• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

حکومت اور اپوزیشن کی سیاسی لڑائی میں کوئی سیزفائر ہوتا نظر نہیں آرہا۔ عجیب سیاسی افراتفری ہے۔ اس صورت حال کے کئی افسوس ناک پہلو ہیں جن میں سرفہرست اسٹیبلشمنٹ کو سیاست میں ملوث کرنا یا باالفاظ دیگر ملوث کرنے کی کوشش ہے۔ اس بارے میں پاک فوج کے ترجمان نے مختلف مواقع پرتردید کرتے ہوئے واضح کیا ہے کہ اس میں کوئی حقیقت نہیں کہ فوجی قیادت کسی کی حمایت کرتی ہے یا کسی سے کوئی رابطہ ہے۔ گزشتہ دنوں ایک بار پھر اس بات کا اعادہ کیا گیا ہے کہ فوج کو سیاست میں نہ گھسیٹا جائے۔ ان کا کسی سیاست دان یا کسی سیاسی قیادت سے کوئی بیک ڈور رابطہ نہیں ہے۔ یہ وضاحت بعض سیاسی قائدین کی طرف سے ایسی تقاریر کے جواب کے لئے کافی ہونی چاہئے جو بعض تقاریر میں یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے ان کو یا ان کی پارٹی کے بعض اراکین کو فون آتے ہیں۔ لیکن بہت سے سیاسی قائدین کی طرف سے ایسے بیانات کا سلسلہ ختم نہیں ہوا۔ حیدرآباد میں پی ڈی ایم کے بعض قائدین کی طرف سے ایک بار پھر مختلف انداز میں اسی موقف کو دہرایا گیا جو کسی بھی طرح مناسب نہیں ۔ سوال تو یہ ہے کہ حکومت اور پی ڈی ایم کی آپسی لڑائی میں عسکری قیادت کو ملوث کرنے کی تُک کیاہے۔ سیاسی جنگ تو ان دونوں فریقوں کے درمیان ہے۔ اس سے کسی اور کا کیا لینا دینا ہے۔ فوجی قیادت تو کیا اس جنگ سے تو عوام کو بھی نہ کوئی غرض ہے نہ ہی دلچسپی۔ فوج اپنی ذمہ داریاں نبھانے میں مصروف ہے۔ سرحدوں پر صورت حال بہتر نہ ہونے ، ملکی دفاع اور سلامتی فوج کے لئے سب سے مقدم ہے۔ اور عوام مہنگائی اور بے روزگاری کے ہاتھوں نالاں ہیں۔ دو وقت کی روٹی مشکل ہوگئی ہے۔ موجودہ حالات سے ایسا محسوس ہورہا ہے کہ حکومت اور اپوزیشن دونوں منجدھار میں پھنس کر اپنی اپنی بقا کی جدوجہد کررہی ہیں۔اگر اپوزیشن عسکری قیادت کو سیاست میں ملوث کرنے یا گھسیٹنے کی کوشش کررہی ہے تو اس کوشش میں حکومت بھی پیچھے نہیں ہے۔ وہ بھی بات بات پر حکومت اور فوج کے ایک صفحے پر ہونے کی گردان کیوں کرتی رہتی ہے۔ پاک فوج آئین کے تحت حکومت وقت کے ساتھ آئینی حدود میں رہتے ہوئے چلتی ہے۔ کوئی بتائے تو سہی کہ فوجی قیادت نے آئینی حدود سے نکل کر کیا کیا ہے؟ فوج کو سیاست میں ملوث کرنے کی ناکام کوششیں خواہ کسی فریق کی طرف سے ہوںقوم کے لئے قابلِ برداشت نہیں ہیں۔ ہر ایک اپنی ناکامی کو خود تسلیم کرے۔

