• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

گزشتہ دنوں دنیا بھر میں کرپشن پر نظر رکھنے والی بین الاقوامی تنظیم ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل نے کرپشن کے حوالے سے اپنی حالیہ رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ گزشتہ دو سالوں میں پاکستان میں کرپشن میں اضافہ ہوا ہے اورپاکستان عالمی سطح پر 4درجے تنزلی کے ساتھ 180ممالک میں اب کرپشن میں 124ویں نمبر پر آگیا ہے اور اس کا اسکور 100انڈیکس میں گرکر 32سے 31نمبر پر آگیا ہے۔افسوسناک امریہ ہے کہ رپورٹ میں پاکستان میں کورونا وبا کے دوران ہیلتھ سیکٹر میں بھی کرپشن کی نشاندہی کی گئی ہے تاہم نیب کے گزشتہ دو برسوں میں 363ارب روپے اور پبلک اکائونٹس کمیٹی کے 300 ارب روپے وصول کرنے کے عمل کو سراہا گیا ہے۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ بھارت کے اسکور میں ایک پوائنٹ کی کمی ہوئی ہے جو 41سے کم ہوکر 40ہوگیا ہے اور وہ فہرست میں 80ویں نمبر سے گرکر 86 ویں نمبر پر پہنچ گیا ہے۔ افغانستان اور ترکی میں کرپشن کم جبکہ پاکستان، بھارت، ایران، نیپال اور ملائیشیا میں بڑھی ہے۔ ڈنمارک اور نیوزی لینڈ میں سب سے کم کرپشن ہے تو شام، صومالیہ اور سوڈان سب سے زیادہ کرپٹ ممالک قرار دیئے گئے ہیں۔ پاکستان کی معاشی کارکردگی کے بارے میں گزشتہ سال مجھے ورلڈ اکنامک فورم کا ایک سروے فارم موصول ہوا جس میں انہوں نے پاکستان میں معاشی ترقی کے راستے میں حائل رکاوٹوں پر 100 سوالات پوچھے تھے جن کا براہ راست جواب WEF کو بھیجنا تھا۔ میرے علاوہ یہ سوالنامہ کارپوریٹ سیکٹر کے سربراہان اور معیشت دانوں کو بھی بھیجا گیا تھا جس کی بنیاد پر کرپشن پرسیپشن انڈیکس (CPI) تیار کیا جاتا ہے۔ سروے میں بزنس ایگزیکٹوز نے پاکستان میں بزنس کی ترقی میں سب سے بڑی رکاوٹ کرپشن کو قرار دیا جبکہ دوسرے نمبر پر سیاسی عدم استحکام، تیسرے پر غیرمستقل حکومتی پالیسیاں، چوتھے پر بیورو کریسی، پانچویں پر بجلی، گیس کی لوڈشیڈنگ اور اضافی نرخ، چھٹے پر جدید انفرااسٹرکچر کا نہ ہونا اور ساتویں نمبر پر ملٹی پل ٹیکسوں کا نظام جیسی مشکلات بتائی گئیں۔

ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کے سروے کے مطابق پاکستان میں سب سے زیادہ کرپشن سرکاری اداروں میں ہوتی ہے جبکہ پولیس، ایف بی آر، سیاستدان، بیورو کریسی، میڈیا اور پرائیویٹ سیکٹر بھی کرپشن سے مبرا نہیں۔ ماضی میں نیب کے سابق چیئرمین فصیح بخاری اس بات کا اعتراف کرچکے ہیں کہ پاکستان میں یومیہ 12ارب روپے کی کرپشن ہوتی ہے جبکہ غیر ملکی کمپنیاں ایسے ممالک میں سرمایہ کاری سے اجتناب کرتی ہیں۔ افسوس کہ سابقہ اور موجودہ حکومتیں ابھی تک کرپشن پر قابو پانے میں ناکام رہی ہیں جس کا ثبوت ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی حالیہ رپورٹ ہے۔

