• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
نواز شریف نے واضع کر دیا ہے کہ اُن کی حکومت کی ترجیح ہو گی کہ وہ طالبان کے ساتھ بات چیت کے ذریعے دہشتگردی اور عسکریت پسندی جیسے سنگین مسائل کو حل کریں۔ عمران خان کا بھی یہی موقف ہے بلکہ اُن کی جماعت پہلے ہی باقاعدہ مولانا سمیع الحق سے درخواست کر چکی ہے کہ وہ طالبان سے بات چیت کے ذریعے امن کے حصول کے لیے تحریک انصاف کی مدد کریں۔ ایسے حالات میں آرمی چیف کی طرف سے دیے گئے حالیہ بیان نے کئی سوال اُٹھا دیے۔کیا پاکستان کی نئی سیاسی قیادت اور آرمی چیف کے درمیان طالبان سے بات چیت کے مسئلہ پر اختلافات پائے جاتے ہیں؟ اگر ایسا ہے تو اس مسئلہ پر فیصلہ کرنے کا اختیار کس کو ہے؟ میاں نواز شریف اور عمران خان کا اس مسئلہ پر واضع موقف کے بعد کیا آرمی چیف کے لیے یہ مناسب ہے کہ وہ اس مسئلہ پر کھلے عام کوئی ایسی بات کریں جو ذہنوں میں خلش پیدا کرے اور ایسا تاثر دے کہ آرمی اورنئی سول قیادت میں طالبان سے بات چیت کے مسئلہ پر کوئی اختلاف پایا جاتا ہے؟ اگر اس قسم کے کوئی اختلافات ہوں بھی تو کیا یہ بہتر نہیں کہ نئی حکومت بننے کے بعد بند کمرے میں آرمی اپنے خدشات سے حکومت کو آگاہ کرے اور مل بیٹھ کر قومی مفاد میں فیصلہ کیا جائے؟ گزشتہ سوموار کے روز لاہور میں مستقبل کے وزیر اعظم نواز شریف نے ن لیگ کی پارلیمانی کمیٹی کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوے کہا کہ طالبان سے مذاکرات بہترین آپشن ہے اس لیے مذاکرات کی پیشکش کو سنجیدہ لینا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ بندوق اور گولی سے مسائل حل نہیں ہو سکتے۔ ہم نے اب تک دہشتگردی کی جنگ میں چالیس ہزار جانوں کی قربانی دے چکے ہیں اور اب اگرطالبان نے مذاکرات کی پیش کش کی ہے تو اُسے سنجیدگی سے لینا چاہیے۔ میاں صاحب کا یہ بھی کہنا تھا کہ ”طالبان سے بیٹھ کر بات کیوں نہ کروں“۔ جس روز میاں صاحب لاہور میں یہ بات کر رہے تھے اُسی روزآرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی نے راولپنڈی میں اپنے ایک خطاب میں کہاکہ قوم نے دہشتگردی کے خطرے کے باوجود ووٹ دے کر گمراہ کن اقلیت کو شکت دے دی۔ انہوں نے مزید کہا کہ عوام نے ثابت کیا کہ ہم کسی بھی چیلنج سے نبٹ سکتے ہیں۔ آرمی چیف نے یہ بھی کہا کہ ہمیں بے چہرہ دشمن سے لڑنے اور اُس پر قابو پانے کا وسیع تجربہ ہے۔ اُن کا یہ بھی کہنا تھا کہ دشمن کا مقابلہ کرنے کے لیے ہمیں جدید طریقے اختیار کرنا ہوں گے۔ایک طرف نواز شریف بندوق اور گولی کے آپشن کو رد کرتے ہوے طالبان سے بات چیت کرنے کا عزم رکھتے ہیں تو دوسری طرف آرمی چیف کا کہنا ہے کہ اُن کا ”بے چہرہ“ دشمن سے لڑنے اور اُس پر قابو پانے کا وسیع تجربہ ہے اور یہ کہ اس دشمن سے مقابلہ کے لیے ہمیں جدید طریقے اختیار کرنا ہوں گے۔ الیکشن سے تقریباً ہفتہ دس دن قبل بھی آرمی چیف نے اپنے ایک بیان میں دہشتگردی کی جنگ کو اپنی جنگ قرار دیتے ہوے کہا تھا کہ اس سلسلے میں کنفیوژن کو ختم کیا جائے تا کہ پوری قوم دہشتگردی کے خلاف اس جنگفوج کے پیچھے کھڑی ہو۔