• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ٹرانس پیرنسی کا رپورٹ کی تیاری میں پرانا ڈیٹا استعمال کرنیکا دعویٰ مسترد

اسلام آباد (انصار عباسی) پاکستان تحریک انصاف کی حکومت دعویٰ کر رہی ہے کہ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل (ٹی آئی) نے کرپشن کے حوالے سے اپنی گلوبل 2020ء کی رپورٹ میں جو اعداد و شمار استعمال کیے ہیں وہ نون لیگ کی حکومت کے دور کے ہیں لیکن ٹی آئی کی رپورٹ میں اُن دعووں کی نفی کی گئی ہے جو موجودہ حکومت کے کرتا دھرتا کر رہے ہیں۔

ٹی آئی کی تازہ ترین رپورٹ کے مطابق، کرپشن انڈیکس 2020ء کی تیاری کیلئے مندرجہ ذیل ذرائع استعمال کیے گئے تھے: 1) افریقی ڈویلپمنٹ بینک کنٹری پالیسی اینڈ ادارہ جاتی جائزہ 2018۔ 2) برٹلسمن اسٹفنگ سسٹین ایبل گورننس انڈی کیٹرز 2020۔ 3) برٹلسمن اسٹفنگ ٹرانسفارمیشن انڈیکس 2020۔ 4) اکنامسٹ انٹیلی جنس یونٹ کنٹری رسک سروس 2020۔ 5) فریڈم ہائوس نیشنز اِن ٹرانزٹ 2020۔ 6) گلوبل انسائٹ کنٹری رسک ریٹنگز 2019۔ 7) آئی ایم ڈی ورلڈ کمپیٹیو نیس سینٹر ورلڈ کمپیٹیو نیس ایئر بُک ۔ ایگزیکٹو اوپینئن سروے 2020۔ 8) پولیٹیکل اینڈ اکنامک رسک کنسلٹنسی ایشین انٹیلی جنس 2020۔ 9) پی آر ایس گروپ انٹرنیشنل کنٹری رسک گائیڈ 2020۔ 10) ورلڈ بینک کنٹری پالیسی اینڈ انسٹی ٹیوشنل اسسمنٹ 2019۔ 11) ورلڈ اکنامک فورم ایگزیکٹو اوپینئن سروے 2019۔ 12) ورلڈ جسٹس پروجیکٹ روُل آف لاء انڈیکس ایکسپرٹ سروے 2020۔ 13) ویرائٹیز آف ڈیموکریسی (وی ڈیم وی 10) 2020۔

ٹی آئی رپورٹ میں ان تمام ذرائع کے حوالے سے تفصیلات بھی بتائی گئی ہیں اور یہ بھی بتایا گیا ہے کہ یہ اعداد و شمار کب جمع کیے گئے۔

ذیل میں ان سرویز میں پوچھے گئے سوالات اور تفصیلات پیش کی جا رہی ہیں۔ افریقن ڈویلپمنٹ بینک کنٹری پالیسی اینڈ انسٹی ٹیوشنل اسسمنٹ 2018ء کوڈ: اے ایف ڈی بی۔

اشاعت کا سال 2019۔ 2019ء کی گورننس ریٹنگ ستمبر اور نومبر 2018ء کے درمیا ن تیار کی گئی اور اسے اپریل 2019ء میں شائع کرایا گیا۔ ماہرین سے پوچھا گیا کہ وہ سرکاری شعبہ جات میں شفافیت، احتساب اور کرپشن کا جائزہ لیں۔ برٹلسمن اسٹفنگ سسٹین ایبل گورننس انڈی کیٹرز 2020 کوڈ: بی ایف (ایس جی آئی) اشاعت کا سال 2020۔

یہ رپورٹ پہلی مرتبہ 2009ءمیں شائع ہوئی تھی اور اب ہر سال شائع ہوتی ہے۔ تازہ ترین پائیدار گورننس کے اشاریے؛ جن کا جائزہ لیا گیا تھا وہ نومبر 2018ء سے نومبر 2019ء تک کے ہیں۔

