• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
خیال تازہ … شہزادعلی
برطانوی قوم کے متفقہ ہیرو کا درجہ حاصل کرنے والےکیپٹن سر ٹام مور جنہوں نے فنڈز اکٹھا کرنے کی اپنی کوششوں سے قوم کو متاثر کیا تھا اورجن کے بارے میں وزیر اعظم بورس جانسن نے کہا تھا کہ یہ کورونا وائرس کی دھند سے روشنی کی ایک مشعل بن کر نمودار ہوئے ہیں۔روشنی کا یہ مینار پچھلے ہفتے کوروناسے چل بسے ہیں۔قومی مقاصد کے لئے فنڈز اکٹھے کرنے کی برطانیہ کی تاریخ میں اب تک ایک فرد واحد کی جانب سے یہ سب سے بڑا مشن تھا جسے اس شخص نے انجام دیا۔ _ کیپٹن سر ٹام مور برطانوی تاریخ کے بدترین بحران میں روشنی کی کرن بن کر ابھرے۔ نناوے سال کی عمر میں نوجوانوں جیسا جذبہ، برطانیہ کے قومی محکمہ صحت (NHS) کے لئےفنڈز اکٹھے کر کے پوری قوم کے دلوں میں رچ بس گئے۔ انہوں نے ایک چیلنج سیٹ کیا تھا اور اپنی واکنگ چیئر کو ہر روز ایک گھنٹہ استعمال کیا ۔کہا جاتا ہے کہ ان کا اپنا خیال یہ تھا کہ وہ شاید ایک ہزار پونڈ جمع کر لیں گے مگر وہ 30 ملین پاؤنڈ سے زائد رقم ان انتہائی نامساعد حالات میں انتہائی ضرورت مند افراد کے لئے جمع کرنے میں کامیاب ہوگئے تھے ان کی انسان دوست کاوشیں قومی محکمہ صحت کے لئے کورونا کی وبا سے نمٹنے میں مددگار ثابت ہوں گی۔یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اس شاندار کارکردگی کے بعد ان سے جب یہ استفسار کیا گیا کہ وہ اگلی نسل کو کیا مشورہ دینا پسند کریں گے؟ ۔تو ان کا کہنا تھا کہ آپ ہمیشہ چیلنجز اور سیٹ بیک کا سامنا کریں گے لیکن یاد رکھیں کہ کل ایک اچھا دن ہوگا۔ یعنی آپ آج کی مشکلات سے گھبرائیں مت یہ مشکل وقت بالآخر گزر جائے گا۔اپنے اچھے کل کے لئے آج آپ بھرپور جدوجہد جاری کریں _ ۔قوموں کے حقیقی ہیروز ایسے ہی لوگ ہوتے ہیں جو دوسروں کے لیے جیتے ہیں اور ناامیدی کے بجائے امید اور یقین کی روشنی بکھیرتے جاتے ہیں _ صد افسوس کہ اچھے دنوں کی نوید اور خوشخبری سنانے والا، امیدوں، یقین اور اعتماد کا درس دینے والا یہ عظیم شخص بھی اس کورونا کے ہاتھوں چل بسا۔ہر ذی نفس نے موت کا ذائقہ چکھنا ہے مگر جیو تو کیپٹن ٹام کی سی زندگی جیو، جن کے عزم سو سال کی عمر میں بھی جوانوں سے بھی زیادہ توانا تھے، ایسے افراد چاہے وہ کسی بھی مذہب، ملک اور معاشرے سے متعلق کیوں نہ ہوں وہ سب کے لیے مشعل راہ ہیں۔ یہ لوگ سب کا مشترکہ اثاثہ ہیں _ ۔ کیپٹن سر ٹام مور کے اس دنیا سے کوچ کر جانے کا صدمہ پورے برطانیہ میں محسوس کیا گیا ہے۔ پوری قوم کی آہوں اور سسکیوں میں ان کی آخری رسومات ادا کی جائیں گی ان کی موت کے سانحہ پر ڈاؤنننگ سٹریٹ کے اوپر قومی پرچم کو آدھے مستول تک نیچے کردیا گیا تھا۔ ملکہ معظمہ نے ان کے اہل و عیال کو ذاتی پیغام بھیجا، ملکہ نے گزشتہ سال ونڈسر میں کیپٹن سر ٹام مور اور ان کی فیملی سے ملاقات سے بہت انجوائے کیا تھا اور ان کے چل بسنے کے غم کو اپنا ذاتی دکھ اور الم قرار دیا ۔