وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ خارجہ پالیسی پر ہماری سوچ سیاسی جماعت سے بالاتر ہونی چاہے، جو آپ کے اپنے فیصلوں تک محدود نہ ہو، علاقائی اثرات بھی آپ کی خارجہ پالیسی پر آتے ہیں۔
شاہ محمود قریشی نے پی ٹی آئی حکومت کی خارجہ پالیسی پر سینیٹ اجلاس کے دوران ارکان پارلیمنٹ کو طویل بریفنگ دی۔
انہوں نے کہا کہ خارجہ پالیسی کے دوران ڈھائی سال میں کئی چیلنجز آئے، آج ہم جہاں کھڑے ہیں، اُس کے ذمے دار ہم بھی ہیں، اس کے ساتھ وہ لوگ بھی ذمے دار ہیں جو 4 ،4 بار حکومت میں رہے، جو 12 برس کشمیر کمیٹی کی سربراہی کرچکے ہیں۔
وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے پارٹی چیئرمین سے متعلق شیری رحمٰن کے ریمارکس پر اعتراض کیا۔
شاہ محمود قریشی نے شیری رحمٰن کے حوالے سے کہا کہ یہ امریکی پالیسی کو اچھی طرح سمجھتی ہیں، افغانستان کے معاملےپر ٹرمپ اور بائیڈن کی سوچ ایک ہی ہے۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ جانتے ہیں کہ افغانستان میں اسپائلر کا کردار کون ادا کررہا ہے؟ ہم جانتے ہیں چھپا ہوا خطرہ کیا ہے اور آگے بڑھنے کا پلان کیا ہے۔
وزیر خارجہ نے کہا کہ سابق وزیر خارجہ جو بائیڈن کی انتظامیہ امریکا میں آگئی ہے، نئی امریکی انتظامیہ چاہتی ہے کہ کامیابیوں کو تحفظ دیا جائے، افغانستان میں تشدد کم ہو اور ہم بھی یہی چاہتے ہیں، امریکی وزیر خارجہ سے اس پر تفصیلی گفتگو ہوئی ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان اچھے ہمسائے کا کردار ادا کررہا ہے، اشرف غنی کو کہہ چکے کہ میکنزم استعمال کرتے ہوئے آگے بڑھیں اور تہمتیں لگانا بند کردیں، اب افغان حکومت بھی کہہ رہی ہے کہ پاکستان امن عمل میں معاون ہے۔
شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ یہ تاثر دینے کی کوشش کی جاتی رہی کہ پاکستان خارجہ امور میں تنہا ہے، یہ تجزیہ درست نہیں، اسلام آباد ہرگز تنہا نہیں ہوا۔
اُن کا کہنا تھا کہ ہاں بھارت نے پاکستان کو تباہ کرنے کی خواہش کی لیکن وہ کامیاب نہ ہوسکا، آج نئی دہلی پر وہ انگلیاں اٹھ رہی ہیں جو کبھی پاکستان پر اٹھتی تھیں۔
وزیر خارجہ نے کہا کہ مغربی میڈیا پر جتنی بھارت کی پالیسی پر تنقید ہوئی وہ پہلے کبھی نہیں ہوئی، خارجہ پالیسی کو تنہائی میں نہیں دیکھ سکتے، اندرونی حالات سے خارجہ پالیسی کا تعلق ہے۔
شاہ محمود قریشی نے یہ بھی کہا کہ معیشت بہتر ہو گی تو سفارتی سطح ہر آسانی ہو گی، ہم تنہائی میں کام نہیں کرسکتے، ہماری ترجیح معاشی سفارت کاری ہے۔
انہوں نے کہا کہ افریقا کے لیے ایکسپورٹ میں7 فیصد اضافہ ہوا، رواں ماہ یورپ کے نمائندوں سے مذاکرات کررہے ہیں، دوست ممالک مدد کے لیے نہ آتے تو ہمارا دیوالیہ ہو جاتا، اپوزیشن کی نظر کشمیر پر ہوتی، اسلام آباد دھرنے پر نہ ہوتی، اپوزیشن نے کشمیر کو پیچھے دھکیل دیا ہے۔
وزیر خارجہ نے کہا کہ افغانستان کے ساتھ ساتھ ایران سے تعلقات میں بھی بہتری آرہی ہے، جو سب کے سامنے ہے، ایرانی وزیر خارجہ جواد ظریف 6 مرتبہ پاکستان آچکے ہیں، کشمیر پر انہوں نے ٹھوس اعلان کیا، سرحد پر بارڈ لگانے کے معاملے میں بہتری نہ آتی اگر تہران سے تعلقات بہتر نہ ہوتے۔
شاہ محمود قریشی نے چین سے تعلقات پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ دونوں دوست ممالک کےتعلقات میں مزید گہرائی پیدا ہورہی ہے، سی پیک کے فیز 2 میں صنعتی ریم لوکیشن، ٹیکنالوجی منتقلی کی بات ہو رہی ہے۔
اُن کا کہنا تھاکہ بھارت کے ساتھ معمول کے تعلقات چاہتے ہیں، اب تک نئی دہلی سے مثبت جواب نہیں آیا کیونکہ وہاں جنونی حکومت ہے، ایسی صورتحال میں دفتر خارجہ کیا کرسکتا ہے؟
وزیر خارجہ نے کہا کہ دونوں ہمسائیہ ممالک میں سرد مہری تو پہلے ہی آچکی تھی ہم نے بھارت سے کشیدگی بڑھانے سے اجتناب کیا، بھارت کا بہت بڑا طبقہ کشمیر سے متعلق نریندر مودی سرکاری کی خارجہ پالیسی سے مطمئن نہیں ہے۔
اُن کا کہنا تھاکہ سعودی عرب کے ساتھ تعلقات اسٹریٹجک تھے اور رہیں گے، پاکستانی کسی دھرتی کے لیے جان دے سکتا ہے تو وہ مدینہ کی مٹی ہے، گزشتہ حکومت کے تحفے میں دیے معاشی بحران پر قابو پانے میں سعودی عرب نے تعاون کیا، ماضی کی حکومت نے یہ تعاون لینے کی کوشش کی تھی انہیں نہیں ملا تھا۔
شاہ محمود قریشی نے کہا کہ سعودی عرب نے کافی چیزوں میں ہمارا ساتھ دیا ہے، ریاض سے ہمارا معاہدہ محدود مدت کے لیے تھا، ہماری غیر ملکی ذرائع میں بہتری آئی تو ہم نے پیسے واپس کردیے۔
انہوں نے کہا کہ سعودی عرب سے تعلقات میں کوئی بے چینی کی بات نہیں، ابھی یو اے ای سے آیا ہوں انہوں نے کہا کہ بھارت سے ہمارے تعلقات ہیں، وہ اپنے تعلقات دیکھتے ہیں مارکیٹ دیکھتے ہیں، انہوں نے نے مجھے کہا بھارت سے تعلقات پاکستان کی قیمت پر نہیں ہیں، یو اے ای پاکستان کی افادیت سے بے خبر نہیں ہے۔
وزیر خارجہ نے مزید کہا کہ کوئی سوچ سکتا تھا اہم ممالک اسرائیل کے ساتھ تعلقات بحال کریں گے؟ لیکن ہوا، اسرائیل کے وزیراعظم یو اے ای کا دورہ کریں گے، ہمیں دیکھنا ہے کہ پاکستان کے مفادات کا دفاع کیسے کر سکتے ہیں۔
اُن کا کہنا تھا کہ کشمیر ہماری شہ رگ ہے، ہمارے سے پہلے ایک حکومت تھی کشمیر کا لفظ ان کےحلق میں اٹک جاتا تھا، وہ اپنی تقاریر میں کشمیر کے لفظ منع کرتے تھے۔
شاہ محمود قریشی نے بلوچستان میں دہشت گردی پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں چھ سال اور بھی چاہیے، ہماری اگلی حکومت بھی آ رہی ہے، شواہد ہیں کس طرح بھارت بلوچستان میں دہشت گردی کی پشت پناہی کر رہا ہے۔
ایل او سی پر فائرنگ کو مختلف فورمز پر اٹھایا ہے، سیز فائر خلاف ورزی پر سیکیورٹی کونسل کو خط لکھا ہے، بھارت فائرنگ کرتا ہے اس کو پرواہ نہیں کہ بچہ یا خاتون اس کی زد میں آئے، ہم ایل او سی پر بنکرز بنانے کا سوچ رہے ہیں۔