سمجھ نہیں آتی کہ سینٹ الیکشن کا ہوا کیوں کھڑا کیا گیا ہے۔ اوپن بیلٹ یا خفیہ بیلٹ اور صوبائی اسمبلیوں کے اراکین کی خرید و فروخت کے بیانات خود سیاست دانوں کے لئے باعثِ توہین ہیں۔ حکومت اور اپوزیشن دونوں حالات کو کسی اور طرف لے جارہی ہیں۔ جس کا نتیجہ کیا نکل سکتا ہے شاید ابھی اس طرف کسی کے پاس سوچنے کی فرصت نہیں ہے۔ لیکن ہوسکتا ہے کہ وہ خود بھی وہی نتیجہ چاہتے ہوں۔ اس وقت پورا ملک احتجاجوں اور سیاسی افراتفری کی لپیٹ میں ہے۔ ان حالات کو سدھارنے کے بجائے حکومت کی طرف سے مظاہرین پر زور زبردستی اور طاقت کا استعمال کیا جاتا ہے تو اپوزیشن مظاہرین کی لفظی حمایت کے بیانات سے جلتی آگ پر تیل ڈالنے کی کوشش کرتی ہے۔ حکومت کی مہنگائی پر قابو پانے کی ہر کوشش ناکام ثابت ہورہی ہے بلکہ پیٹرول، ڈیزل، گیس اور بجلی کے روز بروز بڑھتے نرخوں سے مہنگائی میں ہر روز مزید اضافہ ہورہا ہے۔ سیاسی کے علاوہ معاشی طور پر کوئی خاص بہتری نظر نہیں آرہی۔حکومت اس وقت واضح طور پر دفاعی پوزیشن پر کھڑی ہے۔ ہر مسئلہ دانشمندی دوسروں کے زخموں پر نمک چھڑکنے سے حل کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ وزراء، مشیران اور ترجمان تعمیری اور مثبت مشوروں کے بجائے وزیر اعظم کو خوش کرنے کی کوششوں میں ہیں۔ کوئی شک نہیں کہ وزیر اعظم عمران خان سادہ طبیعت کے مالک ہیں۔ اور ان کے بعض قریبی لوگ ان کی اسی بات سے فائدہ اٹھا کر اپنے مطلب کے بیانات دلواتے اور فیصلے کرواتے ہیں۔ایسے لوگ تو کل کلاں بریف کیس اور سوٹ کیس اٹھاکر یہ جا وہ جا ہوجائیں گے لیکن نتائج کن کو بھگتنا پڑیں گے، یہ سوچنے والی بات ہے۔

اپوزیشن کے بارے میں بیانات ہوں۔ سینٹ الیکشن کے لئے پہلے ترمیم پھر آرڈیننس جبکہ معاملہ سپریم کورٹ میں ہے، یہ کن دانشوروں کے مشوروں کا شاخسانہ ہے؟ یہ تو میں نہیں جانتا لیکن سوچنے کا مقام ہے کہ کیا یہ سب درست ہورہا ہے؟ اسی طرح کے پی سے تعلق رکھنے والے 2018کے اراکین صوبائی اسمبلی کے بارے میں وڈیو کو ڈھائی سال بعد منظرعام پر لانے کے کیا مقاصد ہیں جبکہ اس وقت وہاں کے وزیر اعلیٰ کی قائم کردہ تحقیقاتی کمیٹی ان20 اراکین کے بارے میں کوئی ثبوت پیش نہیں کرسکی تھی۔ اور پھر ایک جرگہ میں معاملہ نمٹا دیا گیا تھا۔ ان میں سے بعض افراد نے وزیر اعظم عمران خان کے خلاف ہتکِ عزت کا کیس دائر کیا تھا جس کا فیصلہ غالباً جلد آنے والا ہے۔ معلوم نہیں کہ یہ وڈیو کس نے بناکر اتنا عرصہ کیوں چھپا کے رکھی اور اس وقت کی تحقیقاتی کمیٹی کو یہ وڈیو کیوں نہیں مل سکی؟ ورنہ اس وقت نہ جرگہ کرنے کی ضرورت پیش آتی اور نہ وزیر اعظم عمران خان کے خلاف ہتکِ عزت کے مقدمہ کی نوبت آتی۔ معلوم نہیں کہ عمران خان کے ہمدرد نے یہ وڈیو اس وقت کیوں پیش نہیں کی ۔ شاید اس وڈیو سے بھی مطلوبہ نتائج برآمد نہ ہوسکیں۔ 16؍فروری کوتحریکِ لبیک کی ڈیڈ لائن بھی آرہی ہے جس کو پورا کرنا حکومت کے لئے مشکل ہے۔ تمام حالات کا رخ جس طرف نظر آرہا ہے اس تناظر میں کہا جاسکتا ہے کہ تبدیلیاں ہی مسائل کا حل ہیں جو جلد ہوتی نظر آرہی ہیں۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین