• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

گزشتہ ماہ کی 16 تاریخ کو شام پانچ بجے کے قریب کوہ پیمائی کی دنیا میں ایک نیا ریکارڈ قائم ہوا، جب نیپال سے تعلق رکھنے والے 10 کوہ پیماؤں کی ٹیم نے پاکستان کے علاقے، اسکردو سے دو سو کلومیٹر کے فاصلے پر واقع دنیا کے دوسرے بلند ترین پہاڑ، کے ٹو کی 8611 میٹر بلند چوٹی سَر کی۔ یہ واقعہ اِس لحاظ سے اہم تھا کہ کوئی شخص یا ٹیم موسمِ سرما میں، جب درجۂ حرارت منفی 50 تھا، پہلی بار اِس چوٹی تک پہنچ پائی تھی۔اِس دَوران اسپین سے تعلق رکھنے والے ایک کوہ پیما، سرگئے منگوٹ بیس کیمپ واپس آتے ہوئے جان کی بازی ہار گئے۔کے ٹو کی چوٹی یوں سَر کرنا ایک بڑا واقعہ تھا، اِس لیے میڈیا نے بھی کوریج کا حق ادا کردیا اور اسی میڈیا کوریج سے عام لوگوں میں کوہ پیمائی سے متعلق زیادہ سے زیادہ جاننے کی خواہش انگڑائی لینے لگی۔ 

کچھ دن بعد ایک اور اہم پیش رفت ہوئی، جس کے سبب گھر گھر کوہ پیمائی کی داستانیں گونجنے لگیں۔ نیپالی ٹیم میں ایک کے علاوہ باقی تمام مہم جوؤں نے آکسیجن ٹینک کا استعمال کیا تھا، جس پر کچھ تنقید بھی ہوئی اور پھر تین باہمّت اور حوصلہ مند کوہ پیماؤں نے کے ٹو کو سردیوں ہی میں بغیر آکسیجن ٹینک استعمال کیے سَر کرنے کا اعلان کردیا۔ اِن کوہ پیماؤں میں آئس لینڈ کے جان سنوری، چلی کے پابلو موہر، پاکستان کے محمّد علی سدپارہ اور اُن کے بیٹے، ساجد سدپارہ بھی شامل تھے۔ ٹیم میں پاکستانی شہریوں کی شمولیت نے پاکستانی عوام کو بھی اِس مہم جوئی کے حوالے سے پُرجوش کردیا اور وہ لمحے لمحے کی خبریں دِل چسپی سے سُننے لگے۔

سیاسی و سماجی رہنماؤں نے اپنے پیغامات میں ٹیم کے لیے نیک تمنّاؤں کا اظہار کیا، تو سوشل میڈیا پر مہم کی کام یابی کے لیے دعاؤں کی اپیلز کی گئیں۔قوم میں حیرت انگیز طور پر کوہ پیمائی جیسی غیر معروف مہم جوئی کے لیے ایسے جذبات دیکھے گئے، جو عام طور پر کرکٹ میچز ہی کے ساتھ مخصوص ہیں۔اِس مہم نے اخبارات کی سُرخیوں میں، تو ٹی وی چینلز پر بریکنگ نیوز میں جگہ بنائی۔ 5 فروری کی شام تقریباً چار بجے آئس لینڈ کے جان سنوری نے متعلقہ افراد سے رابطہ کرکے خیر خیریت سے آگاہ کیا، مگر یہ آخری رابطہ ثابت ہوا۔ 

اگلے روز محمّد علی سدپارہ کے بیٹے، ساجد سدپارہ نے بیس کیمپ پہنچ کر بتایا کہ اُن کے آکسیجن ٹینک میں کچھ خرابی ہوگئی تھی، جس کی بنا پر اُنھیں واپس بھیج دیا گیا، جب کہ والد دیگر دو غیر مُلکی کوہ پیماؤں کے ساتھ(بغیر آکسیجن ٹینک) چوٹی کی طرف بڑھ گئے۔ رابطہ منقطع ہونے اور ٹیم کی مقرّرہ وقت پر واپسی نہ ہونے کی اطلاعات قوم پر بجلی بن کر گریں، ہر طرف دعاؤں کے لیے ہاتھ اُٹھ گئے، تو فوری طور پر ریسکیو آپریشن بھی شروع کردیا گیا۔ یقیناً یہ ایک افسوس ناک واقعہ ہے، جس نے پوری قوم کو دل گرفتہ کردیا، البتہ اِس معاملے کا ایک دوسرا پہلو یہ بھی ہے کہ پاکستان میں پہلی بار اِتنے بڑے پیمانے پر کوہسار، کوہ پیما اور کوہ پیمائی زیرِ بحث آئے۔