ماہرین سے پوچھا گیا تھا کہ سرکاری عہدیداروں کو اپنےذاتی مفادات کیلئے کس حد تک اختیارات کے غلط استعمال سے روکا جاتا ہے؟ برٹلسمن اسٹفنگ ٹرانسفارمیشن انڈیکس 2020ء کوڈ: بی ایف (ٹی آئی) اشاعت کا سال 2020ء۔ بی ٹی آئی پہلی مرتبہ 2003ء میں شائع ہوئی تھی اور اس کے بعد سے ہر دو سال بعد شائع ہوتی رہتی ہے۔

ماہرین سے پوچھا گیا کہ وہ اس بات کا جائزہ لیں کہ اپنے عہدوں کا غلط استعمال کرنے والے سرکاری عہدیداروں کو کس حد تک سزا دی جاتی ہے یا ان کیخلاف کارروائی ہوتی ہے؟ حکومت کس حد تک کرپشن کی روک تھام میں کامیاب ہوتی ہے؟

اکنامسٹ انٹیلی جنس یونٹ کنٹری رسک سروس 2020ء کوڈ ای آئی یو۔ اشاعت کا سال 2020ء۔ کنٹری رسک اسسمنٹ کے حوالے سے ای آئی یو 1980ء کے اوائل سے رپورٹس شائع کرتا رہا ہے۔

ہر ماہ 100؍ ممالک کے حوالے سے تازہ ترین سمریاں جاری کی جاتی ہیں اور باقی ملکوں کیلئے سہ ماہی بنیادوں پر رپورٹس جاری کی جاتی ہیں۔ جو مخصوص سوالات پوچھے گئے تھے وہ یہ ہیں:

سرکاری فنڈز کی ایلوکیشن کے معاملے میں واضح ضوابط اور احتساب کا عمل موجود ہے؟ کیا وزراء سیاسی یا پارٹی کے مقاصد کیلئے یا نجی مقاصد کیلئے فنڈز میں خرد برد کرتے ہیں؟ کیا کوئی ایسے فنڈز ہیں جن پر کوئی احتساب نہیں ہوتا؟ کیا سرکاری وسائل کا غلط استعمال ہوتا ہے؟ کیا پیشہ ورانہ سول سروس یا بڑی تعداد میں سرکاری ملازمین کو حکومت بھرتی کرتی ہے؟ کیا کوئی آزاد آڈٹ یا مینجمنٹ کا ادارہ ہے جو سرکاری مالی معاملات کی جانچ پڑتال کرتا ہے؟ کیا عدلیہ آزاد ہے جس کے پاس اتنی طاقت ہے کہ وہ وزیروں اور سرکاری عہدیداروں کی غلط کاریوں پر ان احتساب کر سکے؟ کیا ٹھیکے دینے یا فوائد حاصل کرنے کیلئے رشوت کی ادائیگی کی روایات موجود ہیں؟

فریڈم ہائوس نیشنز اِن ٹرانزٹ 2020ء کوڈ: ایف ایچ۔ اشاعت کا سال 2020ء۔ اس رپورٹ کی تیاری کیلئے اعداد و شمار اور متعلقہ ڈیٹا یکم جنوری 2019ء سے 31؍ دسمبر 2019ء تک حاصل کیا گیا۔

ماہرین سے یہ سوالات پوچھے گئے: کیا حکومت نے انسداد بدعنوانی کیلئے موثر اقدامات کیے ہیں؟ کیا ملکی معیشت ریاستی مداخلت سے پاک ہے؟ کیا حکومت اضافی بیوروکریٹک ریگولیشنز، رجسٹریشن کی ضروریات اور دیگر ایسے ضوابط سے آزاد ہے جن سے کرپشن میں اضافہ ہوتا ہے یا کرپشن کے مواقع پیدا ہوتے ہیں؟

