• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اگر آپ پاکستانی ہیں، محبِ وطن ہیں، تو پھر آپ نے NABکا نام ضرور سنا ہوگا۔ اگر آپ نے NABکا نام نہیں سنا ہے، تو پھر آپ پاکستانی نہیں ہیں۔ محبِ وطن پاکستانی ہونے کے لئے لازم ہے کہ آپ نے نیب کا نام سنا ہو۔

عام طور پر پاکستان میں حکومتیں چلتی نہیں ہیں، چلائی جاتی ہیں۔ حکومتیں چلانے کے لئے خفیہ ادارے بنائے جاتے ہیں جو کھٹارا گاڑی کو دھکا اسٹارٹ کرتے رہتے ہیں۔ خفیہ اداروں میں آپ کی طرح اور آپ کے بچوں کی طرح، میری طرح اور میرے بچوں کی طرح کے بخشے ہوئے لوگ کام کرتے ہیں۔ ہم پیٹرول سے چلنے والی گاڑی میں ڈیزل ڈال دیتے ہیں۔ ڈیزل سے چلنے والی گاڑی میں کاسلیٹ یعنی مٹی کا تیل ڈال دیتے ہیں۔ ہم ہیں اللہ سائیں کی بخشی ہوئی مخلوق… ہم پاکستانی حکومتوں کے ہر ادارے میں کام کرتے ہیں۔ کھٹارا گاڑی کو دھکا اسٹارٹ رکھنے کے لئے پاکستانی حکومتیں خفیہ ادارے بناتی رہتی ہیں۔ کچھ عرصہ بعد حکومتیں خود تو اللہ حافظ ہو جاتی ہیں اور اپنے پیچھے اپنے بنائے ہوئے ادارے چھوڑ جاتی ہیں۔ ہماری تاریخ کے ابتدائی دنوں میں حکومتوں کو انگریز کا بنایا ہوا ادارہ سی آئی ڈی CIDورثے میں ملا تھا۔ ایک اور خفیہ ادارہ بھی ہماری حکومتوں کو ورثے میں ملا تھا۔ اس ادارہ کا نام تھا، اے سی ڈی، یعنی اینٹی کرپشن ڈپارٹمنٹ۔ اس ادارہ کا کام تھا دیگر اداروں میں رشوت خوروں پر نظر رکھنا اور انہیں رشوت لیتے ہوئے رنگے ہاتھوں پکڑنا۔ کچھ عرصہ بعد آنے والی حکومتوں کو ایک اور خفیہ ادارہ بنانا پڑا، جس ادارے کا کام تھا اینٹی کرپشن ادارہ میں رشوت خور افسران کا قلع قمع کرنا۔ اس ادارہ کا نام اپنی قومی زبان میں رکھا گیا تھا۔ اس خفیہ ادارہ کا نام تھا، اینٹی کرپشن ادارہ کا زہر مہرہ یعنی تریاق۔ مجھے نہیں معلوم کہ اینٹی کرپشن ادارہ کا تریاق ادارہ آج کل فعال ہے یا گولڈن ہینڈ شیک کے بعد بند کردیا گیا ہے۔ گولڈن ہینڈ شیک نے بھی اچھوں اچھوں کے وارے نیارے کردیے ہیں۔ایک محبِ وطن پاکستانی ہونے کے ناطے آپ نے نیب NABکا نام ضرور سنا ہوگا اور یاد بھی رکھا ہوگا مگر آپ نے BANکا نام نہیں سنا ہوگا۔ بین کا کام وہی ہے، جو نیب کا کام ہے مگر نوعیت مختلف ہے۔ نیب NABکا کام ہے آمدن سے زیادہ اثاثے رکھنے والوں کی نیند حرام کرنا۔ بین BANکا کام ہے آمدن سے کم تر، بدتر زندگی گزارنے والوں کی نیند اڑانا۔ میں اِس ادارے میں کام کر چکا ہوں۔ آپ سوچ رہے ہوں گے کہ مجھ جیسے ایک بونگے کو ذہین لوگوں کے ایک ادارے میں ملازمت کیسے مل سکتی ہے؟ میں اِس راز سے پردہ نہیں اٹھا سکتا۔ ہاں، میں آپ کو اتنا بتا سکتا ہوں کہ بین BANادارہ میں ملازمت سے میں کیوں نکالا گیا تھا۔بات کچھ اس طرح ہے کہ افسرِ اعلیٰ نے مجھے بلایا اور کہا: مجھے پتا چلا ہے کہ جوزف اسٹریٹ کے ایک بےحد چھوٹے مکان میں ایک بائیس گریڈ کا ریٹائرڈ افسر کسمپرسی کی حالت میں رہتا ہے۔ تم چھان بین کرکے مجھے بتائو کہ وہ شخص پنشن میں ملنے والی اچھی خاصی رقم کا کیا کرتا ہے؟افسرِ اعلیٰ کو متاثر کرنے کے لئے میں نے کہا۔ سر: ہو سکتا ہے بائیس گریڈ کا ریٹائرڈ افسر اپنی پنشن سے غریب طالب علموں کی فیس بھرتا ہو۔ کسی نادار کا علاج کرواتا ہو۔ کسی کے گھر راشن پہنچاتا ہو۔

