• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پشاور کے ایک ہوٹل میں رات کو نرم نرم بستر پر دراز ہوتے ہوئے میری نظریں چھت کی طرف اٹھیں تو اپنے سر کے عین اوپر ذات کی کوڑھ کیرلی (چھپکلی) کو شہتیروں سے جپھے ڈالتے دیکھا۔ میں ہڑبڑا کر چارپائی سے اٹھ بیٹھا اور سامنے کرسی پر جا کر بیٹھ گیا، میرا دوست سونے کی تیاری کر رہا تھا اس نے میرے چہرے پر ہوائیاں اڑتی دیکھیں تو آنکھیں ملتے ہوئے پوچھا ”کیا بات ہے؟“
”چھپکلی“ میں نے گھٹی گھٹی آواز میں چھت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔
”تو تم گویا چھپکلی سے ڈرتے ہو“۔ اس نے چھت کی طرف نگاہ ڈالتے ہوئے ہنس کر کہا: ”آرام سے سو جاؤ وہ تمہیں کچھ نہیں کہے گی، اس نے ”فوڈپائزنگ“ نہیں کرانی!“
”میں کوڑھ کیرلی سے ڈرتا نہیں ہوں“۔ میں نے ڈرتے ڈرتے صورتحال کی وضاحت کی۔
”مجھے اس سے شدید کراہت محسوس ہوتی ہے اور جب تک یہ کمرے میں موجود ہے میری آنکھوں میں نیند نہیں اتر سکتی“۔
”اگر تم میری چارپائی پر آ جاؤ، میں تمہاری جگہ سو جاتا ہوں“!
”ایک دوسرے کے ساتھ جگہ بدلنے سے سونے کا مسئلہ حل نہیں ہو گا“۔ مسئلہ جاگنے سے حل ہو گا، پتہ نہیں یہ کس وقت سیدھی منہ پر آ گرے اور پھر تم نہ اسے نگل سکو اور نہ اگل سکو“!
”اخ تھو!“ دوست نے اپنے بستر سے چھلانگ لگائی اور ملحقہ غسل خانے میں تھوکنے کیلئے لپکا، ”تم بہت غلط آدمی ہو خوامخواہ مجھے کانشس کر دیا ہے“!
میں نے دزدیدہ نگاہوں سے ایک بار پھر چھت کی طرف دیکھا، کوڑھ کیرلی بلب کے گرد جمع پروانوں پر نظریں جمائے بیٹھی تھی وہ انہیں غافل پا کر اچانک ان کی طرف لپکی اور ایک پروانے کو نگل لیا، اس کا پیٹ پھولا ہوا تھا، لگتا تھا وہ کافی دیر سے اس مشغلے میں مصروف ہے!
”پھر اب کیا کیا جائے“! مجھ سے زیادہ اب میرے دوست کو تشویش لاحق ہو گئی تھی وہ غسل خانے میں جا کر تھوکنے کے بعد سے اپنے بستر پر اکڑوں بیٹھا تھا!
”اسے کمرے سے نکالنے کی کوشش کرتے ہیں“۔ میں نے نظریں ادھر ادھر دوڑا کر کوئی چیز تلاش کرتے ہوئے کہا لیکن کمرے میں بجز ہمارے اٹیچی کیسوں کے اور کچھ نہیں تھا۔
”ہش ہش“ دوست نے مایوسی کے عالم میں منہ سے آوازیں نکال کر چھپکلی کو بھگانے کی کوشش کی لیکن وہ اپنے کریہہ ہاتھ اور ٹانگیں چھت پر مضبوطی سے جمائے اپنی چھوٹی چھوٹی آنکھیں پروانوں پر جمائے ہوئے تھی۔
”غڑاپ“ اس نے ایک اور پروانہ نگل لیا تھا اور اب وہ اپنی سرخ سرخ زبان باہر نکال رہی تھی۔
میں نے کرسی سے اٹھ کر کمرے میں ٹہلنا شروع کر دیا تھا اور تھوڑی تھوڑی دیر بعد دزدیدہ نظروں سے کوڑھ کیرلی کو دیکھ لیتا تھا میرے لئے ممکن نہیں تھا کہ اس کی موجودگی میں نرم نرم بستر پر دراز ہو جاؤں!
”ہش ہش“ اب کے دوست نے چپل اٹھالی تھی اور اسے دیوار کے ساتھ بجا بجا کر کوڑھ کیرلی کو ڈرانے کی کوشش کر رہا تھا۔
لیکن چھپکلی اس صورتحال سے بے نیاز اپنے شکار میں مشغول تھی!
دوست نے کمرے میں بڑی تپائی کو بستر پر رکھا اور اس پر چڑھ کر زیادہ قریب سے اسے بھگانے کی کوشش کی جو قدرے کامیاب ہوئی کیونکہ چھپکلی نے ایک جست لگائی اور تیزی سے کمرے کے ایک حصے سے دوسرے حصے کی طرف چلی گئی۔
اب وہ اپنے گول گول دیدے ادھر ادھر گھما کر صورت حال کا جائزہ لے رہی تھی، تاہم اس دوران اس نے ایک اور پروانہ شکار کر لیا۔
”اب کیا کیا جائے؟ “ تو اس نے چپل زمین پر رکھتے ہوئے ایک طویل جمائی لی اور کہا:”یہ تو ابھی تک کمرے ہی میں ہے“!