کیا مالی شفافیت ظاہر کرنے اور مفادات کے تضادات کو روکنے کیلئے قوانین موجود ہیں؟ کیا حکومت خالی اسامیوں پر بھرتی اور ٹھیکے دینے کیلئے اشتہار شائع کراتی ہے؟ کیا حخومت ایسی انتظامی اور قانونی اقدامات نافذ کرتی ہے جس میں دیگر سیاسی مخالفین کیلئے تعصب نہ ہو؟ کیا سرکاری عہدیداروں کی کرپشن روکنے، اس کی تحقیقات اور کرپٹ افسران کو سزائیں دینے کا طریقہ کار موجود ہے؟

کیا راز افشاء کرنے والوں، کرپشن مخالف سرگرم کارکنوں اور صحافیوں کو قانونی تحفظ حاصل ہے؟ اور کیا وہ رشوت اور کرپشن کے متعلق رپورٹنگ کرنا خطرے سے پاک ہے؟ کیا کرپشن کے الزامات کو میڈیا میں وسیع کوریج ملتی ہے؟ کیا سرکاری سطح پر ہونے والی کرپشن کیخلاف عوام میں عدم برداشت پایا جاتا ہے؟

گلوبل انسائٹس بزنس کنڈیشنز اینڈ رسک انڈیکیٹرز 2019ء کوڈ جی آئی۔ اشاعت کا سال 2019ء۔ کنٹری رسک ریٹنگ سسٹم 1999ء سے فعال ہے اور مستقل بنیادوں پر کام کر رہا ہے۔ سی پی آئی 2019ء کیلئے گلوبل انسائٹ آئی ایچ ایس ڈیٹا ورلڈ بینک کے ورلڈ گورننس انڈیکیٹرز پورٹل سے حاصل کیے گئے تھے۔ ماہرین سے سوالات کیے گئے تھے کہ: وہ کیا خطرات ہیں جن میں ایک کمپنی یا شخص کو کاروبار کرنے کیلئے رشوت دینا پڑتی ہے یا بڑے ٹھیکے حاصل کرنے کیلئے انہیں رشوت کی ادائیگی کرنا پڑتی ہے تاکہ وہ اپنا مال امپورٹ یا ایکسپورٹ کر سکیں یا پھر روزمرہ کے کام کاج کر سکیں۔ اس سے کسی بھی کمپنی کے ملک میں وجود کو خطرہ لاحق ہو جاتا ہے یا پھر قانونی یا ضوابط کی سطح پر ان پر جرمانے عائد کیے جاتے ہیں یا پھر ان کی ساکھ خراب ہوتی ہے۔

آئی ایم ڈی ورلڈ کمپیٹیو نیس ایئر بُک 2020۔ کوڈ آئی ایم ڈی۔ اشاعت کا سال 2020۔ یہ رپورٹ 1989ء سے ہر سال شائع ہوتی رہی ہے۔ اس رپورٹ کی تیاری کیلئے اعداد و شمار فروری تا اپریل 2020ء کے دوران جمع کیے گئے۔

سوال یہ پوچھا گیا تھا کہ کیا کرپشن اور رشوت ستانی موجود ہے یا نہیں۔ پولیٹیکل اینڈ اکنامک رسک کنسلٹنسی 2020۔ کوڈ پی ای آر سی۔ اشاعت کا سال 2020ء۔

اس رپورٹ کی تیاری کیلئے یہ سوال پوچھا گیا تھا: جس ملک میں آپ کام کرتے ہیں اس میں کرپشن کے مسئلے کی سطح کیا ہے؟ سی پی آئی 2020ء کیلئے جو اعداد وشمار استعمال کیے گئے وہ فروری تا مارچ 2020ء کے دوران جمع کیے گئے تھے۔

پی آر ایس گروپ انٹرنیشنل کنٹری رسک گائیڈ 2020ء۔ کوڈ پی آر ایس۔ اشاعت کا سال 2020ء۔ سی پی آئی 2020ء کے اعداد شمار سہ ماہی بنیادوں پر لیے گئے جائزے کا مجموعہ ہے۔ یہ اعداد و شمار ستمبر 2019ء تا اگست 2020ء کے دوران جمع کیے گئے تھے۔ یہ بنیادی طور پر سیاسی نظام میں پائی جانے والی کرپشن کے متعلق ہے۔

