پاکستان میں بسنے والی محب وطن غیرمسلم اقلیتی کمیونٹی کو درپیش دو بڑے مسائل کا براہ راست تعلق مذہب کی تبدیلی اور مقدس مقامات پرقبضے سے ہے۔ پاکستان میںزیادہ تر مذہب تبدیلی کے واقعات صوبہ سندھ میں بسنے والی ہندو کمیونٹی کی بچیوں سے متعلق ہیں، جب بھی ایسا کوئی حساس واقعہ منظرعام پر آتا ہے تو نہ صرف ملکی میڈیا بلکہ عالمی سطح پر بھی اسکی گونج سنائی دیتی ہے، مختلف این جی اوز ایسے واقعات کو اپنے ایجنڈے کا حصہ بنا لیتی ہیں، عالمی سطح پر بھی پاکستان کے حالات میں دلچسپی رکھنے والے مختلف ادارے سرگرم عمل ہوجاتے ہیں۔تاہم حالیہ دنوں میں ایک بڑا بریک تھرو جامعہ بنوریہ کے مفتی نعمان نعیم، مولوی عبدالحق المعروف میاں مٹھو اور پیر ایوب جان سرہندی کا میرے دفتر آنے کی صورت میں سامنے آیا ہے جو صوبہ خیبرپختونخوا میں واقع ٹیری مندر پر حملے کی مذمت کرنے میرے پاس آئے تھے، اس موقع پر انہوں نے موقف اختیار کیا کہ ایسے شدت پسندانہ حملوں کے واقعات ملک و قوم کی بدنامی کا باعث بنتے ہیں۔ میں نے مناسب سمجھا کہ جبری مذہب تبدیلی کہ حساس ایشو پران علمائے کرام سے تبادلہ خیال کیا جائے، میرا یہ کہنا تھا کہ مذہب تبدیلی کے واقعات کو غیر ذمہ دارانہ انداز سے ہینڈل کرنے کی وجہ سے پاکستان کی جگ ہنسائی ہوتی ہے، عالمی قوتوں کو پاکستان کے خلاف پروپیگنڈا کرنے کا موقع مل جاتا ہے، اندرونی طور پر مذہبی تناؤ میں اضافہ ہوتا ہے، اقلیتی کمیونٹی کے مذہبی جذبات مجروح ہوتے ہیں جس سےان کے احساسِ عدم تحفظ میں اضافہ ہوتا ہے، ایسے حساس واقعات کی وجہ سے والدین،قانون نافذ کرنے والے ادارے، عدالتیں،دونوں اطراف کی مذہبی کمیونٹی، میڈیا اور دیگر اسٹیک ہولڈرزپریشر میں آجاتے ہیں۔اس موقع پر ان تینوں معزز مہمان گرامی نے مجھے یقین دہانی کرائی کہ وہ جبری مذہب تبدیلی میں ملوث نہیں۔ انہوں نے مجھ سے اتفاق کیا ہے کہ اسلامی نظریاتی کونسل کی مشاورت سے پارلیمان میں مذہب تبدیلی کے حوالے سے قانون سازی سب کیلئے قابل قبول ہوگی، اس دوران اگر مذہب تبدیلی میں دلچسپی رکھنے والے کسی غیرمسلم باشندے نے ان سے رابطہ کیا تو وہ مجھے فوری مطلع کریں گے، غیر مسلم شہری کی میرے نامزد کردہ اقلیتی کمیونٹی کے مقامی ایم این اے، ایم پی اے یا مُکھی کی موجودگی میں والدین سے ملاقات کرانے کے بعد بیان لیا جائے گا،اس کے بعد بھی مذہب تبدیلی کے فیصلے پر قائم رہا تو پھر کسی فریق کو کوئی اعتراض نہیں ہوگا۔اس حوالے سے روزنامہ جنگ کراچی ایڈیشن میں بتاریخ 30جنوری 2021ء کی شائع کردہ خبر ملاحظہ کی جاسکتی ہے۔میری نظر میں پاکستان میں مذہب تبدیلی کیلئے کوئی باقاعدہ طریقہ کار موجودنہیں ہے جس کے باعث حالات اس نہج پر پہنچتے ہیں،اس حوالے سے قانون سازی کیلئے میری تجاویز کی روشنی میں رواں ماہ 15فروری کوپارلیمان کی مشترکہ قائمہ کمیٹی کے ایک اہم اجلاس میں بل کو حتمی شکل دے دی جائے گی۔