اس موقع پر ان کی اور شاہی خانوادے کی سوچیں کیپٹن کی فیملی کے ساتھ شریک غم ہیں اور گزشتہ جولائی میں انہیں ملکہ نے جب نائٹ ہڈ کا اعزاز عطا کیا تھا تو اس دن کو انہوں نے اپنی زندگی کا سب سے قابل فخر دن قرار دیا تھا۔وزیر اعظم بورس جانسن نے کیپٹن ٹام کی بیٹی ہننا انگگرام مور سے اظہار تعزیت اور تعاون کی پیش کش کی ہے _ ۔وزراء اور دیگر قومی اکابرین اور مشاہیر کی تعزیت الگ سے جاری ہے _ برطانیہ کے قومی اور علاقائی ذرائع ابلاغ ان کی زندگی کے مختلف گوشوں کو اجاگر کر رہے ہیں _ ۔
Captain Sir Tom Moore
Tomorrow Will Be A Good Day: My Autobiography
ان کی آٹو بائیوگرافی جو منظر عام پر آئی ہے ہاتھوں ہاتھ فروخت ہو رہی ہےتاہم یہ خیال رہے کہ یہ کتاب ان کی حیات میں ہی سامنے آگئی تھی اس لئے جائزوں اور تبصرہ جات کو اسی تناظر میں دیکھا جائے _ ۔جائزوں میں لکھا گیا ہے کہ آئیے، کیپٹن سر ٹام مور کی قابل ذکر زندگی کے ذریعے اپنے ملک کے گذشتہ سو سالوں میں ایک قابل فخر سفر کا آغاز کریں۔ان کی کتاب کو بڑے بڑے ادیب، کالم نگار اور دانشور صرف کیپٹن ٹام کی آپ بیتی نہیں برطانیہ کی بحیثیت ایک قوم تاریخ قرار دے رہے ہیں _ ان کی لگن اور جذبات کو قوم کا سرمایہ کہہ رہے ہیں۔ اور واضح کر رہے ہیں کہ اس شخصیت نے برطانیہ اور پوری دنیا میں بہت سارے لوگوں کو متاثر کیا ہے۔ جب ایک قاری برطانوی اہل قلم اور اہل علم کے خیالات پڑھتا ہے تو واقعی یہ تسلیم کرنا پڑے گا اور یہ ماننا پڑے گا کہ برطانوی انگریزوں میں کچھ ایسی خصوصیات واقعی ودیعت ہیں جن کے باعث یہ قوم دنیا میں کئی اقوام پر حکومت کرنے کی تاریخ رکھتی ہے _ صرف سامراجی ہوس کہہ دینا قرین انصاف نہیں _ کاش ہمارے مورخین اس طرف بھی توجہ دیں۔ کہنا یہ ہے کہ یہ قوم ایک زندہ دل لوگوں کا منظم اور مربوط معاشرہ ہےجو اپنے قومی ہیروز کی قدر کرنا جانتی ہے، ان کو عزت دینا جانتی ہے جس وجہ سے ان میں قومی معاملات پر قومی یکجہتی قومی جذبات بات زندہ رہتے ہیں۔سنڈے ٹائمز نے کیپٹن سر ٹام مور کی کتاب کو بہترین فروخت ہونے والی کتاب قرار دیا ہے۔ڈیلی ٹیلیگراف کا تبصرہ ہے کہ یہ ایک ونڈرفل لائف سٹوری ہے جو سب کے لئے خوبصورتی سے تحریر کی گئی ہے _ڈیلی میل نے اسے پر جوش طور پر دلکش تحریروں کا مجموعہ قرار دیا ہے _۔ریویو میں لکھا ہے کہ یارک شائر کے ان کے بچپن سے لے کر برما کے میدان جنگ اور ہمالیہ کے چوٹیوں کے راستے، کرونا وائرس لاک ڈاؤن کے دوران این ایچ ایس اور ملک کا ہیرو بننے تک، یہ ہم سب کا سفر ہے۔کیپٹن سر ٹام مور کون ہیں؟ آپ نے انہیں ٹیلی ویژن پر اپنے باغ میں چلتے دیکھا ہے۔ ایک کمزور بزرگ، بحران کے وقت اپنا کام کر رہا ہے۔ وہ کہاں سے آئے ؟ یارکشائر ڈیلس کے دامن میں بچپن سے ہی ٹام مور ایک محبت کرنے والے خاندان میں پروان چڑھے، جب دوسری جنگ عظیم کے طوفان کے بادلوں نے خطرہ ظاہر کیا تو انہوں نے اپنا ہاتھ بڑھایا اور اپنی نسل کے بہت سے لوگوں کی طرح لڑنے کے لئے بھی شامل ہو گئے۔ کیپٹن ٹام کی کہانی ہماری کہانی ہے _ یہ ہمارے برطانیہ میں گذشتہ سو برسوں کی کہانی ہے۔ ایوننگ سٹینڈرڈ نے بیان کیا ہے کہ یہ قومی جذبے کے اظہار، کچھ کر سکتے کے رویوں اور دوسروں کے لئے اپنی پوری کوشش کرنے کا اعتقاد کی کہانی ہے _ واقعات سے بھری ان کی زندگی میں آپ کو تجسس، ہمت اور سخاوت نظر آئے گی۔ آئی ٹی وی لائف سٹوریز کی پیئرز مورگن رقمطراز ہیں کہ یہ ایک حیرت انگیز پڑھی جانے والی آٹو بائیوگرافی ہے_ اور کہا کہ ٹام روشنی، امید اورمثبت سوچ کی علامت ہیں۔ گڈ مارننگ برطانیہ نے اسے ایک عمدہ کتاب لکھا ہے _ ورجن ریڈیو کے کرس ایونز کے خیال میں یہ ایک
خوبصورت کتاب ہے اور یہ کہ ہم نے کیپٹن سر ٹام سے بہت کچھ سیکھنا ہے۔ بی بی سی ریڈیو 2 مائیکل بال کا کہنا ہے کہ یہ ایک دلکش اور ایک عام آدمی کی زندگی کی کہانی ہے جو غیر معمولی ہے۔ڈیلی ایکسپریس کا یہ شاندار خراج ہے کہ اس بوڑھے سپاہی کو کبھی بھی ہماری یادوں سے جانا نہیں چاہئے۔ اسی طرح مختلف جائزوں میں کہا گیا ہے کہ ان کی حوصلہ افزائی سے فطرت چمکتی ہے اور ہمیں یاد دلاتی ہے کہ کوروناپینڈیمک کا دور ان کے کے بغیر کتنا بدتر ہوتا۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ کیپٹن سر ٹام مور نے قوم کے دلوں کو چرا لیا ہے اور اسے ایک دلکش سوانح عمری سے تعبیر کیا گیا ہےجو پچھلی صدی کی ایک عمدہ ذاتی تاریخ ہے اور ہم سب کیپٹن ٹام سے بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔ یہاں یہ خیال رہے کہ کیپٹن ٹام مور 1920 میں یارکشائر میں پیدا ہوئے تھے _ ادھر کوالٹی جرنلزم کے معیاری اخبار دی گارڈین نے اپنے قارئین کی اس عظیم شخصیت کے متعلق خوبصورت سوچوں اور خیالات کو عمدہ طور پر پیش کیا ہے _ ایک ریڈر کے بقول کیپٹن سر ٹام مور نے اسے دنیا کے روشن مستقبل کی امید دی۔ این ایچ ایس کے لئے رقم اکٹھا کرنے میں کیپٹن ٹام کی بے لوث اور متاثر کن رویوں اور لگن نے انہیں گہرائی سے چھوا کہ ایک آدمی اتنا کچھ دے سکتا ہے اور بہت سارے لوگوں کو متاثر کرسکتا ہے۔ بغیر کسی اجر کی توقع کے! ان کے لئے لئے یہ حیرت انگیز ہے۔ اس نفیس آدمی کو اس بیماری سے کھو دینا جس کے خاتمے کے لئے وہ اتنی محنت کر رہا تھا یہ ایک ستم ظریفی ہے اور تکلیف دہ ہے جس کا اظہار ممکن نہیں۔ ایک قاری نے لکھا کہ انہوں نے دنیا میں اپنے کام سے ایک عمدہ مثال قائم کی _ ایک اور کا کہنا تھا کہ انہوں نے یہ بھی ثابت کر دیا کہ آپ کی عمر یعنی بڑھاپا آپ کے کام اور عزم میں رکاوٹ نہیں بن سکتا یعنی اگر جذبے سچے ہوں، انسان کی نیت راست ہو، تو ایک ناتواں معمر اور کمزور انسان بھی ناممکن شے کو ممکن بنا دیتا ہے۔مختصر یہ کہ کیپٹن سر ٹام مور ایک ایسی ناقابل یقین ہستی تھی جو انسانی قدروں کے اعلیٰ و ارفع معیار پر پوری اترتی تھی _ کاش ہم لوگ بھی انہی کی طرح کے بے لوث جذبوں کو اپنی شخصیت کا جزو بنا سکیں اور انسانیت کی فلاح و بقا اور دوسرے لوگوں کے روشن مستقبل کے لئے اپنے آج کی قربانی دے سکیں ۔
تازہ ترین