• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
جہلم کی تحصیل پنڈدادن خان کے علاقے میں ایک دوشیزہ نے پسند کی شادی نہ ہونے پر زندگی کا خاتمہ کرلیا ہے۔ اس نے گندم میں رکھنے والی کیڑے مار گولیاں کھائی تھیں‘ اس علاقے میں تھوڑے عرصے کے دوران پیش آنے والا اس نوعیت کا یہ تیسرا واقعہ ہے۔ گرد و پیش میں تشویش کی لہر دوڑی تو علاقے کے بڑے بوڑھے مل بیٹھے سیانوں نے سر جوڑے‘ سنجیدگی سے حالات کا جائزہ لیا اور آئندہ کیلئے کسی قسم کی بدمزگی سے بچنے اور قیمتی جانوں کے تحفظ کیلئے فیصلہ کیا گیا کہ علاقے میں زہریلی گولیوں کی فروخت پر پابندی لگائی جائے۔ اصل مسئلہ کیا تھا وہ زیربحث ہی نہ آیا۔ نہ اس طرف کسی کا دھیان گیا‘ یہ حالت صرف پنڈدادن خان کے وڈیروں کی ہی نہیں ملک کے دیگر بہت سے شعبوں میں بھی اسی قسم کے فیصلے ہورہے ہیں۔واپڈا کو ہی لے لیں پاکستان میں بجلی کا شارٹ فال 8000 میگاواٹ تک پہنچ گیا ہے۔ بیس بائیس گھنٹے لوڈ شیڈنگ رہنے لگی ہے۔ کوئی بتلائے لوڈ شیڈنگ سے بڑی دہشت گردی اور کیا ہوگی‘ چاہئے تو یہ تھا کہ نگران مل بیٹھتے مستقل نہ سہی کوئی عارضی حل تلاش کرتے بجلی کی چوریاں پکڑتے‘ واپڈا کی کالی بھیڑوں کو سفید کرنا ان کے بس میں نہیں تھا تو انہیں کال کوٹھریوں میں ڈالتے ان کی جگہ صاف شفاف اور صاحب ایمان لوگوں کو موقع دیتے جو اپنی ذات کے اندھیروں سے نکل کر قوم کے اجالوں میں ہاتھ بٹاتے‘ شارٹ فال میں کمی لانے کی سعی کرتے مگر ہوا کیا کہ نیپرا (نیشنل الیکٹرک پاور کمپنی اتھارٹی) کے سیانے مل بیٹھے تو فیصلہ دیا اور اس کا نوٹیفکیشن بھی جاری کردیا کہ پانچ روپے ساٹھ پیسے فی یونٹ ”فیول ایڈجسٹمنٹ چارجز “کے نام پر اگست 2012ء سے مارچ 2013ء تک کی اضافی رقم ماہ رواں کے بلوں میں شامل کی جائیں‘ سوچنے کی بات یہ ہے کہ جب ہر ماہ کئی قسم کے ٹیکس بل میں شامل ہوتے ہیں تو پھر اضافی چارجز کس بات کے‘ جب سارا سارا دن بجلی غائب رہتی ہے تو کون سا فیول اور کس بات کے چارجز۔ پاکستان کے عوام کا مسئلہ شارٹ فال پر قابو پانا ہے لیکن حکومت نے فیصلہ اس کے برعکس دیا‘ اب اگر میاں محمد نواز شریف وزارت عظمیٰ کے قلمدان سنبھالنے کے بعد قوم سے اپنے پہلے خطاب میں فیول ایڈجسٹمنٹ چارجز واپس لینے کا اعلان کرتے ہیں تو وقتی طور تالیاں تو بج جائیں گی مگر اصل مسئلہ وہیں رہے گا اور پھر ایسا اعلان پذیرائی نہیں پاسکے گا ملی بھگت سمجھا جائے گا۔
گزشتہ سوموار کو عالی مرتبت آصف علی زرداری لاہور گئے بلاول ہاؤس میں پارٹی جیالے ٹکٹ ہولڈرز کو ملنا تھا اور الیکشن 2013ء کی پارٹی کی ناکامی پر غور کرنا تھا مگر اصل جیالوں کو بلاول ہاؤس کے اندر ہی نہ جانے دیا گیا اور جو لوگ ناکامی کا باعث بنے وہ سارے اندر بیٹھے تھے‘ یوسف رضا گیلانی نے اپنے اقتدار کا سارا عرصہ خاندان کو سنوارا اور ملتان کو اجالنے میں گزارا کسی جیالے کو ملنے کا ان کے پاس وقت ہی نہیں تھا۔
راجہ پرویز اشرف گوجر خان کو پاکستان سمجھتے رہے‘ منظور احمد وٹو کا خیال تھا کہ وہ پاکستان کی اس اقلیت کا ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے جنہیں 1974ء میں غیر مسلم قرار دیا گیا تھا مگر ان کا خیال بھی خام نکلا اور اپنوں سے مات کھا گئے۔ عالی مرتبت نے لاہور میں اپنے خطاب میں اصل مسئلے کی طرف توجہ مبذول کرنے کی بجائے الزام تراشیوں سے کام لیتے ہوئے کہا کہ پیپلز پارٹی قومی اور عالمی اداروں کی سازش کا شکار ہوئی ہے‘ جہاں تک قومی اداروں کا تعلق ہے تو پاکستان کا سارا نگران سیٹ اپ عالی مرتبت کی پسند کا تھا اگر ان کا خیال ہے کہ پنجاب سے انہیں چالیس پنتالیس سیٹیں مل سکتی تھیں تو کیوں نہ ملیں‘ پنجاب کے وزیراعلیٰ تو ایوان صدر کے چہیتے ہیں انہیں راجہ پرویز اشرف نے سوچنے کا موقع بھی نہ دیا اور ان کا نام وزارت اعلیٰ کیلئے بھیج دیا تھا۔ اگر انتظامیہ نے دھاندلی کرائی ہے تو عالی مرتبت کے نامزد وزیراعلیٰ نے انہیں پنجاب میں چالیس پنتالیس سیٹیں کیوں نہ دلوائیں؟
