشات اور اغراض ہی کو مقدّم کر لیا ہے۔ یہ رویّے درحقیقت دین سے دُوری کا نتیجہ ہے، وگرنہ اسلامی تعلیمات پر عمل کرنے والا شخص کبھی بھی اِتنا بے حس نہیں ہو سکتا کہ اپنے اُن رشتے داروں کو چھوڑ دے، جن کی قدم قدم پر ضرورت پڑتی ہے۔

قرآنِ مجید اور احادیثِ مبارکہؐ میں رشتے داروں کے حقوق ادا کرنے کی بہت تاکید کی گئی ہے۔ قرآنِ کریم میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے’’بے شک، اللہ تمہیں بھلائی کرنے کا حکم دیتا ہے اور رشتے داروں کو دینے کا۔‘‘ کیا دینے کا حکم ہے؟ یہ دوسری آیت میں واضح کیا گیا’’ رشتے داروں کو اُن کا حق دو۔‘‘اِس آیت میں ہر طرح کے حقوق آگئے کہ اگر غریب ہے، تو مالی مدد کی جائے۔ بیمار ہو، تو عیادت کے لیے جائیں۔ غم گین ہو، تو تسلّی کے بول بولیں، یعنی عزیز و اقارب کو ہر ممکن حد تک اپنی ذات سے نفع پہنچایا جائے۔ قرآنِ کریم میں جہاں جہاں خرچ کرنے کا حکم دیا گیا ہے، وہاں سب سے پہلے قرابت داروں کو دینے کی ہدایت کی گئی ہے۔ 

ایک حدیثِ مبارکہؐ میں فرمایا گیا’’ جو شخص پسند کرتا ہے کہ اُس کے رزق میں وسعت ہو، اُس کی عُمر میں اضافہ ہو، تو اُسے چاہیے کہ وہ صلۂ رحمی کرے۔‘‘ مسلمانوں کے علاوہ کافروں کو بھی معلوم تھا کہ آپﷺ کی تعلیمات میں صلۂ رحمی پر کس قدر زور دیا گیا ہے۔ بخاری اور مسلم شریف کی روایت کے مطابق ہرقل نے ابوسفیان سے جو سوالات کیے، اُن میں سے ایک سوال یہ بھی تھا کہ’’یہ نئے نبی تمہیں کس چیز کا حکم دیتے ہیں؟‘‘ ابو سفیان اگرچہ اُس وقت تک مسلمان نہیں ہوئے تھے، بلکہ آپﷺ کے دشمنوں میں سے تھے، لیکن جواب دیا’’وہ نبی کہتے ہیں کہ ایک اللہ کی عبادت کرو اور اُس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائو اور اپنے آبائو اجداد کی غلط باتوں کو چھوڑ دو۔ وہ ہمیں نماز، سچّائی، پاک دامنی اور صلۂ رحمی کا حکم دیتے ہیں۔‘‘ایک حدیثِ پاک میں صلۂ رحمی کی اہمیت اِس طرح واضح کی گئی کہ’’جو شخص اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو، وہ صلۂ رحمی کرے۔‘‘ صلۂ رحمی کی اِس قدر تاکید کے باوجود بہت سے ایسے لوگ بھی ہیں، جن کے پاس ذرا سا پیسا آجائے، تو گردن میں گویا سریا فِٹ ہو جاتا ہے اور وہ اپنے غریب یا کم حیثیت رشتے داروں سے تعلقات ختم کر لیتے ہیں۔ 

بعض لوگ دوسروں کے لیے تو سخی اور وسیع القلب ہوتے ہیں، مگر جب معاملہ اپنوں کا ہو، تو اُن کے دِل سُکڑ جاتے ہیں۔اپنے نام یا شہرت کے لیے اور دوستوں پر تو خُوب دولت لُٹائیں گے، مگر تنگ دست رشتے داروں کے لیے اُن کے پاس پھوٹی کوڑی تک نہیں ہوتی۔ بعض بظاہر دین دار نظر آنے والے افراد بھی مساجد، مدارس، فلاحی اداروں وغیرہ پر فراخ دلی سے خرچ کرتے ہیں اور کرنا بھی چاہیے، مگر یہ ظلم ہے کہ اُن کے فیض سے مفلس رشتے دار محروم رہیں۔ نبی کریمﷺ کا ارشادِ مبارکہ ہے’’مسکین پر صدقہ کرنا ایک صدقہ ہے اور رشتے دار پر صدقہ کرنا دُگنا صدقہ ہے۔ ایک صدقے کا اور دوسرا صلۂ رحمی کا۔‘‘جب نبی کریم ﷺ نے اعلانِ نبوّت فرمایا، تو اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے رشتے داروں ہی کو تبلیغ کا حکم دیا۔ اسی حکم کی تعمیل میں آپﷺ نے اپنی قوم کو صفا پہاڑی پر کھڑے ہو کر پکارا۔ وہ سب جمع ہو گئے، تو اُنہیں اللہ کا پیغام سُنایا۔ صرف یہی نہیں، اُن کے مسلسل انکار اور تکالیف کے باوجود بھی آپﷺ اُنہیں بڑی جانفشانی سے ایک اللہ کی طرف بُلاتے رہے تاکہ وہ اللہ کے عذاب سے بچ سکیں۔

