سابق حکومتوں کی ایل این جی امپورٹ ٹرمینل قائم کرتے ہوئے گیس درآمد کرنے کی کئی ایک کوششیں ناکام ہو چکی تھیں۔ پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبے پر بھی دستخط ہوئے لیکن ایران پر امریکی پابندیوں اور علاقائی سیاست کی وجہ سے یہ اور دیگر منصوبے فعال نہ ہو سکے جس کام میں دیگر حکومتیں ناکام ہو چکی تھیں، 2015میں شاہد خاقان عباسی ملک کا پہلا ایل این جی ٹرمینل قائم کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ یہ ٹرمینل اس وقت تک کا دنیا میں لگایا گیا سب سے سستا ٹرمینل ہے۔ پاکستان مسلم لیگ ن کے قائم کردہ دو ٹرمینل ایک ماہ میں ایل این جی کے بارہ کارگوز کو گیس میں تبدیل کرنے کی گنجائش رکھتے ہیں جسے زیادہ بھی کیا جا سکتا ہے۔ اگر حکومت ٹرمینل کی اضافی گنجائش کو استعمال کرتی تو گیس کی جس قلت کا آج ہمیں سامنا ہے، اُس سے بچا جا سکتا تھا۔
ہماری حکومت نے 2014میں قطر سے معاہدہ شروع کیا اور اسی وقت پانچ سالہ ٹینڈرز جاری کیے۔ برنٹ نے 13.37فیصد کی پیش کش کرتے ہوئے ایک ٹینڈر حاصل کر لیا۔ ایل این جی کے دنیا کے سب سے بڑے ٹریڈر، شیل نے دوسرے ٹینڈر کے لئے13.9 فیصد کی بولی دی تھی لیکن شیل نے Gunvorکی قیمت کے برابر آنے سے انکار کردیا۔ اس پر یہ بولی منسوخ کردی گئی۔ اس پر قطر سے اس ٹینڈر کی بنیاد کے مطابق قیمت طے کرنیکی درخواست کی گئی۔ قطر ہماری درخواست مان گیا۔ ہم نے برنٹ کی دی ہوئی بولی،13.37 فیصد پر قطر سے معاہدہ کر لیا جو کہ اُس وقت کا طویل المدت سستا ترین معاہدہ تھا۔ جب دوسرا ٹرمینل فعال ہونے کے قریب تھا، ہماری حکومت نے ایل این جی کے مزید دو معاہدے کیے۔ اٹلی کی ایک بہت بڑی آئل کمپنی، ای این آئی کے ساتھ 11.95فیصد پر پندرہ سال کا اور دوسرا برنٹ کے ساتھ 1.65پر پانچ سال کا معاہدہ تھا۔
2018میں پاکستان مسلم لیگ ن کی حکومت کی مدت تمام ہوئی تو بارہ کارگو کی گنجائش رکھنے والا ٹرمینل، آٹھ ایل این جی کارگو ماہانہ کے طویل المدت معاہدے اپنی جگہ پر موجود تھے۔ پاکستان کے شمال کے لئے ایل این جی کے بارہ اور ضرورت پڑنے پر سندھ کے لئے کارگو کے چار معاہدے پائپ لائن میں تھے۔ تھرڈ پارٹی کی ایل این جی تک رسائی کے لئے ریگولیٹری کے تمام مسائل طے کر دیے گئے تھے۔ مرچنٹ ایل این جی ٹرمینل قائم کرنے کے مسائل بھی حل ہو چکے تھے۔ تھرڈ پارٹی کے لئے اوگرا کی طرف سے ٹیرف کا تعین کردیا گیا تھا۔ سوئی گیس سدرن اور نادرن پاکستان کی پہلی بیالیس انچ قطر کی پائپ لائن تعمیر کرنے کے لئے تیار تھی تاکہ یومیہ 1,200ملین کیوبک فٹ گیس شمالی پاکستان تک پہنچائی جا سکے۔ دنیا کی سب سے بڑی آئل کمپنی ایکسن موبل (Exxon Mobil) نے بھی پاکستان میں مرچنٹ ایل این جی ٹرمینل قائم کرنے کا فیصلہ کر لیا تھا۔ پاکستان مسلم لیگ ن کی حکومت نے بارہ سو میگا واٹ بجلی پیدا کرنے والے تین پلانٹس لگائے۔ ایل این جی سے چلنے والے یہ پلانٹس دنیا کے سب سے ایفی شینٹ پلانٹس ہیں جو 61فیصد تھرمل انرجی کو بجلی میں تبدیل کر سکتے ہیں۔ جب تحریک انصاف کی حکومت قائم ہوئی تو اُس نے چند ماہ کے اندر مزید دو ٹرمینل قائم کرنے کا وعدہ کیا لیکن ڈھائی سال کے دوران نہ تو کسی نئے ٹرمینل پر کام شروع کیا گیا اور نہ ہی موجودہ ٹرمینل کی پیداواری گنجائش بڑھائی گئی۔ ایکسن موبل پیچھے ہٹ گئی۔ سرمایہ کار اپنی دلچسپی ختم ہونے کی دو وجوہات بیان کرتے ہیں۔ پہلی میری ٹائم افیئرز کی وزارت کی ضروریات اور دوسری پٹرولیم ڈویژن کا ایل این جی کی ترسیل کے لئے پائپ لائن نہ بچھانا۔ یہ بات ناقابلِ فہم ہے کہ پٹرولیم ڈویژن نے نئی پائپ لائن کا کام کیوں شروع نہیں کیا حالانکہ روسی حکومت کا معاہدہ اپنی جگہ پر موجود تھا۔ اس غفلت نے پاکستان میں گیس کی قلت پیدا کردی ہے۔
گزشتہ موسم گرما میں حکومت نے ایک بار پھر سردیوں کے لئے ایل این جی کا ٹینڈر دینے کی ضرورت محسوس نہ کی۔ مثال کے طور پر جنوری کے لئے حکومت نے دس دسمبر کو ٹینڈ ر کھولااور خود ہی ٹینڈر دینے کے لئے بائیس دسمبر کی تاریخ رکھ لی۔ تین سپلائی ونڈوز کے لئے ایک بولی نہیں ہونی تھی۔ حالیہ موسم سرما میں حکومت نے مسلم لیگ ن کے معاہدے سے دوگنی قیمت پر ایل این جی خریدی ہے۔ اگر حکومت بروقت ٹینڈر جاری کرتی ، جیسا کہ بھارت اور بنگلہ دیش نے کیا تھا، تو اسے موجودہ قیمت سے نصف پر ایل این جی مل سکتی تھی۔ جس دوران حکومت سوچ بچار میں مصروف تھی، فروری کے کارگو کے لئے سب سے کم بولی دینے والی کمپنی پیچھے ہٹ گئی۔ اس سے طویل المدت معاہدوںکی اہمیت کاپتہ چلتا ہے ،اور جس کا مسلم لیگ ن کی حکومت کو احساس تھا۔ دنیا میں 70 فیصد ایل این جی طویل المدت معاہدوںکے تحت ہی فروخت ہوتی ہے۔ یہ مسلم لیگ ن کی ڈیل تھی جسے تحریک انصاف نے جھوٹے الزامات کانشانہ بنایا تھا اور یہی ڈیل اس وقت ملکی معیشت کو بچا رہی ہے۔