• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

انسانی تہذیب و سیاست میں سب سے بڑا جرم ہوسِ اقتدار میں لوگوں کے جذبات سے کھیلنا اور نفرت کی آگ بھڑکانے کے لیے انسانوں کو موت کے گھاٹ اُتارنا ہے۔ مودی صاحب جنہوں نے اپنی عملی زندگی کا آغاز چائے فروشی سے کیا تھا، اُن کے سر میں یہ سودا سمایا کہ وہ انتہا پسند ہندو تنظیموں سے وابستہ ہو کر سیاست میں نام پیدا کر سکتے ہیں۔ اِس مقصد کے لیے اُنہوں نے فنِ خطابت اور عوامی جذبات بھڑکانے کے طور طریق سیکھے اور ہندو توا سے منسلک ہو گئے جسے مسلمانوں سے تاریخی کَدّ ہے کہ وہ اپنی ایک جداگانہ تہذیبی اور تمدنی حیثیت رکھتے ہیں اور ہندوستان کے ایک ہزار سال حکمران رہے ہیں۔ اِن ہندو تنظیموں کی نگاہ میں مسلمانوں کا سب سے بڑا جرم قیامِ پاکستان ہے جس سے گاؤ ماتا کے دو ٹکڑے ہو گئے ہیں۔ اِس جرم کا انتقام وہ پاکستان کو تقسیم کر کے لینا چاہتی تھیں، چنانچہ مشرقی پاکستان میں ایسے ایسے فتنے اُٹھائے گئے اور مکتی باہنی جیسی عسکری تنظیمیں کھڑی کی گئیں کہ پاکستان دولخت ہو گیا۔ مکتی باہنی کے قیام اور اِس کی خون آشام دہشت گردی میں مودی نے بنفسِ نفیس حصّہ لیا جس کا اُنہوں نے بڑے فخر سے باربار ذِکر بھی کیا ہے۔

اقوامِ متحدہ کا چارٹر کسی ملک کو دوسرے ملک کے خلاف جارحیت کا حق نہیں دیتا، مگر عالمی طاقتیں اندرا گاندھی کے ٹسوؤں کے سحر میں گرفتار ہو گئیں۔ مودی صاحب جن کو دہشت گردی اور اِنتہاپسندی کا چسکا لگ چکا تھا، وہ اِسی راستے پر بگٹٹ دوڑتے چلے گئے اور مہاراشٹرا کے عوام کو تابناک انڈیا کا خواب دِکھا کر وزیرِاعلیٰ بننے میں کامیاب رہے۔ اُن کے دورِ حکومت میں ’سمجھوتہ ایکسپریس‘ نذرِ آتش کی گئی جس میں مسلمان مسافر تھے۔ وہ سینکڑوں کی تعداد میں زندہ جل کر کوئلہ ہو گئے۔ ایک بھارتی کرنل جو اِس بھیانک منظر سے لرز اُٹھے تھے، اُنہوں نے انکوائری کمیٹی میں شہادت دینے کا عندیہ دیا، تو وہ پُراسرار طور پر قتل کر دیے گئے۔ اب مودی جی ’’مسلمانوں کا قاتل‘‘ کا لقب حاصل کر چکے تھے اور ہندو توا کے سب سے بڑے چیمپئن۔ وہ ہندو اِنتہاپسندی کے نعرے ہی پر 2014میں بھارت کے وزیرِاعظم بنے اور ایسی پالیسیاں بناتے رہے جن سے اقلیتوں کا سیاسی، معاشی اور معاشرتی گھیراؤ کیا جا سکے۔ پے در پے غیرجمہوری اور غیرسیاسی اقدامات سے بھارت اندر سے ٹوٹ رہا تھا۔ پھر نوبت یہاں تک آ پہنچی کہ اِنھیں دوبارہ انتخابات جیتنے کے لیے پلوامہ جیسے فوجی ایڈونچر کا سہارا لینا پڑا جو ایٹمی جنگ پر بھی منتج ہو سکتا تھا۔ پاکستان کی بہادر فوج نے دشمن کے مذموم اِرادے خاک میں ملا دیے۔ اِس واقعے سے بھارت کی بہت جگ ہنسائی ہوئی۔ اِس ہزیمت سے توجہ ہٹانے کے لیے مودی حکومت نے وادیٔ لداخ میں چین سے چھیڑ چھاڑ شروع کر دی، لیکن بری طرح منہ کی کھائی۔ یوں چین کا گھیراؤ کرنے والا بھارت بےبسی کی تصویر بن چکا تھا اور اِس کا عالمی وزن تیزی سے کم ہوتا جا رہا تھا۔