اسی طرح ہر اچھے معاشرے میںمذہبی اور مقدس مقامات کا خصوصی احترام یقینی بنایا جاتا ہے، بدقسمتی سے پاکستان میں محب وطن ہندو کمیونٹی کے مقدس مقامات قبضہ مافیا اور دیگر شرپسند عناصر سے محفوظ نہیں ہیں،میں یہ اہم ایشو بہت عرصے سے ہائی لائٹ کررہا ہوں کہ قومی متروکہ وقف املاک بورڈ جیسا اہم قومی ادارہ اقلیتی کمیونٹی کے مقدس مقامات کی حفاظت سے قاصر نظر آتا ہے،تاہم ٹیری مندر پر شدت پسندوں کے حالیہ حملے کے نتیجے میں سپریم کورٹ نے قومی متروکہ وقف املاک بورڈ کو اپنے زیرانتظام مذہبی مقامات بشمول مندروں اور گوردواروں کی تفصیلات شیئر کرنے کا پابند بنا دیا ہے، مجھے یقین ہے کہ پارلیمان میں قانون سازی، سپریم کورٹ کے احکامات اور میڈیا کے تعاون کی بدولت غیرمسلم اقلیتی کمیونٹی کے مذہبی مقامات کی حفاظت کا دیرینہ مسئلہ بھی حل ہونے کے قریب آگیا ہے۔گزشتہ دنوں برطانوی پارلیمان کی جانب سے پاکستانی اقلیتوں کی صورتحال کے حوالے سے مجھ سے موقف مانگا گیا، اس حوالے سے جب میں نے انٹرنیٹ پر ریسرچ کرنے کی کوشش کی تو ایسی بے شمار نیوز ویب سائٹس میرے سامنے آگئیں جو یہاں رونماء ہونے والے چند واقعات کی آڑ میں پاکستان کے خلاف من گھڑت پروپیگنڈا کرنے میںمصروف ہیں، ہمارے ملک میں خبروں کی فیکٹ چیکنگ کا کوئی میکانزم نہ ہونے کی بناء پر یہ ویب سائٹس عالمی اداروں پر اثرانداز ہونے کی طاقت رکھتی ہیں، بدقسمتی سے ہم ہمسایہ ملک سے آپریٹ ہونے والی ساڑھے پانچ سو سے زائدمشکوک نیوز ویب سائٹس کاسراغ بھی خود لگانے کے اہل نہیں بلکہ اس کیلئے بھی یورپی ڈِس انفو لیب ادارے کے احسان مند ہیں، پاکستان کے قومی مفادات کو زک پہنچانے کیلئے یہ فیک نیوزویب سائٹس ایسے نازک موقع پر حقائق کے منافی رپورٹنگ کرتی ہیں جب امریکہ، اقوام متحدہ اور عالمی ادارے پاکستان میں بالخصوص اقلیتوں اور مذہبی آزادی کے حوالے سے اپنی سالانہ رپورٹ مرتب کررہے ہوتے ہیں، ہماری جانب سے خاموشی یا نظرانداز کرنے کے سبب یہ غیرمصدقہ خبریں عالمی رپورٹس کا حصہ بننے میں کامیاب ہوجاتی ہیں۔ دوسری طرف بھارت میں بیس سے زائدمیڈیا فیکٹ چیکنگ ادارے قومی مفاد سے متعلقہ خبروں پر کڑی نظر رکھے ہوئے ہیں، مجھے یاد ہے کہ جب ہمارے کچھ وزراء، سول سوسائٹی کے نمائندوں اور میڈیا نے مقبوضہ کشمیر کی صورتحال سوشل میڈیا پر اجاگر کرنے کی کوشش کی تو ان کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس بلاک کردئیے گئے تھے۔ مجھے یقین ہے کہ تینوں علمائے کرام کی میرے آفس آمد پر تحریری یقین دہانی ، مشترکہ پارلیمانی کمیٹی میں اسلامی نظریاتی کونسل کی مشاورت سے بل کی منظوری کےنتیجے میں بہت جلد ہمیں پاکستان کاامیج خراب کرنے والی متعدد ناپسندیدہ خبروں سے ہمیشہ کیلئے چھٹکارا حاصل ہو جائے گا، تاہم ہمیں عالمی میڈیا بالخصوص بھارت سے آپریٹ ہونے والی نیوز ویب سائٹس کی فیکٹ چیکنگ پر فوری توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)