افسرِ اعلیٰ کے تیور بدل گئے۔ کہا: جو تمہیں کہا گیا ہے وہ کرو۔ پھنے خان مت بنو۔ ہمارے محکمہ میں آرڈر ملنے کے بعد جواب میں تم صرف یس سر کہہ سکتے ہو۔ اس سے آگے تم ایک لفظ منہ سے نہیں نکال سکتے۔ Order is order۔اب یہ بات طے ہو چکی ہے کہ آمدن سے زیادہ اثاثے رکھنے والا شخص کرمنل ہوتا ہے۔ اور آمدن سے کم اثاثے رکھنے والا بھی کرمنل ہوتا ہے۔ اس لحاظ سے میرے ادارے BANبین کے مطابق بائیس گریڈ میں ریٹائر ہونے والا شخص کرمنل تھا، کیوں کہ وہ تن تنہا کسمپرسی کی زندگی گزار رہا تھا۔ کسی کے پیچھے پڑنے سے پہلے اب ہم ہاتھ نہیں دھوتے۔ کورونا کے ڈر سے بار بار ہاتھ دھونے کی وجہ سے اب ہمارے ہاتھ پیر ہر وقت دھلے ہوئے ہوتے ہیں۔ اس لئے جب چاہیں، ہم کسی کے بھی پیچھے پڑ سکتے ہیں۔ میں بائیس گریڈ میں ریٹائر ہونے والے افسر کے پیچھے پڑ گیا۔ مختلف زاویوں سے میں نے کھوج لگائی۔ اس کا نام تھا عبدالواحد۔ جب وہ اٹھارہویں گریڈ میں تھا تب اس کی بیوی نے طلاق لے کر بیسویں گریڈ میں کام کرنے والے ایک شخص سے شادی کرلی تھی اور اپنے دونوں بیٹے عبدالواحد کے حوالے کر گئی تھی۔ عبدالواحد نے دونوں بیٹوں کی پرورش کی۔ انہیں پڑھا لکھا کر بڑا کیا۔ دونوں نے لو میرج کی۔ دونوں نے الگ الگ اچھے خاصے مکان خرید لئے۔ دونوں بھائیوں کے گھر میں بوڑھے باپ کو رکھنے کے لئے سرونٹ کوارٹر کے علاوہ کوئی جگہ نہیں تھی۔ دونوں بیٹوں کی اس کے علاوہ کوئی دلچسپی نہیں تھی کہ ہر ماہ وہ اپنے والد سے پنشن کی رقم اینٹھ لیتے تھے۔ بیٹوں کے ہاں سرونٹ کوارٹر میں رہنے کی بجائے عبدالواحد ڈیڑھ سو روپے ماہوار کرایہ پر ایک کھولی میں رہنے لگا۔ اسی کھولی میں میری پہلی اور آخری ملاقات عبدالواحد سے ہوئی تھی۔ جب میں نے عبدالواحد سے پوچھا: تو اس کا مطلب ہے کہ آپ اپنی پنشن کی رقم دہشت گردوں کو نہیں دیتے۔ عین اسی وقت کسی نے لات مار کر دروازہ کھول دیا۔ دو ہٹے کٹے، خوش لباس آدمی کھولی میں داخل ہوئے۔ عبدالواحد نے ٹوٹی ہوئی میز کے دراز سے دو چیک نکال کر ان کو دیے۔ ایک آدمی نے کہا: آپ کی پنشن میں دس فیصد اضافہ کرنے سے انکار کرکے عمران خان نے سینئر سٹیزنز پر بڑا ظلم کیا ہے۔جب دونوں آدمی چلے گئے تب عبدالواحد نے کہا: وہ دونوں دہشت گرد نہیں تھے۔ وہ میرے بیٹے تھے۔

تازہ ترین