اسلام قطع رحمی کرنے والوں سے بھی صلۂ رحمی کی تلقین کرتا ہے۔ بخاری شریف کی روایت کے مطابق رسول اللہ ﷺ نے فرمایا’’احسان کا بدلہ احسان سے دینے والا صلۂ رحمی کرنے والا نہیں، بلکہ صلۂ رحمی کرنے والا تو وہ ہے، جب اُس سے قطع رحمی کی جائے، تو وہ اس سے جوڑے۔‘‘حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا’’تین صفات ایسی ہیں کہ وہ جس شخص میں بھی ہوں ،اللہ تعالی اُس سے آسان حساب لے گا اوراُسے اپنی رحمت سے جنّت میں داخل فرمائے گا۔‘‘ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا’’ یا رسول اللہﷺ! کن(صفات والوں )کو؟‘‘ آپﷺنے فرمایا’’جو تجھے محروم کرے، تُو اُسے عطا کر، جو تُجھ پر ظلم کرے، تُو اُسے معاف کر اور جو تجھ سے (رشتے داری اور تعلق) توڑے، تُو اُس سے جوڑ۔‘‘ ایک صحابیؓ نے عرض کیا’’ یارسول اللہﷺ!اگر مَیں یہ کام کر لوں، تو مجھے کیا ملے گا؟‘‘ آپﷺ نے فرمایا’’ تجھ سے حساب آسان لیا جائے گا اور تجھے اللہ تعالی اپنی رحمت سے جنّت میں داخل فرما دے گا۔‘‘

ایک اور حدیثِ مبارکہؐ ہے کہ نبی کریمﷺنے اِرشاد فرمایا کہ’’ میدانِ حشر میں رحم (جو رشتے داری کی بنیاد ہے) عرشِ خداوندی پکڑ کر یہ کہے گا کہ’’ جس نے مجھے (دُنیا میں) جوڑے رکھا، آج اللہ تعالیٰ بھی اُسے جوڑے گا(یعنی اُس کے ساتھ انعام وکرم کا معاملہ ہوگا) اور جس نے مجھے (دُنیا میں) کاٹا، آج اللہ تعالیٰ بھی اُسے کاٹ کر رکھ دے گا (یعنی اُس کو عذاب ہوگا)۔(بخاری شریف)۔نیز، احادیث سے یہ بھی ثابت ہے کہ دُنیا میں بالخصوص دو گناہ ایسے شدید تر ہیں، جن کی سزا نہ صرف یہ کہ آخرت میں ہوگی، بلکہ دُنیا میں بھی ملے گی، ایک ظلم اور دُوسرا قطع رحمی۔حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ’’ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !میرے اقارب ہیں، مَیں اُن سے جوڑ پیدا کرتا ہوں، مگر وہ مجھ سے توڑتے ہیں۔ 

مَیں اُن پر احسان کرتا ہوں، مگر وہ مجھ سے بدی کرتے ہیں۔ مَیں اُن کے ساتھ حلم وبردباری سے پیش آتا ہوں، مگر وہ مجھ سے جہل وجفا سے پیش آتے ہیں۔‘‘تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُس شخص سے فرمایا’’اگریہی حال ہے، جو تم نے بیان کیا ہے، تو تُو اُن کے منہ پر جلتی راکھ ڈالتا ہے اور ہمیشہ اللہ کی طرف سے تیرے ساتھ ایک فرشتہ رہے گا، جو تجھ کو اُن پر غالب رکھے گا، جب تک تُو اِس حالت پر رہے گا‘‘( مسلم شریف)۔ایک حدیث میں آتا ہے کہ نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا’’ جس آدمی نے اپنے رشتے داروں کے ساتھ میل جول حقارت کی وجہ سے تَرک کیا، وہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کی رحمت سے محروم رہے گا۔‘‘نبی کریمﷺ کا ارشادِ مبارکہ ہے’’بے شک آدم کے بیٹوں کے اعمال ہر جمعرات کی رات اللہ کے دربار میں پیش کیے جاتے ہیں، مگر رشتہ کاٹنے والے کے اعمال ضائع کردیے جاتے ہیں‘‘(مسند احمد)۔

