• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کامریڈ کرشن دیو سیٹھی ترانوے سال کی عمر میں سابقہ ریاست جموں و کشمیر کے گرمائی دارالخلافہ جموں میں وفات پاگئے۔ اپنی طویل زندگی میں انہوں نے کئی انقلاب دیکھے اور ذاتی طور پر تختہ مشق بھی بنے مگر اپنے نظریات اور اصولوں پر ڈٹے رہے۔ کشمیر کا ہر طبقہ فکر آپ کی اصول پسندی اور حق گوئی کا معترف ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آپ کی وفات پر سرینگر، جموں اور مظفرآباد سے نشرشدہ تعزیتی پیغامات میں اس کا برملا اظہار اور اعتراف کیا گیا۔ یہ الگ بات کہ تعزیت کرنے والوں میں وہ لوگ اور جماعتیں بھی شامل ہیں جنہوں نے اپنی مراعات کیلئے کشمیریوں کے ساتھ ہر طرح کی دھوکے بازی کرکے انہیں تاریخ کے ایسے چوراہے پر کھڑا کردیا ہے جہاں سے ہر طرف صرف تباہی دکھائی دے رہی ہے۔ اس سے قطع نظر کشمیر کی تاریخ کامریڈ سیٹھی کو ایک ایسے جانباز انقلابی کے طور پر یاد رکھے گی جنہوں نے اپنے اصولوں اور نظریات کی خاطر نہ صرف سیاسی مراعات کو ٹھکرایا بلکہ اپنے سیاسی کیریئر کو ختم کردینا زیادہ بہتر سمجھا۔ اگرچہ کچھ عرصے سے ان کی صحت ٹھیک نہیں تھی مگر وہ آخر وقت تک جموں وکشمیر اور اس کے عوام کے حقوق کیلئے آواز اٹھاتے رہے۔ آپ کی وفات کے بعد اب کوئی ایسا دوسرا ہندو لیڈر نہیں جس سے کشمیری مسلمان عوام، سیاسی کارکن، دانشور یا صحافی گرمجوشی یا وابستگی قائم کرسکیں۔ آپ بےتحاشا منافرتوں، سرکاری ظلم و زیادیتوں اور تفرقوں کے بیچ نہ صرف وادی کشمیر کے مسلمانوں اور جموں کے ہندوؤں کے درمیان ایک مضبوط رابطہ تھے بلکہ جموں اور مظفرآباد کے درمیان محبت اور بھائی چارے کی آخری نشانی بھی تھے۔ آپ کے جانے کے بعد اب اس قسم کے غیر رسمی اور گرمجوشی پر مبنی رابطے شاید دوبارہ کبھی ممکن نہ ہوں۔

سیٹھی صاحب 1927 میں میر پور میں پیدا ہوئے ،اس وقت جموں و کشمیر کی شناخت ایک الگ ملک کی تھی جس کا مہاراجہ انگریزوں کا وفادار ضرور تھا مگر وہ اپنے ملک کے انتظامی اور سیاسی معاملات چلانے میں کافی حد تک خود مختار تھا۔ باقی شخصی حکومتوں کی طرح ڈوگرہ مہاراجے بھی سفاک تھے جنہوں نے اپنی رعایا کو جانور سمجھ کر ان پر طرح طرح کے ٹیکسوں اور جبروزیادتیوں کا بوجھ لادکر انہیں تباہ کر دیا تھا۔ ڈوگرہ حکمرانوں پر عمومی طور پر ہندو مذہبی شدت پسندی کا غلبہ تھا جسے وہ اپنی مسلمان رعایا اور خاص کر کشمیری زبان بولنے والے مسلمانوں کے حوالے سے معاندانہ رویے اور پالیسیوں سے صاف ظاہر کیا کرتے تھا۔ کرشن دیو سیٹھی کی عملی زندگی کا آغاز مہاراجہ حکومت کی چیرہ دستیوں کے خلاف جدوجہد سے ہوا اور یوں آپ ڈوگرہ شخصی راج کے خلاف جدوجہد کرنے والے معدودے چند ہندوؤں میں شمار ہوتے ہیں۔ آپ نے آخر وقت تک ریاستی چیرہ دستیوں اور زیادتیوں کے خلاف آواز اٹھائی اور آپ مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے مقدور بھر کاوشیں کرتے رہے۔ آپ نے اپنی سیاسی جدوجہد کا آغاز اسکول کے زمانے سے کیا جب آپ پندرہ سال کی عمر میں 1940میںشیخ عبداللہ مرحوم کی جماعت نیشنل کانفرنس کے ورمل، کشمیر میں ہونے والے پہلے اجلاس میں شامل ہوئے۔ سیٹھی کی شرکت کو اعلانِ بغاوت سمجھ کر ان کے اپنوں نے انہیں طنزوتنقید کا نشانہ بنایا مگر وہ اپنے مستقبل کا تعین کر چکے تھے۔ انہوں نے زندگی میں کبھی اپنے آدرشوں کا سودا نہیں کیا اور نہ ہی کسی مالی منفعت یا عہدے کے لالچ میں کسی حاکم یا صاحبِ اقتدار کی قصیدہ خوانی کی۔

1947میں جب مہاراجہ ہری سنگھ کے خلاف عوامی بغاوت ہوئی تو آپ اس وقت ’’کشمیر چھوڑ دو‘‘ تحریک کا حصہ ہونے کی وجہ سے میر پور جیل میں قید تھے۔ بغاوت کے نتیجے میں جیل پر لوگوں نے حملہ کرکے محصورین کو آزاد کرادیا مگر سیاسی انقلاب پر مذہبی منافرت اس حد تک حاوی ہوچکی تھی کہ آپ کو میسّر ہونے والی ’’آزادی‘‘ جلد ہی ہجرت میں بدل گئی۔ نئے ماحول میں آپ کی جان بچانے کیلئے چند دوستوں نےآپ کو جموں منتقل کردیا جہاں آپ نے اپنے ذاتی مفادات کو پسِ پشت ڈال کر ایک باغیرت انسان کی طرح مسلمانوں کی نسل کشی روکنے کی حتی الامکان کوشش کی۔ اس دوران ان کے دشمنوں نے انہیں چین کیلئے جاسوسی کرنے کے جھوٹےالزام میں گرفتار کروایا مگر عوامی دباؤ پر وہ جلد ہی رہا ہوگئے۔ آپ جموں و کشمیر کی پہلی قانون ساز اسمبلی کے ممبر منتخب ہوئےاور پھر شیخ عبداللہ کے آمرانہ مزاج کےخلاف بننے والی پہلی اپوزیشن کا حصہ بنے اور بالآخر کمیونسٹ پارٹی میں شامل ہوگئے۔ آپ آخر وقت تک عملی اور نظریاتی طور پر لیفٹ کے ساتھ وابستہ رہے اور بڑی شان سے ایک درویشانہ زندگی گزاری۔

تازہ ترین