چاہئے تو یہ تھا کہ عالی مرتبت اپنے گزرے پانچ برسوں کی کارکردگی کو زیر بحث لاتے‘ ناکامیوں کے ازالے کی تدبیر کرتے مگر انہوں نے کہا کہ ”جن کا خیال ہے کہ پیپلز پارٹی ختم ہوگئی ایسا بالکل بھی نہیں ہے‘ پیپلز پارٹی آج بھی زندہ ہے۔“ یہ بالکل ویسے ہی بات ہے جس طرح جیالے کہتے ہیں کہ بھٹو زندہ ہے‘ جیالے تو یہ بھی کہتے ہیں کہ بینظیر زندہ ہے‘ اگر وہ زندہ ہے تو پھر ان کے قتل کیس میں جنرل پرویز مشرف کی ضمانت منظور ہونے پر بینظیر کی صاحبزادیوں بختاور اور آصفہ نے سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر مایوسی کا اظہار کیوں کیا اور اگر جنرل پرویز مشرف پر شک تھا تو انہیں ایوان صدر سے پورے پروٹوکول اور گارڈ آف آنر کے ساتھ رخصت کیوں کیا گیا تھا؟ اور ضرورت کے وقت اسی قاتل لیگ کو گلے کیوں لگایا تھا جس میں شامل بعض لوگوں پر بینظیر نے اپنی زندگی میں اپنے قتل کا دعویٰ کیا تھا‘ اصل مسئلے پر گزرے پانچ برسوں میں توجہ کیوں نہ دی گئی۔
میاں محمد نواز شریف نے گزشتہ دنوں کہا تھا کہ وہ اقتدار نہیں اقدار کی سیاست پر یقین رکھتے ہیں جملے کی حد تک تو یہ خوبصورت بات ہے مگر پاکستانی سیاست میں اقدار کی پاسداری کرنے والے دور دور تک بلکہ دوربین لگاکر بھی دکھائی نہیں دیتے‘ شیری رحمان نے کہا ہے کہ ڈرون حملے بند ہونے چاہئیں‘ یہ بات انہوں نے تب کیوں نہ کی جب امریکہ میں پاکستان کی سفیر تھیں‘ مولانا طاہر القادری کینیڈا میں کہتے ہیں کہ قانون توہین رسالت کا اطلاق غیر مسلموں پر نہیں ہوتا وہ یہ بات پاکستان میں کیوں نہیں کرتے‘ مولانا فضل الرحمن وہ وزارت یا ادارہ پسند کرتے ہیں جس کے پاس ہیلی کاپٹر ہو‘ ایک رکنی جماعتیں بڑی پارٹیوں میں ضم ہورہی ہیں‘ یہ صرف اقتدار کی چاہت ہے اقدار کہیں دکھائی نہیں دیتیں‘ جس طرح دنیا سمٹ کر گلوبل ولیج بن گئی ہے اسی طرح پاکستانی سیاست وڈیروں‘ جاگیرداروں‘ خاندانوں اور برادریوں سے نکل کر برادران تک آگئی ہے‘ عوام کارکردگی پر ووٹ کی صورت میں ایوارڈ دیتے ہیں‘ ملتان کے گیلانی برادران اور پشاور میں بلور برادران نے مایوس کیا تو اس کا انجام بھی 11 مئی کو مایوسی کی صورت میں سامنے آیا‘ پنجاب کے لغاری اور دستی برادران یا ٹھٹھہ اندرون سندھ کے شیرازی برادران نے کارکردگی دکھائی تو وہ اسلام آباد کے ایوانوں تک پہنچ گئے۔
گجرات کے چوہدری برادران نے بہت زیادہ ہوشیاریاں دکھائیں تو ووٹر ان سے بھی زیادہ ہوشیار نکلے۔ گجرات کی ایک سیٹ رب تعالیٰ نے انہیں ان کے دستر خوان کی وسعت کی وجہ سے انعام میں دی ہے۔ برادرانہ سیاست کے اس ماحول میں قوم کی نظریں شریف برادران پر لگی ہوئی ہیں۔ مسائل بہت زیادہ ہیں اور وسائل کم ہیں، خزانہ خالی ہے، بجلی بھی نہیں پانی اور گیس بھی ناپید ہے۔ بیروزگاری عام ہے، مہنگائی آپے سے باہر ہے، ان سب پر شریف برادران نے قابو پانے کا ارادہ کرلیا تو اسلام میں ارادے کا بھی ثواب ملتا ہے۔ وہ جب قابو پاجائیں گے پھر تو ثواب ہی ثواب ہے۔ مجھے امید ہے کہ شریف برادران ثواب کما جائیں گے۔
تازہ ترین