• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وطنِ عزیز کے مقتدر حلقوں میں آزادی کے فوراً بات بعد یہ سوال گردش کرنے لگا تھا کہ ملک کے نظم و نسق میں ہمارا کردار کتنا اہم ہوگا؟ قائدِاعظم اور دیگر مسلم لیگی قائدین کے ساتھ ساتھ اُس وقت تک کی حزبِ اختلاف کے قائدین کے تصور میں بھی نہ تھا کہ ملک کسی آمریت کی قید میں جکڑاجا سکتا ہے۔ وہ ایک دوسرے سے نئے حالات میں مقابلہ کرنے کے لئے کمر کس رہے تھے مگر سیاسی میدان کے شہسواروں کے علاوہ دیگر طبقات مسلمہ جمہوری روایات سے ہٹ کر اپنا کردار مانگ رہے تھے بلکہ بالالفاظِ دیگر ایسا کرنے کی ٹھان چکے تھے جس کی ایک جھلک قائدِاعظم کی جنرل اکبر خان سے وہ معروف گفتگو ہے جس کے بعد قائدِاعظم نے اپنی تقریر میں ضروری خیال کیا کہ افسران کے حلف کے الفاظ کو دوبارہ دہرا کر اُن کو اُن کے حقیقی فرض تک محدود رکھنے اور رہنے کی تلقین اور نصیحت کی جائے مگر ایوب خان سے لے کر ایک تسلسل ہے جو ٹوٹنے کا نام ہی نہیں لے رہا ، آج بھی حقیقی بحث یہ نہیں ہے کہ موجودہ حکومت کو قائم رہنے دیا جائے یا گرا دیا جائے بلکہ اصل سوال یہ ہے کہ ریاست تسلیم شدہ جمہوری اصولوں کی پیروی کرتے ہوئے سماجی ترقی کر سکتی ہے یا اُس کیلئے پسِ پردہ مسلسل مداخلت ضروری ہے؟ پسِ پردہ مداخلت کتنی ناپسندیدہ اور جمہوری اصول کتنے قابلِ قبول ہیں؟ جواب سمجھنے کے لئے ایوب خان سے لے کر پرویز مشرف کی آئین پامال کرنے کے فوری بعد کی گئی تقاریر کا مطالعہ کیجئے۔ آمر خود اپنی تقاریر میں کہہ رہے ہیں کہ ہم جمہوریت نافذ کریں گے۔ کسی ایک نے بھی یہ نہیں کہا کہ بس اب ہم ہی حکومت کریں گے کیونکہ یہ کہنا بھی ناممکن تھا حالانکہ عملی طور پر خواہش یہی تھی کہ بس اب ہم مختارِ کُل بن جائیں۔ مختارِ کُل بننے کی خواہش اتنی توانا ہے کہ جب کبھی اُس کے مقابلے میں آئین پر اُس کی روح کے مطابق چلنے کی کوشش کی جاتی ہے تو ایسے فرد کو زبردست قسم کی سازشوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ بھرپور عوامی حمایت کے باوجود اَن گنت مسائل میں اُلجھا دیا جاتا ہے اور اِس وقت نواز شریف کو بھی یہی مسئلہ درپیش ہے۔ ذاتی حیثیت میں اِن حالات سے نکلنے کے لئے نواز شریف کے پاس راستہ موجود ہے کہ آئین پر اُس کی روح کے مطابق عمل درآمد کے مؤقف سے قدم پیچھے ہٹا لیں، ذاتی مشکلات دنوں میں رفو چکر ہو جائیں گی مگر وطنِ عزیز کی مشکلات بڑھتی چلی جائیں گی اور اگر پاکستان کی مشکلات کو کم کرنے کی کوشش کی جائے گی تو نواز شریف کی ذاتی مشکلات میں مزید اضافہ ہوتا جائے گا۔ یہ ذاتی مشکلات ناصرف طاقتوروں کی جانب سے پیدا کی جائیں گی بلکہ اپنوں کی بےوفائی اور اپنے ساتھ چلنے والوں کے نئے رُخ بھی سامنے آ سکتی ہیں۔ آج سے سو برس قبل پنجاب میں انگریز سرکار سے آزادی حاصل کرنےکی تحریک زوروں پر تھی۔ غدر پارٹی کے نام سے ایک تنظیم کام کر رہی تھی جس میں امریکہ اور کینیڈا میں مقیم پنجاب سے تعلق رکھنے والے افراد بہت مؤثر انداز میں کام کر رہے تھے۔ انگریز سرکار کو اِس سے بہت پریشانی لاحق ہو گئی تھی، اُس نے امریکہ سے درخواست کی کہ وہ اِس پارٹی سے منسلک افراد پر مقدمہ قائم کیا جائے۔ مقدمہ چلانے کے لئے 30لاکھ امریکی ڈالر کی خطیر رقم خرچ ہوئی جس میں سے 25لاکھ ڈالر کی رقم برطانوی حکومت نے ادا کی۔ یہ مقدمہ سان فرانسسکو ٹرائل 1917کے نام سے مشہور ہے۔ اِس مقدمے میں نامزد ایک کے سوا تمام افراد کو سزا ہو گئی تھی اور سزا ہونے کی وجہ یہ تھی کہ برطانوی حکومت غدر پارٹی کی سرگرمی سے تنگ تھی اور اُس سے نبٹنا چاہتی تھی تو اُس نے اُس میں اپنے ایجنٹ داخل کر دیے تھے۔ اسی طرح 1914میں اُنہوں نے اپنا ایک ایجنٹ رام چندر تنظیم میں شامل کر دیا، رام چندر اپنی جگہ بناتا چلا گیا اور تنظیم کی سرگرمیوں سے واقف ہوتا چلا گیا۔ جب سان فرانسسکو ٹرائل شروع ہوا تو استغاثہ کے پاس جو سب سے بڑا ثبوت غدر پارٹی کے خلاف تھا وہ رام چندر ہی تھا۔ رام چندر جب عدالت میں حریت پسندوں کے خلاف پیش ہوا تو وہ ششدر رہ گئے کہ یہ درحقیقت برطانوی سرکار کے لئے کام کر رہا تھا۔ رام چندر نے بڑھ چڑھ کر غدر پارٹی کے رہنماؤں کے خلاف بیانات دیے اور عدالت میں ان کا ’’جرم‘‘ ثابت کرنے میں استغاثہ کو نمایاں مدد فراہم کی، وہ اپنی اِس ’’کامیابی‘‘ پر پھولے نہیں سما رہا تھا کہ سماعت کے آخری روز رام چندر کو عدالت میں رام سنگھ نے قتل کردیا جبکہ رام سنگھ خود بھی ایک عدالتی اہلکار کے ہاتھوں مارا گیا۔

آج اگر کوئی ایسا کردار ادا کرنے پر تیار ہوگا تو اُس کا انجام رام سنگھ کی Bulletسے اور اب عوام کے Ballotسے ہوگا۔

تازہ ترین