مودی نے دوسری بار اِنتخابات میں فتح حاصل کرنے کے بعد ایک اور ایسا قدم اٹھایا جو اپنے آپ سے بدترین انتقام لینے کے مترادف تھا۔ اُنہوں نے کمال عیاری اور ڈھٹائی سے بھارتی آئین میں ترمیم کے ذریعےمقبوضہ کشمیر کی جداگانہ حیثیت ختم کر کے اِسے بھارت کے اندر ضم کر لیا۔ اِس اقدام کے خلاف عالمی برادری میں اونچی آوازیں اٹھنے لگیں۔ انسان جب جرائم پیشہ بن جاتا ہے، تو جرم کرنے کی ہوس بڑھتی جاتی ہے، چنانچہ وزیرِاعظم مودی نے شہریت کا ایک متنازع قانون نافذ کر دیا جس کا بنیادی مقصد آسام میں آباد مسلمانوں کی شہریت ختم کرنا تھا۔ اِس قانون کے خلاف دہلی میں کئی ماہ احتجاج ہوتا رہا جس میں پہلی بار بڑی تعداد میں خواتین آگے آئیں۔ اِن مظاہروں سے پورے بھارت میں اضطراب کی لہر پھیلتی چلی گئی۔ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ جب عذاب نازل کرنا چاہتا ہے، تو حکمرانوں کی عقل پر پردے ڈال دیتا ہے۔ ابھی شہریت کے متنازع قانون کے خلاف اقلیتوں میں شدید ہیجان ختم نہیں ہوا تھا کہ مودی سرکار نے زرعی اصلاحات کے نام پر کسانوں اور کاشت کاروں پر رزق کے دروازے بند کرنا شروع کر دیے۔ یہ مودی جی کا اپنے خلاف سب سے بہیمانہ انتقام ہے۔ زرعی اصلاحات کے خلاف پنجاب اور ہریانہ سے کسان دہلی کی طرف بڑھے اور دارالحکومت کا گھیراؤ کر لیا۔ دو ماہ سے مظاہرے جاری تھے اور حالات بےقابو ہوتے جا رہے تھے۔ پھر 26جنوری کے روز چشمِ فلک نے دو اندوہناک مناظر دیکھے جو بھارت کے سیکولرازم اور سالمیت کے لیے حقیقی خطرے کی حیثیت رکھتے ہیں۔

26 جنوری کو بھارت میں یومِ جمہوریہ بڑے جوش و خروش سے منایا جاتا ہے۔ اِس تقریب میں لاکھوں اشخاص شرکت کرتے ہیں۔ فوجی پریڈ میں جدید ترین ہتھیاروں کی نمائش ہوتی ہے اور کوئی بہت بڑی عالمی شخصیت مہمانِ خصوصی کی حیثیت سے شرکت کرتی ہے۔ اِس بار اِس روز کسان ہزاروں ٹریکٹروں پر آئے اور دہلی کے لال قلعہ پر اپنی شناخت کا پرچم لہرا دِیا جہاں کبھی بھارت کا ترنگا لہرایا جاتا تھا۔ مودی نے اپنے آپ سے انتقام لیتے ہوئے اپنے سیکولر وطن سے بھی خونچکاں اِنتقام لے لیا ہے کہ اِس کی وحدت کا پرچم سرنگوں ہو گیا ہے اور وہ اِس اہم تقریب سے خطاب بھی نہیں کر سکے۔ اِس کا شیرازہ بکھرنے والا ہے اور من موہن سنگھ کی فروغ پذیر معیشت بےحد روبہ زوال ہے۔ اِسی روز بھارتی کسانوں کے حق میں واشنگٹن، برطانیہ اور برلن میں بڑے بڑے مظاہرے ہوئے اور اہم دارالحکومتوں کے ایوانوں میں سوال اُٹھایا جا رہا ہے کہ بھارت اہلِ کشمیر اور اپنے کاشت کاروں کے ساتھ ظالمانہ سلوک کیوں روا رکھے ہوئے ہے؟ اِس روز مقبوضہ کشمیر میں مکمل ہڑتال اور سری نگر جامع مسجد پر پاکستانی پرچم کا لہرایا جانا ایک تاریخ ساز استعارے کی حیثیت رکھتا ہے۔ اِس نازک مرحلے میں پاکستان کے حکمرانوں کا بہت کڑا اِمتحان ہے کہ اِنھیں پوری قوم کی حمایت سے ایک تاریخی کردار ادا کرنے کے ساتھ ساتھ بھارت کی جمہوری قوتوں کو اخلاقی حمایت فراہم کرنا اور اپنی جمہوری کارگزاری کو اعتبار بخشنا ہو گا۔

تازہ ترین