• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کورونا جہاں ایک طرف انسانی صحت کے لیے خطرناک ہے اور اس سے بچاؤ کے لیے نت نئی ادویات، انجیکشنز، ویکسئینز ایجاد کی جا رہی ہیں۔ وہیں دوسری طرف یہ جاننا بھی بہت ضروری ہے کہ آخر یہ کورونا ہوا کیسے؟ کیوں کہ لاکھ علاج تلاش کر لیا جائے۔ لیکن جب تک اصل وجہ کو معلوم نہیں کیا جاتا اس چیز کا یا اس بیماری کا سد باب ممکن نہیں ہوتا۔ آپ لاکھ دوائی نکال لیں یا ویکسین تلاش کر لیں۔ لیکن جب تک بیماری کی اصل وجہ نہیں معلوم ہوگی کیسے یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ دوائی یا ویکسین اس مرض کا درست علاج ہے۔ایک تحقیقی مقالہ میں تحریر تھا کہ کورونا وائرس کی وجہ سے ہوتا ہے۔ یہ وائرس جانوروں سے پیدا ہوتے ہیں۔ چمکادرڈ اور پینگولین ( pangolin and bat) اس کی اصل وجہ ہیں۔ پینگولین دنیا میں اسمگل ہونے والا مہنگا ترین جانور ہے۔ جس کی کھال کی عالمی مارکیٹ میں لاگت لاکھوں ڈالر کی ہے۔عموما یہ ایشیائی ممالک میں ہوتا ہے ۔جس میں چین، انڈیا ، ملائیشیا اہم ہیں ۔ حالانکہ ان کی نسل ناپید ہوتی جارہی ہے۔ان کی اہم خوراک چیونٹیاں ہیں۔سائنسدانوں کی ایک بڑی تعداد اس کی بنیادی وجہ root causes معلوم کرنے میں لگی ہوئی ہے۔ لیکن سال سے اوپر ہو جانے کے باوجود ابھی تک کورونا وائرس کی اصل وجہ معلوم نہ کی جاسکی ہے۔ ابھی تک یہ طے ہوچکا ہے کہ یہ جانوروں سے ہی لگنے والی بیماری ہے۔ لیکن کس جانور سے ، لگتی کیسے اس کا تعین ہونا باقی ہے۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ سائنس اتنی ترقی کرچکی ہے ۔اتنی حیرت انگیز ایجادات ہو چکی ہیں کہ ایک عام آدمی کی عقل دنگ رہتی ہے کہ آخر یہ سب کیسے ہوتا ؟ ابھی وہ یہ سوچ ہی رہا ہوتا ہے کہ ایک اور نئی ایجاد اسے مزید حیرت میں ڈال دیتی ہے۔ ایسے میں ایک سال سے زائد کا عرصہ گزر جانے کے باوجود کورونا وائرس کی اصل وجہ معلوم نہ ہونا انتہائی حیرت انگیز ہے۔ ایسے میں کئی سوال پیدا ہوتے ہیں ۔ کیا یہ قدرت کی طرف سے ہے جو انسانی عقل ابھی تک اس کی وجہ جاننے سے قاصر ہے؟ کیا یہ جانوروں سے غیر معمولی اختلاط رکھنے کی بدولت ہوا ہے اور انسان اسے قبول کرنے سے قاصر ہے؟ یا یہ واقعی چند انسانوں کا مخصوص مقاصد کی حصول کے لئے بنایا ہوا وائرس ہے؟ کیا جہاں سے یہ بظاہر شروع ہوا تھا وہاں سے ہی وائرس تشکیل دیا گیا ہے کیونکہ اب وہاں اس کے کوئی اثرات نہیں؟ کیا یہ کسی خاص معاشی مقصد کے لئے پیدا کیا گیا؟ کیونکہ جہاں بہت سے معاشی شعبوں میں ابتری ہوئی ہے وہیں کچھ شعبوں کی مالی حالت بہت مستحکم ہوئی ہے۔ بالکل اسی طرح کچھ ملکوں کی مالی حالت بہت مستحکم ہوئی لیکن اصل زیادہ تر ملکوں کی مالی حالت بہت خراب ہوئی ہے۔ جب تک ساری صورتحال واضح نہیں ہوتی ۔ان سارے سوالات کے جوابات نہیں مل جاتے کوئی بات بھی یقین سے نہیں کہی جاسکتی ۔ لیکن اس غیر یقینی کی صورتحال میں شکوک و شبہات زیادہ پیدا ہورہے ہیں۔ ممالک ایک دوسرے پہ انگلیاں اٹھارہے ہیں۔ یہ سلسلہ کب تک چلے گا کچھ کہا نہیں جاسکتا۔ لیکن تاریخ کے علم سے یہی سبق ملتا ہے کہ بے سبب کچھ نہیں ہوتا! کسی مخصوص فائدہ کے لئے بہت سوں کا نقصان کیا جاتا۔

minhajur.rab@janggroup.com.pk

تازہ ترین