کوہ پیمائی، پاکستان کے لیے قدرت کا بڑا تحفہ

دنیا میں 8 ہزار میٹر سے بلند 14 پہاڑ ہیں، جن میں سے 5چوٹیاں پاکستان میں ہیں۔ان میں دنیا کی دوسری بلند ترین چوٹی کے ٹو اور نویں بلند ترین چوٹی، نانگا پربت بھی پاکستان میں ہیں، جب کہ باقی تین چوٹیاں گاشر برم ون، بروڈ پیک اور گاشر برم ٹو ہیں۔نیز، پاکستان میں سات ہزار میٹر سے بلند چوٹیوں کی تعداد 108 ہے، جب کہ چھے ہزار میٹر اور اُس سے کم چوٹیوں کے حوالے سے ابھی تک کوئی تفصیلی سروے نہیں ہوا۔ گلگت سے40 کلومیٹر دور وہ مقام ہے، جہاں دنیا کے تین بڑے پہاڑی سلسلے کوہِ ہمالیہ، کوہ قراقرم اور کوہِ ہندوکش آپس میں ملتے ہیں۔

کوہستان، کوہ پیما اور کوہ پیمائی
کرّار حیدری

الپائن کلب پاکستان 1974ء سے کوہ پیمائی کے حوالے سے غیر سرکاری طور پر خدمات انجام دے رہا ہے اور یہ کوہ پیمائی سے متعلق مختلف تنظیموں کی فیڈریشن کے طور پر بھی کام کرتا ہے۔ کلب کے سیکریٹری، کرّار حیدری نے ایک سوال کے جواب میں بتایا’’ پاکستان میں کوہ پیمائی کے شعبے میں وسیع مواقع ہیں، چوں کہ دنیا میں صرف پاکستان اور نیپال ہی دو ایسے ممالک ہیں، جہاں بلند ترین پہاڑی چوٹیاں ہیں، اِسی لیے یورپ اور دیگر ممالک کے کوہ پیما ان ممالک کا رُخ کرتے ہیں۔

یورپ میں محض چھے ہزار میٹر بلند چوٹیاں ہیں۔نائن الیون واقعے اور 2013ء میں نانگا پربت بیس کیمپ میں ہونے والی دہشت گردی کے بعد غیر مُلکی سیاحوں نے اِن علاقوں میں جانا چھوڑ دیا تھا،مگر اب سیکیوریٹی کی صُورتِ حال بہت بہتر ہوئی ہے، جس کی وجہ سے غیر مُلکی سیّاح اور کوہ پیما شمالی علاقہ جات جا رہے ہیں۔

گو کہ کورونا کی وجہ سے پوری دنیا میں سیّاحت کی صنعت سُکڑی ہے، مگر پاکستان اِس لحاظ سے خوش قسمت ثابت ہوا کہ یہاں اِن حالات میں بھی غیر مُلکی سیّاح آ رہے ہیں۔اگر اندرونِ مُلک کے سیّاحوں کی بات کریں، تو گزشتہ چند ماہ میں ریکارڈ تعداد میں لوگوں نے گلگت بلتستان اور خیبر پختون خوا کے سیّاحتی مقامات کا سفر کیا ۔ اِن حقائق سے پتا چلتا ہے کہ پاکستان میں سیّاحت اور کوہ پیمائی کا شعبہ بہت پُرکشش ہے۔‘‘غلام محمد’’ بلیو اسکائی ٹریکس اینڈ ٹورز‘‘ کے سربراہ ہیں۔