میں پہلے بھی کہہ چکا ہوں اور اب پھر اس رائے کا اظہار کر رہا ہوں کہ اب جبکہ قوم کی واضع اکثریت دو ایسی سیاسی جماعتوں (ن لیگ اور تحریک انصاف) پر اپنے اعتماد کا اظہار کر چکی ہے جو ملٹری آپریشن کی بجائے بات چیت کے ذریعے دہشتگردی کے مسئلہ کو حل کرنے کی خواہاں ہیں، آرمی کے لیے یہ مناسب نہیں کہ وہ دہشتگردی کے مسئلہ پر فوجی حل کی بات کرے۔میں ذاتی طور پر جنرل کیانی سے اس موقع پر ایسے بیانات کی توقع نہیں رکھتا تھا۔ انہوں نے نواز شریف سے لاہور میں ملاقات کر کے دنیا بھر کو ایک اچھا پیغام دیا مگر اُس کے ایک دو روز بعد ہی بے چہرہ دشمن سے جدید طریقے سے لڑنے کی بات کر کے انہوں نے کئی ذہنوں میں خلش پیدا کر دی۔ میاں صاحب اور عمران خان میں دہشتگردی کے مسئلہ پر بات ہو چکی ہے اور دونوں لیڈروں کا یہ کہنا ہے کہ وہ ملک و قوم کو درپیش بڑے مسائل کے حل کے لیے مل کر کام کریں گے۔ اس میں کوئی ہرج نہیں اگر آرمی چیف کا دہشتگردی کے مسئلہ کے حل کے متعلق اپنی کوئی مختلف رائے ہو مگر ایسی رائے اگر سیاسی لیڈرشب کی رائے سے ٹکراتی ہو تو اس کا اظہار بند کمرے میں کیاجانا چاہیے۔ تمام سٹیک ہولڈرز سے مشاورت کے بعد فیصلہ کا حتمی اختیار حکومت کو ہی ہونا چاہیے۔ اگرچہ جنرل کیانی نے ”بے چہرہ“ دشمن سے لڑنے کے اپنے وسیع تجربہ کی بات کی مگر اس لڑائی نے ہم سے ہمارے چالیس ہزار سے زیادہ پاکستانی چھینے۔ اس لڑائی نے ہماری معیشت کو سات ہزار ارب سے زیادہ کا نقصان پہنچایا۔ اس لڑائی نے ہمارے ہی لوگوں کو ہمارا دشمن بنا دیا۔ اس لڑائی نے ہمیں خودکش بمبار دیے۔ اس لڑائی نے ہماری فوج ، پولیس، ایف سی اور دوسرے قانون نافذ کرنے والے اداروں پر ہمارے ہی لوگوں کے ہاتھوں حملے کروائے۔ میں نواز شریف سے سو فیصد متفق ہوں کہ ان مسائل کا حل لڑائی نہیں، بندوق اور گولی میں نہیں بلکہ بات چیت میں ہے۔ میں عمران خان کی اس بات کی مکمل حمایت کرتا ہوں کہ پاکستان کے اندر کسی فوجی آپریشن کی کوئی گنجائش نہیں اور یہ کہ ہمیں اپنے بہترین مستقبل کے لیے امریکا کی غلامی سے باہر نکلنا ہو گا اور طالبان سے مزاکرات کرنے ہوں گے۔ مجھے امید ہے کہ آرمی چیف سیاسی قیادت سے مل بیٹھ کر اس مسئلہ کے پرامن حل کے لیے مکمل تعاون کریں گیاور ایسے بیانات سے گریز کریں گے جن سے آرمی اور سول لیڈرشب میں اختلافات کا تاثر ملتا ہو۔ دونوں میں اختلاف کی بنیاد پر نہ تو بات چیت کامیاب ہو سکتی ہے اور نہ ہی اس مسئلہ کا کوئی حل نکل سکتا ہے۔حرف آخر: میاں نواز شریف صاحب سے ایک درخواست ہے کہ خدارا مریکامیں امریکی سفیر لگانے کے تجربہ سے سبق سیکھتے ہوے بیروں ملک پاکستانی سفارت خانوں میں سفیروں کو مقرر کرنے کے طریقہ کار میں پوری احتیاط بھرتی جائے اور مکمل سیکیورٹی کلئیرنس پر ہی کسی فرد کو چاہے اُس کی سفارش کتنی ہی تگڑی کیوں نہ ہو یہ اہم ذمہ داریاں سونپی جائیں تاکہ پاکستانی قوم کو اطمنان ہو کہ اُن کے سفیر پاکستان کے لیے کام کر رہے ہیں نہ کہ کسی اور کے لیے۔ آخر میں ایک مختصر وضاحت۔ میرے گزشتہ سوموار کے کالم میں لکھے گئے کچھ نام فرضی تھے اس لیے کسی ایسے نام پر مشابہت پر کسی دوسرے شخص کو پریشانی کی ضرورت نہیں۔
تازہ ترین