مختلف بزنسز کو جس طرح کی مالیاتی کرپشن کا سامنا کرنا پڑتا ہے اس میں خصوصی ادائیگیاں طلب کیا جانا یا پھر امپورٹ اور ایکسپورٹ لائسنس سے جڑی رشوتیں، ایکسچینج کنٹرول، ٹیکس جائزہ، پولیس پروٹیکشن یا پھر قرضہ جات شامل ہیں۔

کرپشن کی اس کیٹگری میں اقربا پروری، ملازمتیں روکنا، رعایت کا تبادلہ، خفیہ پارٹی فنڈنگ اور خفیہ انداز سے سیاست اور کاروباری دنیا کے درمیان مشکوک روابط قائم ہونا شامل ہیں۔ و رلڈ بینک کنٹری پالیسی اینڈ انسٹی ٹیوشنل اسسمنٹ 2019۔ کوڈ ڈبلیو بی۔

اشاعت کا سال 2019ء۔ اگست 2019ء کے اعداد و شمار میں 2019ء کی کارکردگی کا جائزہ شامل ہے۔ ماہرین سے سوال کیا گیا کہ سرکاری شعبہ میں کرپشن، احتساب اور شفافیت کی سطح کیا ہے۔

ورلڈ اکنامک فورم ایگزیکٹو اوپینئن سروے 2019ء کوڈ ڈبلیو ای ایف۔ اشاعت کا سال 2019ء۔ یہ ڈیٹا جنوری تا اپریل 2019ء کے دوران جمع کیا گیا تھا۔ سروے میں جواب دینے والے افراد سے سوال کیا گیا تھا کہ کمپنیاں مندرجہ ذیل معاملات میں کس حد تک غیر دستاویزی انداز سے اضافی ادائیگیاں کرتی ہیں یا پھر رشوت دیتی ہیں : ۱) امپورٹ ایکسپورٹ، ۲) پبلک یوٹیلیٹی، ۳) سالانہ ٹیکس ادائیگی، ۴) سرکاری ٹھیکے دینے یا لائسنسز کے اجراء کے معاملے میں، ۵) اپنے حق میں عدالتی فیصلے حاصل کرنے کیلئے۔ ورلڈ جسٹس پروجیکٹ روُل آف لاء انڈیکس 2019ء کوڈ ڈبلیو جے پی۔ اشاعات کا سال 2020ء۔

اس رپورٹ کی تیاری کیلئے اعداد و شمار مئی تا اکتوبر 2019ء کے دوران سروے میں حاصل کیے گئے۔ اس میں چار ہزار ماہرین نے شرکت کی۔ انفرادی سطح پر سوالات پوچھنے کے بعد ان کا مجموعہ تیار کیا گیا اور پھر ان کی ذیلی کیٹگری بنائی گئی جن کا مقصد یہ معلوم کرنا تھا:

ایگزیکٹو برانچ میں سرکاری عہدیدار ذاتی فائدے کیلئے عہدہ استعمال نہیں کرتے: جوڈیشل برانچ میں سرکاری عہدیدار ذاتی فائدے کیلئے اپنا عہدہ استعمال نہیں کرتے، پولیس اور ملٹری میں عہدیدار ذاتی فائدے کیلئے عہدے کا استعمال نہیں کرتے، قانون ساز ادارے کے عہدیدار ذاتی فائدے کیلئے اپنے عہدے کا استعمال نہیں کرتے۔

ویرائٹیز آف ڈیموکریسی پروجیکٹ 2020ء کوڈ وی ڈی ای ایم۔ اشاعت کا اسال 2020ء۔ اس رپورٹ کی تیاری کیلئے 2019ء کے دوران 179؍ ممالک کی ریٹنگ کی گئی اور سی پی آئی انڈیکس کی تیاری میں 2020ء کا اپ ڈیٹ دیا گیا۔ اس رپورٹ کی تیاری میں جو سوال پوچھا گیا وہ یہ تھا: سیاسی کرپشن کس حد تک پائی جاتی ہے؟

تازہ ترین