”ایک دفعہ پھر کوشش کی جائے“۔ میں نے جواب دیا: ”میں جانتا ہوں تم سارے دن کے طویل سفر سے تھکے ہوئے ہو اور تمہاری آنکھوں میں نیند تیر رہی ہے لیکن اگر تم سو گئے تو یہ چھت سے سیدھی تمہارے منہ میں…“
”اَخ تھو“ اس نے بدمزا سا منہ بنایا اور ایک بار پھر تھوکنے کے لئے غسل خانے کی طرف دوڑا۔
اب کے میں نے چپل اٹھائی اور اسے دیوار کے ساتھ بجاتے ہوئے کیرلی پر یلغار کر دی، وہ خوفزدہ ہو گئی تھی اور اس نے تیزی سے ادھر ادھر بھاگنا شروع کر دیا تھا۔ میں چاہتا تھا کہ وہ روشن دان کے راستے باہر نکل جائے، لیکن اسے اپنے اردگرد پروانے نظر آ رہے تھے جنہیں اس نے ابھی شکار کرنا تھا، چنانچہ وہ گھوم پھر کر ایک جگہ آن کھڑی ہوتی تھی اور اپنے مکروہ پنجے اس خوبصورت کمرے کی چھت اور دیواروں میں گاڑ دیتی تھی اس کی مکار آنکھوں سے خوف جھلک رہا تھا اور وہ بار بار اپنی زبان باہر نکالتی تھی!
”رک جاؤ! میرے دوست نے میری سانس پھولی دیکھی تو کہا ہم کمرے کی بتی بند کر دیتے ہیں یہ خود بخود باہر نکل جائے گی“۔
”وہ اندھیرے میں اپنا شکار زیادہ مہارت سے کرے گی اور دوسری طرف ہم اس سے غافل ہو جائیں گے۔ یہ بتی جلتی رہنی چاہئے، اندھیروں میں آسیب پلتے ہیں“ میں نے کہا۔
”تو پھر یوں کرتے ہیں کہ روشن دان اور کھڑکیاں بند کر کے چپل سے اس کا نشانہ لیتے ہیں بعد میں اسے دم سے پکڑ کر باہر پھینک دیں گے“!
”یہ تم کیسی باتیں سوچ رہے ہو“ مجھے متلی سی محسوس ہوئی، ”ہم نہ اسے نشانہ بنائیں گے اور نہ روشن دان اور دریچے بند کریں گے، روشن دان کھلے رہنے چاہئیں، تازہ ہوا آتی رہنا چاہئے“۔
”تو پھر کیا کیا جائے“؟ میں نے روہانسا ہو کر پوچھا۔
“کچھ بھی نہیں، سوائے اس کہ اسے کمرے سے نکالا جائے اور اس کا طریقہ یہ ہے کہ تم اسے گھیر گھار کر روشن دان کی طرف لاؤ اور میں اسے روشن دان سے باہر کی طرف دھکیل دوں گا۔ ہم دونوں کی مشترکہ کوشش سے یہ کمرہ کوڑھ کیرلی سے چھٹکارا حاصل کر لے گا“۔
”ٹھیک ہے“! دوست نے چپل ہاتھ میں لی ”تم دوسری طرف کھڑے ہو جاؤ۔ اس بار یہ کمرے سے باہر نظر آنی چاہئے“۔
ہم دونوں کی مشترکہ کوشش سے کچھ دیر بعد چھپکلی واقعی کمرے سے باہر تھی، ہم اطمینان سے اپنے اپنے بستر پر دراز ہو گئے۔
”یار! ایک بات تو بتاؤ“! میرے دوست نے خالی چھت کی طرف سکون بھری نظروں سے دیکھتے ہوئے کہا: ”یہ پروانے اتنے نادان کیوں ہیں؟ چھپکلی کتنی دیر تک ایک ایک کر کے انہیں نگلتی چلی گئی لیکن وہ اس کے باوجود غافل رہے اور اس کا شکار ہوتے چلے گئے“!
”یہ کمال چھپکلی کا نہیں بلب کا ہے“، میں نے ہنستے ہوئے کہا ”پروانے اس کی چکاچوند کے اسیر رہے اور کوڑھ کیرلی اپنے کام میں مشغول رہی۔ شکار کی آنکھیں مصنوعی روشنی سے خیرہ کر دی جائیں تو وہ باآسانی شکار ہو جاتا ہے“۔
”خیر چھوڑو“ دوست نے بستر پر ٹانگیں پسارتے ہوئے مسکرا کر کہا،” آج بہر حال یہ پتہ ضرور چل گیا کہ کوڑھ کیرلی دیکھ کر تمہاری گھگی بند جاتی ہے“۔
”میں کوڑھ کیرلی سے نہیں ڈرتا“ میں نے ایک بار پھر سہمی سہمی دزدیدہ نگاہوں سے درودیوار کا جائزہ لیا۔ ”میں کوڑھ سے ڈرتا ہوں۔ میں نے کوڑھیوں کو دیکھا ہے وہ اپنے ہاتھوں پر زخم سجا کر… بازاروں میں بھیک مانگتے ہیں ہم اپنے ہاتھوں پر زخم سجا کر بازاروں میں بھیک نہیں مانگیں گے، ہم یہ کوڑھ کیرلیاں نہیں پلنے دیں گے“!
تازہ ترین