اسکردو میں قائم اِس ادارے کے تحت صرف غیر مُلکی کوہ پیماؤں کو خدمات فراہم کی جاتی ہیں۔جب اُن سے کوہ پیمائی کے شعبے کی ترقّی سے متعلق سوال کیا، تو اُنھوں نے کہا’’ سمجھنے کی بات یہ ہے کہ غیر مُلکی سیّاح ہم سے کچھ لیتے نہیں، دیتے ہی ہیں اور وہ بھی ڈالرز کی شکل میں۔ لہٰذا، اُنھیں جس قدر زیادہ سہولتیں فراہم کی جائیں، کم ہیں۔ وہ ہمارے اچھے امیج ہی کا ذریعہ نہیں بنتے، زرِ مبادلہ میں اضافے کا بھی سبب ہیں۔‘‘

پہاڑوں کی تسخیر کتنی آسان، کتنی مشکل؟

شمالی علاقہ جات کی خُوب صُورتی کا سُن کر آپ کا بھی وہاں جانے کو دِل مچلنے لگا ہے اور خیالوں میں خود کو پہاڑوں کی چوٹیوں پر دیکھ رہے ہیں، مگر ذرا نیچے اُتر آئیے، کیوں کہ کوہ پیمائی اب اِتنی بھی آسان نہیں۔ ہمارے ایک دوست اکثر یہ خود ساختہ شعر سُنایا کرتے تھے کہ’’ بکری چڑھی پہاڑ پر…اور دوسری طرف سے اُتر گئی‘‘ مگر پہاڑوں پر چڑھنا آسان ہے اور نہ اُترنا سہل۔ مرزا علی بیگ پاکستان کے معروف کوہ پیما ہیں اور دنیا کی بلند ترین پہاڑی چوٹیاں سَر کرنے کا اعزاز رکھتے ہیں، ہم نے اُن سے پوچھا’’ کوہ پیما میں کیا خُوبیاں ہونی چاہئیں؟‘‘ تو اُنھوں نے بتایا’’ پہلی بات تو یہ ہے کہ کوہ پیما کی موسمی حالات پر مضبوط گرفت ہونی چاہیے۔

کوہستان، کوہ پیما اور کوہ پیمائی
مرزا علی بیگ

یعنی وہ سرد موسم، یخ ہواؤں وغیرہ کو برداشت کرسکتا ہو۔ اُسے پہاڑ کی فزیکل پوزیشن کا بھی علم ہو کہ کہاں خطرناک چڑھائی ہے اور کہاں کھائی؟ برف کی صُورتِ حال کیا ہے، تودے کہاں گر سکتے ہیں ؟نیز، پہاڑ پر بدلتے موسموں کے حوالے سے بھی بھرپور معلومات ضروری ہیں۔علاوہ ازیں، کوہ پیما کی جسمانی حالت ٹھیک ہو اور اُس نے پہاڑوں پر چڑھنے کی باقاعدہ تربیت بھی حاصل کی ہو۔‘‘

جیب میں کتنے پیسے ہیں؟

کوہ پیمائی ایک منہگا، بلکہ بہت ہی منہگا شوق ہے، یہی وجہ ہے کہ بہت کم لوگ خواہش کے باوجود چوٹیاں سر کرنے کے سفر کی ہمّت کر پاتے ہیں۔ اِس کے لیے مخصوص لباس اور آلات کی ضرورت ہوتی ہے۔ محمّد شرافت کی گلگت اور اسکردو میں’’ NORTHERN CLIMBING EQUIPMENT‘‘ کے نام سے دُکانیں ہیں، جہاں کوہ پیمائی سے متعلقہ سامان فروخت ہوتا ہے۔ اُنھوں نے ان اشیاء کے حوالے سے بتایا’’ کے ٹو پر زیادہ بلندی تک جانے کے لیے ایک شخص کی کِٹ 4 سے 5 ہزار ڈالرز میں تیار ہوتی ہے اور یہ تمام اشیاء بیرونِ مُلک سے منگوائی جاتی ہیں۔ 

کوہستان، کوہ پیما اور کوہ پیمائی
محمّد افضل

پاکستان میں تیار ہونے والی اشیاء سے کے ٹو بیس کیمپ یا پھر ناران، کاغان وغیرہ کے پہاڑوں تک ہی جایا جا سکتا ہے۔‘‘غلام محمّد کا کہنا ہے کہ’’ ہم صرف بیس کیمپ تک ہی سہولتیں فراہم کرتے ہیں۔ جہاں تک اخراجات کی بات ہے، تو’’ جتنا گڑ ڈالو گے، اُتنا میٹھا ہوگا‘‘والی بات ہے۔ جو جیسی سہولتیں حاصل کرنا چاہتا ہے، اُس سے اُسی کے مطابق رقم وصول کی جاتی ہے۔ البتہ یہ فیس کم سے کم 2 ہزار ڈالرز اور زیادہ سے زیادہ8 ہزار ڈالر تک جا سکتی ہے۔‘‘ محمّد افضل دیوسائی ٹریول پاکستان کے اونر ہیں اور غیر مُلکی کوہ پیماؤں کے ساتھ کام کا وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔

اُن کا خیال ہے کہ’’کسی غیر مُلکی کوہ پیما کو اسلام آباد سے کے ٹو سَر کرنے اور وہاں سے واپس اسلام آباد جانے تک، تمام اخراجات مع حکومتی فیسز تقریباً ایک لاکھ ڈالرز ادا کرنے پڑتے ہیں۔‘‘جی، حکومتی فیس بھی ادا کرنی پڑتی ہے، جو ہزاروں ڈالرز میں ہوتی ہے، تاہم یہ فیس پاکستانیوں کو ادا نہیں کرنی پڑتی اور پاکستانیوں کو اس کی ضرورت بھی نہیں کہ وہ اپنی جیب سے کے ٹو سَر نہیں کرتے، وہ کیسے؟ آئیے دیکھتے ہیں۔

پاکستانی کوہ پیما کہاں جائیں؟

کے ٹو سَر کرنے کے لیے پاکستانیوں کو سرکاری فیس سے تو استثنا حاصل ہے، مگر خصوصی کِٹ، کھانے پینے اور پورٹرز وغیرہ پر جو بھاری اخراجات آتے ہیں، وہ اُن کی برداشت سے باہر ہیں۔ یہی وجہ ہے پاکستانی کوہ پیما اپنی جیب سے مہم جوئی کی بجائے غیر مُلکی کوہ پیماؤں کے ساتھ عام پورٹر یا ہائی الٹیٹیوڈ پورٹر( زیادہ بلندی تک ساتھ جانے والے) کے طور پر کام کرتے ہیں۔ اِس کی ایک بڑی مثال ، جو مُلک وقوم کے لیے شرمندگی کا بھی باعث ہے، محمّد علی سدپارہ کی ہے۔ 

آج اُنھیں ایک قومی ہیرو کا مقام دیا جا رہا ہے اور بلاشبہ وہ اس کے مستحق بھی ہیں، مگر یہ حقیقت بھی سامنے رہے کہ وہ اس مہم کو سر کرنے کے لیے ہائی الٹیٹیوڈ پورٹر یعنی ایک مزدور کے طور پر گئے تھے اور انھیں آئس لینڈ کے کوہ پیما نے اس مقصد کے لیے اپنے ساتھ رکھا تھا۔ پورٹر کا کام سامان اُٹھانا، کھانا تیار کرنا، برتن وھونا اور خیمے وغیرہ لگانا ہوتا ہے۔مرزا علی بیگ کا اِس ضمن میں کہنا ہے ’’یقیناً کوہ پیمائی ایک منہگا شوق ہے، مگر یہ روزگار بھی ہے۔جہاں کوہ پیمائی سے مُلک کو قیمتی زرِمبادلہ حاصل ہوتا ہے، وہیں مقامی افراد کو گائیڈ یا پورٹر کے طور پر براہِ راست آمدنی کے مواقع حاصل ہوتے ہیں اور ساتھ ہی اُن کے شوق کی بھی تکمیل ہوجاتی ہے۔

کوہستان، کوہ پیما اور کوہ پیمائی
نیپالی کوہ پیما پہلی بار سردیوں میں کے ٹو سَر کرنے پر خوشی کا اظہار رہے ہیں

تاہم، اگر وہ شوق کے ساتھ اچھی تربیت بھی حاصل کرلیں، تو اُنھیں بین الاقوامی سطح پر اسپانسرز بھی مل سکتے ہیں، خاص طور پر غیر مُلکی کمپنیز اُن کی مدد کر سکتی ہیں۔نیز، حکومت غیرمُلکیوں سے جو فیس وصول کرتی ہے، اُس کا کچھ حصّہ مقامی کوہ پیماؤں کی تربیت اور مالی مدد پر بھی خرچ کرنا چاہیے۔ پاکستان کے لوگ بہت بہادر اور حوصلہ مند ہیں، مگر اُنھیں سرپرستی کی ضرورت ہے۔ کس قدر شرم کی بات ہے کہ علی سد پارہ کو زندگی میں کسی حکومتی یا نجی ادارے نے کوئی اہمیت نہیں دی۔‘‘محمّد افضل نے بتایا’’ پاکستانی کوہ پیما غیر مُلکیوں کے ساتھ پورٹرز کے طور پر پہاڑوں پر جاتے ہیں، جہاں موقع ملنے پر وہ بھی اپنے مُلک کا جھنڈا لہرا دیتے ہیں۔ کم ازکم مجھے تو یاد نہیں کہ خود پاکستانیوں نے کبھی اپنے خرچ پر اِس طرح کی مہم جوئی کی ہو۔

کوہستان، کوہ پیما اور کوہ پیمائی
ماہرین ریسکیو کے لیے جدید ٹیکنالوجی کے استعمال پر زور دے رہے ہیں تاکہ کوہ پیماؤں کی زیادہ بلندی تک مدد کی جاسکے

نیپالی کوہ پیماؤں نے مختلف اداروں کی معاونت ہی سے چوٹی سَر کی۔ ماضی میں حسن سدپارہ کو اسپانسر شپ دی گئی، تو اُنھوں نے قوم کو مایوس نہیں کیا۔‘‘کرّار حیدری بھی اِس صُورتِ حال پر دل گرفتہ ہیں، وہ کہتے ہیں’’کوہ پیماؤں کو بھی سرکاری اور نجی اداروں میں ملازمتیں دی جائیں، جیسے کرکٹ اور ہاکی وغیرہ کے کھلاڑیوں کو دی جاتی ہیں۔گو کہ صاحبِ ثروت افراد ضرورت مند کوہ پیماؤں کی حوصلہ افزائی کر رہے ہیں، مگر نجی اداروں کو آگے بڑھنا ہوگا۔ 

لوگ سیّاحت کی طرف آ رہے ہیں، جس سے ٹور آپریٹرز تو کما رہے ہیں، مگر پاکستانی کوہ پیما آزادانہ طور پر چوٹیاں سَر کرنے کا شوق دل ہی میں دبائے رکھنے پر مجبور ہیں، حکومت یا نجی ادارے انھیں اسپانسر کرے۔مرزا علی بیگ اور ثمینہ بیگ اسپانسرشپ ہی پر گئے، البتہ عظمیٰ یوسف نے خود مہم سَر کی تھی۔‘‘

تربیت کتنی ضروری؟

ہم نے جس سے بھی بات کی، اُس نے کوہ پیماؤں، گائیڈز اور پورٹرز کی تربیت کا موضوع ضرور چھیڑا۔تاہم، کوہ پیمائی میں جس قدر اہم امر ہے، اتنا ہی اسے نظرانداز کیا جا رہا ہے۔ پاکستان پوری دنیا کے کوہ پیماؤں کو چوٹیاں سَر کرنے کے دعوت نامے بھجوا رہا ہے اور یہاں کوئی ایک بھی ایسا سرکاری ادارہ نہیں، جہاں کوہ پیماؤں کو باقاعدہ اور عالمی اصول وضوابط کے تحت تربیت دی جاتی ہو۔ 

کچھ نجی ادارے ضرور اس کام میں اپنا حصّہ ڈال رہے ہیں، مگر اُن کی تعداد بہت کم ہے۔’’ بلیو اسکائی ٹریکس اینڈ ٹورز‘‘ کے سربراہ سے جب عملے کی تربیت کی بابت سوال کیا، تو اُنھوں نے صُورتِ حال پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا’’ کوئی تربیتی ادارہ تو نہیں ہے، البتہ ہم کوہ پیماؤں کے ساتھ جانے والے پورٹرز یا گائیڈز سے پہلے ہلکے پُھلکے کام لیتے ہیں، جیسے سامان اُٹھا کر ساتھ جانا، کھانا پکانا، برتن دھونا وغیرہ۔ یوں وہ آہستہ آہستہ تجربہ کار ہو ہی جاتے ہیں۔‘‘مرزا علی بیگ نے کہا’’ بدقسمتی سے حکومتی سطح پر کوہ پیمائی سے متعلق تربیت کا کوئی انتظام نہیں ہے، ہم سمیت کئی نجی ادارے اپنے طور پر تربیت دے رہے ہیں، مگر بہت کام کرنا باقی ہے۔‘‘

حادثات سے بچاؤ اور ریسکیو

چوں کہ چوٹیاں سِر کرنے کا شوق خطرات سے گھِرا کھیل ہے، تو کوہ پیماؤں کے ذہن میں یہ بات تو پختہ ہوتی ہے کہ اُنھیں تمام تر احتیاطی تدابیر کے باوجود بھی حادثات سے دوچار ہونا پڑ سکتا ہے، تاہم، ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر اس طرح کی مہمّات میں شامل تمام افراد( کوہ پیما، گائیڈ، پورٹرز) تربیت یافتہ ہوں، تو حادثات کی شرح میں کمی لائی جا سکتی ہے۔ نیز، مواصلات اور ریسکیو نظام میں بہتری کے ذریعے بھی کوہ پیماؤں کی زندگیاں محفوظ بنائی جا سکتی ہیں۔الپائن کلب کے سیکریٹری، کرّار حیدری، محمّد علی سدپارہ کی تلاش کے آپریشن کو بہت قریب سے دیکھتے رہے اور اِس حوالے سے اُن کی ماہرانہ آرا بھی سامنے آتی رہیں۔ 

ہمارے سوالات پر اُن کا کہنا تھا’’ ریسکیو نظام میں کچھ اصلاحات کی فوری ضرورت ہے۔ ایک تو یہ کہ پہلے اس طرح کے معاملات براہِ راست فوج دیکھتی تھی، مگر اب عسکری ایوی ایشن کے تحت یہ نظام کردیا گیا ہے، جس کی وجہ سے کئی بار رابطوں میں تاخیر بھی ہوجاتی ہے۔ پاک فوج نے ریسکیو آپریشنز میں کئی قابلِ قدر مثالیں قائم کیں، جنھیں عالمی سطح پر بھی سراہا گیا۔میری تجویز ہے کہ ریسکیو معاملات ڈپٹی کمشنر کے سپرد ہونے چاہئیں اور اُن کے پاس 24 گھنٹے ہیلی کاپٹرز موجود رہیں۔ اِس اقدام سے رابطوں، امداد اور ریسکیو کے کاموں میں بہتری آئے گی۔ نیز، موبائل فون، وائی فائی اور رابطوں کے دیگر ذرایع تک بھی آسان رسائی ضروری ہے۔ 

کوہستان، کوہ پیما اور کوہ پیمائی
کوہ پیمائی میں استعمال ہونے والی اشیاء، جن پر ہزاروں ڈالر لاگت آتی ہے

اگر کوشش کی جائے، تو کے ٹو پر خاصی بلندی تک اِس طرح کی سہولت دی جاسکتی ہے، جس سے فوری رابطے یقینی ہو سکیں گے۔ ‘‘ مرزا علی بیگ کا کہنا ہے کہ’’ چوں کہ یہ ایک حسّاس علاقہ ہے، اِس لیے یہاں نجی شعبے کو تو شاید فضائی سروس کی اجازت نہ ملے، البتہ متعلقہ اداروں کو سرچ آپریشنز کے لیے جدید ٹیکنالوجی سے بھی کام لینا چاہیے۔ خاص طور پر ڈرون ٹیکنالوجی اِس ضمن میں کافی کارآمد ثابت ہو سکتی ہے۔ہیلی کاپٹر سروس خاصی منہگی ہوتی ہے۔ کمیونی کیشن بریک ڈاؤن بھی حادثات کا سبب بنتا ہے۔ مَیں نے اور میری بہن، ثمنہ بیگ نے کمیونی کیشن سہولتوں کے حوالے سے کچھ کوششیں کی ہیں اور امید ہے کہ جلد کام یابی ملے گی۔‘‘

اچھی بات یہ ہے کہ متعلقہ اداروں کو اِس معاملے کی سنگینی کا پورا احساس ہے اور مُلکی تاریخ میں پہلی بار علی سدپارہ کی تلاش کے آپریشنز میں جدید ٹیکنالوجی کا بھی استعمال کیا گیا اور توقّع یہی ہے کہ مستقبل میں نظام مزید بہتری کی طرف جائے گا۔واضح رہے، غیر مُلکی کوہ پیماؤں کو چوٹی سَر کرنے کے لیے حکومت سے باقاعدہ اجازت نامہ لینا پڑتا ہے، جو گلگت بلتستان کاؤنسل جاری کرتی ہے۔ اس مقصد کے لیے اُنھیں پہلے کسی ٹور آپریٹر کا تعیّن کرنا پڑتا ہے، جو متعلقہ اداروں میں رجسٹرڈ اور’’ پاکستان ٹورز آپریٹرز ایسوسی ایشن‘‘ کا رُکن ہو۔ کوہ پیما، ٹور آپریٹرز کو ریسکیو فیس بھی ادا کرتے ہیں، جو ٹور آپریٹر اپنی ایسوسی ایشن کے پاس جمع کرواتا ہے۔ اگر مہم خیر وعافیت سے تکمیل تک پہنچ جائے، تو وہ رقم کچھ کٹوتی کے بعد واپس کر دی جاتی ہے۔ عسکری ایوی ایشن، اِسی تنظیم کی درخواست پر ریسکیو آپریشن کرتا ہے اور فی گھنٹے کے حساب سے اپنی فیس وصول کرتا ہے۔

پہاڑوں کو انسانوں سے بچائیں

ایک طرف کوہ پیمائی کے فروغ کی باتیں ہو رہی ہیں، روز نت نئے منصوبے، اعلانات سامنے آ رہے ہیں، تو دوسری طرف اِن خدشات کا بھی اظہار کیا جا رہا ہے کہ کہیں لوگوں کی آمد ورفت پہاڑوں کو بھی آلودہ نہ کردے، جس طرح انھوں نے سمندروں، دریاؤں، جھیلوں کو گند سے بھر دیا۔ اِس طرح کی تصاویر بھی دیکھنے کو ملتی رہی ہیں، جن میں سرسبز و شاداب وادیاں اور پہاڑ کچرے سے اَٹے ہوئے ہیں۔ کئی تنظیمیں اِس حوالے سے کام کر رہی ہیں، تاہم حکومتی سطح پر بھی اِس ضمن میں مؤثر اقدامات کی ضرورت ہے۔

بڑے مسائل کیا ہیں؟

عام دنوں کی تو بات الگ ہے، کورونا کے سبب لاک ڈاؤن کے دَوران بھی شہریوں کی ایک بڑی تعداد گھومنے پِھرنے کے لیے شمالی علاقوں کی طرف جاتی رہی۔ سوال یہ ہے، جب ہمارے ہاں سیّاحت اور خاص طور پر کوہ پیمائی کے شعبے میں آگے بڑھنے کے اِس قدر وسیع مواقع موجود ہیں، تو پھر خرابی کہاں ہے؟ یہ شعبہ کیوں اِس طرح ترقّی نہیں کر پا رہا، جیسی کہ کرنی چاہیے؟محمّد افضل نے اِس سوال کے جواب میں کہا’’سیّاحت بہت منہگی ہوتی جا رہی ہے، گاڑیوں کے کرایے، رہائش، خوراک سب ہی کے نرخ آسمان کو چُھو رہے ہیں۔ پھر یہ کہ علاقے تک رسائی اور سیّاحتی مقامات کے اطراف سڑکوں کی ابتر حالت ایک بڑی رکاوٹ ہے۔‘‘ کرّار حیدری بھی کچھ ایسی ہی رائے رکھتے ہیں۔ اُنھوں نے کہا’’ انفرا اسٹرکچر واقعی ایک بہت بڑا مسئلہ ہے۔ 

علاقے میں اچھے ہوٹلز بھی ہیں، مگر بہت سے اُس معیار کے نہیں، جن کی غیر مُلکی سیّاح توقع رکھتے ہیں۔ عملہ تربیت یافتہ ہے اور نہ ہی کمرے صاف ستھرے ہوتے ہیں، یہاں تک کہ واش رومز، بیڈ شیٹس، تکیے، کمبل وغیرہ بھی گندے ہوتے ہیں۔سیّاحوں کو گرم پانی اور سستی و معیاری ٹرانسپورٹ کی سہولت چاہیے ، جو اُنھیں نہیں ملتی۔

نیز،کمروں کے کرائے بہت زیادہ ہیں اور اِس معاملے پر حکومت کا کوئی کنٹرول نظر نہیں آتا۔خاص طور پر جب بھی سیّاحوں کی زیادہ تعداد آنے لگے، ہوٹلز مالکان مرضی کے کرائے وصول کرنے لگتے ہیں، جو عام افراد ہی نہیں، کوہ پیماؤں کے بجٹ پر بھی بہت بھاری ہوتے ہیں۔پھر ایک اہم مسئلہ گائیڈز کا بھی ہے، جو عام طور پر تربیت یافتہ نہیں ہوتے۔‘‘

فوری طور پر کیا، کیا جائے؟

وزیرِ اعظم، عمران خان تقریباً اپنی ہر تقریر میں سیّاحت کی ترقّی کی ضرور بات کرتے ہیں اور حکومت اس کا کریڈٹ بھی لیتی ہے کہ اُس نے اِس سمت میں خاصا کام کیا ہے، مگر حقیقت کیا ہے؟مرزا علی بیگ حکومتی اقدامات کو اچھی کوشش قرار دیتے ہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ’’موجودہ حکومت سیّاحت کے لیے ماضی کی حکومتوں سے بہت زیادہ کام کر رہی ہے۔تاہم اسے گراس روٹ لیول پر کام کرنا ہوگا۔ایسے ادارے بنائے جائیں، جو عوام میں کوہ پیمائی سے متعلق شعور اجاگر کریں۔ اہم بات یہ بھی ہے کہ سیّاحت، خاص طور پر کوہ پیمائی سے متعلق اداروں میں ایسے افراد تعیّنات کیے جائیں، جو ان معاملات کو سمجھتے بھی ہوں۔‘‘ 

غلام محمّد کا بھی یہی خیال ہے کہ حکومت نے کئی اچھے کام کیے ہیں، جن میں سے ایک آن لائن ویزے کی سہولت بھی ہے۔‘‘ تاہم، محمد افضل مختلف رائے رکھتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ’’ جہاں تک حکومتی اقدامات کی بات ہے، تو وہ ابھی تک اعلانات اور اخبارات ہی تک محدود ہیں، زمین پر کوئی خاص تبدیلی نظر نہیں آ رہی۔ذرائع آمد ورفت بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔ نہ صرف پورٹرز اور گائیڈز کو تربیت فراہم کرنے کی ضرورت ہے، بلکہ حکومتی سطح پر بھی ایسے ادارے قائم کیے جائیں، جہاں کوہ پیمائی کا شوق رکھنے والوں کو تربیت فراہم کی جائے۔‘‘

اِس ضمن میں کرّار حیدری کا کہنا ہے کہ’’ بلاشبہ آن لائن ویزے، سیکیوریٹی کی اچھی صُورتِ حال اور دیگر سہولتوں کے سبب مُلکی و غیر مُلکی سیّاحوں کی تعداد بڑھی ہے اور دنیا یہاں آنے کے لیے بے تاب ہے، مگر اب بھی بہت کچھ کرنا باقی ہے۔ غیر مُلکی کوہ پیماؤں کی انشورنس پاکستان میں قبول نہیں کی جاتی، یہ ایک بڑا مسئلہ ہے۔ ریسکیو نظام میں بھی جدّت لانی ہوں گی۔پاکستانی شہریوں کو اِس طرف مائل کرنے کے لیے نجی اداروں کو حکومتی سرپرستی اور فنڈز کی ضرورت ہے۔‘‘

تازہ ترین