صلۂ رحمی اور قرابت داروں کے حقوق کا جس طرح آنحضرتﷺ کے جاں نثار صحابہ رضوان اللہ تعالیٰ علیہم نے اہتمام کیا، وہ رہتی دنیا تک کے لیے ایک روشن مثال ہے۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ، حضرت مسطح رضی اللہ عنہ کی کفالت کرتے تھے، جو اُن کے قرابت دار تھے۔ جب حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے خلاف پروپیگنڈا کیا گیا، تو مخلص اور سیدھے سادے چند مسلمان بھی اُس سے متاثر ہو گئے، جن میں حضرت مسطح رضی اللہ عنہ بھی شامل تھے۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے باپ ہونے کے ناتے جذبات میں آکر قسم کھائی کہ’’ آئندہ مسطح ؓ کی کفالت نہیں کروں گا‘‘، مگر اللہ تعالیٰ نے سورۂ نور میں ارشاد فرمایا کہ’’ قرابت داروں کی مدد نہ کرنے اور اُن کی کفالت نہ کرنے کی قسم نہ اٹھائو، بلکہ اپنا حُسنِ سلوک جاری رکھو۔‘‘حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ نے اپنا قیمتی باغ ’’بیرحا‘‘ اللہ کی راہ میں صدقہ کیا، تو آپﷺ نے اُنہیں حکم دیا کہ اسے اپنے قرابت داروں میں تقسیم کر دو۔ اِس پر اُنہوں نے اسے اپنے اقارب میں تقسیم کر دیا۔

اُمّ المومنین، حضرت زینب رضی اللہ عنہا اپنے قرابت داروں کے ساتھ بہت اچھا سلوک کیا کرتی تھیں۔ ایک مرتبہ امیرالمومنین، حضرت عُمر رضی اللہ عنہ نے اُن کی خدمت میں سالانہ وظیفہ بھیجا، جو بارہ ہزار درہم تھا، تو اُنہوں نے وہ ساری رقم اپنے اقربا میں تقسیم کردی۔یہ حُسنِ سلوک صرف مسلمان قرابت داروں کے ساتھ مخصوص نہ تھا، بلکہ صحابۂ کرامؓ کافر اور مشرک اقربا سے بھی صلۂ رحمی کیا کرتے تھے۔ ابو دائود کی ایک روایت کے مطابق حضرت عُمر رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ ﷺ کا دیا ہوا ریشمی جوڑا اپنے مشرک بھائی کے پاس بھیج دیا، جو مکّۃ المکرمہ میں مقیم تھا۔حضرت اسماء رضی اللہ عنہا کی والدہ، جو غیر مسلم تھیں، مالی مدد کے لیے اُن کے پاس مدینہ منوّرہ آئیں، تو اُنہوں نے رسول اللہ ﷺ سے دریافت کیا کہ’’ وہ اُن کے ساتھ صلۂ رحمی کر سکتی ہیں؟‘‘ 

تو آپﷺ نے فرمایا ’’ہاں کر سکتی ہیں۔‘‘ صلۂ رحمی کا اِس قدر اہتمام اس لیے تھا کہ وہ جانتے تھے، اگر انسان حقوق اللہ کے ساتھ حقوق العباد میں بھی کامل ہے، تو اس کی فلاح یقینی ہے، کیوں کہ ربّ تعالیٰ چاہیں، تو اپنے حقوق معاف کر دیں، مگر اپنے بندوں کے حقوق معاف نہیں کریں گے، جب تک بدلہ نہ دلوادیں، تو پھر اپنی دنیاوی اور اخروی زندگی میں آسانی کے لیے دوسروں کی بے غرض خدمت کو اپنا معمول ضرور بنائیں۔ کبھی ٹوٹے، بکھرے اور غم زدہ دِلوں میں بھی ضرور جھانکیں۔ لوگوں کو تکلیف دینا چھوڑ دیں، معاف کرنا سیکھیں، پھر دیکھیں کہ اللہ تعالیٰ کس طرح زندگی کے تکلیف دہ راستوں سے کانٹے چُن چُن کر آپ کے راستوں کو سہل بناتا ہے۔

تازہ ترین