میں نے اپنے گزشتہ کالم ’’آئی پی پیز میں ہزاروں ارب روپے کی کرپشن‘‘ میںحکومت کی توجہ آئی پی پیز میں بڑے پیمانے پر ہونے والی کرپشن کی جانب مبذول کرائی تھی۔ مجھے خوشی ہے کہ حکومت نے 47پرائیویٹ سیکٹر کے پاور منصوبوں (IPPs) میں سے 41کے ساتھ نظرثانی معاہدوں پر دستخط کردیے ہیں جبکہ 6کمپنیاں اپنے اضافی منافع کے مسئلے پر حکومت سے مذاکرات کررہی ہیں۔ اِن معاہدوں سے حکومت کو آئندہ 10سے 12برسوں میں ٹیرف میں 836ارب روپے کا ڈسکائونٹ ملے گا اور بجلی کے نرخ کم ہوں گے جبکہ 6آئی پی پیز سے 53ارب روپے وصول کئے گئے، اسی کے ساتھ ہی ناجائز اضافی منافع بھی واپس لیا جائے گا۔ اِن معاہدوں کے بدلے حکومت کو 6مہینے میں آئی پی پیز کے 450ارب روپے کے واجبات بھی ادا کرنے ہوں گے۔ اِن آئی پی پیز کو 2002میں اصل پاور پالیسی تبدیل کرکے اضافی مراعات دی گئی تھیں جن میں روپے کے بجائے ڈالر میں ٹیرف کرنے سے اُن کا منافع 17 سے 27فیصد ہو گیا تھا۔ آئی پی پیز کو 60فیصد کیپسٹی سرچارج اور فیول کی مد میں اربوں روپے دیے گئے جس سے اِن کمپنیوں کا منافع 50سے 70 فیصد تک پہنچ گیا۔ایک زمانے میں ایف بی آر میں کرپشن عام تھی۔ لوگ ملی بھگت سے یا تو ٹیکس کی ادائیگی نہیں کرتے تھے یا نہایت کم ٹیکس ادا کرتے تھے لیکن ایماندار اور قابل لوگوں کی ایف بی آر میں تعیناتی، صوابدیدی اختیارات میں کمی، ریفارمز، ڈیجیٹلائزیشن، کمپیوٹرائزیشن کے ذریعےایف بی آر نے کورونا وبا کے دوران رواں مالی سال 2020-21 کے پہلے7 مہینوں (جولائی سے جنوری) میں 2550ارب روپے کے ہدف کے مقابلے میں 2570ارب روپے وصول کئے۔ ٹیکس ریٹرنز فائل کرنے والوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہوا ہے اور یہ تعداد 2.31ملین سے بڑھ کر 2.52ملین تک پہنچ گئی ہے اور اِن کے ٹیکسوں کی ادائیگی بھی گزشتہ سال کے مقابلے میں 63فیصد زیادہ ہے جس کی وجہ سے اُمید ہے کہ ایف بی آر 30جون 2021تک 4963 ارب روپے کا ہدف حاصل کرلے گا جو گزشتہ سال کے مقابلے میں 24 فیصد جبکہ گزشتہ 8 برسوں میں 155فیصد گروتھ ہے جس پر میں وفاقی وزیر خزانہ ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ، معاون خصوصی ریونیو ڈاکٹر وقار مسعود خان، ایف بی آر کے چیئرمین جاوید غنی، ممبر اِن لینڈ ریونیو ڈاکٹر محمد اشفاق اور اُن کی ٹیم کو مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ ہمارا مذہب رشوت دینے اور لینے کا سخت مخالف ہے۔ ہمیں چاہئے کہ ملکی مفاد میں کرپشن کے خلاف آواز اٹھائیں تاکہ ملک سے کرپشن کے ناسور کاخاتمہ کیا جاسکے جو ملکی ترقی میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔

تازہ ترین