• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
وزیر اعظم کی جانب سے ان شخصیات کے مالی معاملات کی تحقیقات کیلئے جن کی پاناما لیکس کی دستاویزات میں نشاندہی کی گئی ہے، سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کو خط لکھنے کے بعد عام طور پر ملک میں جاری سیاسی محاذ آرائی میں کمی کی توقع کی جارہی تھی جو پوری نہیں ہوئی اور اپوزیشن اور حکومت کے درمیان اس مسئلہ پر اختلافات کی خلیج پہلے سے بھی زیادہ وسیع ہوتی دکھائی دے رہی ہے گرمئی بیان کے اس ماحول میں اتوار کو تحریک انصاف کے یوم تاسیس کے جلسہ عام میں عمران خان نے اپنی تندوتیز تقریر میں وزیراعظم کے اعلان کردہ کمیشن کو ماننے سے انکار کردیا اور کہا کہ ہم صرف جسٹس کی سربراہی میں آزاد کمیشن چاہتے ہیں جو نواز شریف کا احتساب کرے۔ معاملے کی تحقیقات بین الاقوامی فرانزک کمپنی سے کرائی جائے۔ جوڈیشل کمیشن پر اپوزیشن کے ساتھ مل کر فیصلہ نہ ہوا تو قوم سڑکوں پر نکل آئے گی۔ پیپلزپارٹی کے رہنما اور اپوزیشن لیڈر سید خورشید شاہ نے سکھر میں ایک اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے ان کی تائید کی اور کہا کہ فرانزک آڈٹ کے بغیر کمیشن قبول نہیں۔ خیبر پختونخوا میں تحریک انصاف کی اتحادی ٗ جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق نے جوڈیشل کمیشن کے ٹرمزآف ریفرنس کو مسترد کر دیا اور اپوزیشن لیڈر سے کہا کہ وہ اس مسئلے پر چیف جسٹس کو خود خط لکھیں۔ حکومت کی جانب سے وفاقی وزراء پرویز رشید خواجہ آصف اور سعد رفیق نے اپنے رد عمل میں عمران خان کو آڑے ہاتھوں لیا۔ وزیر اطلاعات و نشریات پرویز رشید نے کہا کہ عمران خان پہلے چیف جسٹس کی سربراہی میں جوڈیشل کمیشن کا مطالبہ کرتے رہے اب جبکہ وزیراعظم نے کمیشن کے قیام کے لئے سپریم کورٹ کو خط لکھا ہے تو وہ اس کی مخالفت کر رہے ہیں، ٹرمز آف ریفرنس کے حوالے سے اپوزیشن کے اعتراضات کو رد کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ کمیشن کو فرانزک ایکسپرٹس سمیت ٹیکس سے متعلق عالمی ماہرین کی خدمات حاصل کرنے کا اختیار ہوگا اور تمام سرکاری ادارے بھی کمیشن کی معاونت کے پابند ہوں گے، حکومتی حلقوں اور زیادہ تر مبصرین کا عمومی تاثر یہ ہے کہ تحریک انصاف کا ہدف صرف وزیراعظم نواز شریف ہیں۔ عمران خان چاہتے ہیں کہ کمیشن نواز شریف کے خلاف تحقیقات کرے ۔ اسی لئے انہوں نے اپنی تقریر میں کہا ہے کہ ’’احتساب نواز شریف کا ہوگا۔ وہ یہ نہ کہیں کہ دو سو افراد کا احتساب ہوگا‘‘ حکومتی ترجمانوں اور اپوزیشن کے لیڈروں کے درمیان لفظی جنگ کی بجائے مسئلے کے سنجیدہ حل کی جانب پیش رفت کی ضرورت ہے جسے سیاسی مصلحتوں کی بھینٹ نہیں چڑھایا جانا چاہئے۔ اپوزیشن کا سب سے بڑا اعتراض کمیشن کے طریق کا ر یا ٹرمز آف ریفرنس کے حوالے سے سامنے آرہا ہے۔ یہ معاملہ پارلیمنٹ یا دوسرے آئینی فورمز پر بات چیت سے حل ہوسکتا ہے۔ اس کے لئے سڑکوں یا گلی محلوں میں جلسے جلوسوں اور مظاہروں کی ضرورت نہیں ہونی چاہئے۔ کمیشن کی تحقیقات کا طریق کار چیف جسٹس خود طے کرسکتے ہیں۔ عدالت عظمیٰ کے سربراہ کے طور پر آئین انہیں اختیار دیتا ہے کہ وہ کسی کو بھی معاونت کےلئے طلب کرسکتے ہیں۔ تمام ادارے ان کے احکامات کے پابند ہیں۔ حکومت خود بھی کہہ رہی ہے کہ کمیشن کو بین الاقوامی فرانزک ، کمپنی کی خدمات حاصل کرنے کا اختیار ہے۔ پھر بھی کوئی ابہام ہو تو سب سے بہتر طریقہ یہ ہے کہ پارلیمنٹ کے اندر یا کل جماعتی کانفرنس بلا کر افہام و تفہیم کے ذریعے ٹرمز آف ریفرنس کا فیصلہ کرلیا جائے۔ اپوزیشن خود بھی ٹی او آر بنا کر حکومت کو یا سپریم کورٹ کو پیش کرسکتی ہے لیکن اس پر بھی اتفاق رائے کے لئے بالآخر حکومت اور اپوزیشن کو مل بیٹھنا ہوگا۔معترضین کو مسئلے کے حل کے لئے سنجیدہ تجاویز پیش کرنی چاہئیں۔ ایسا کوئی قدم نہیں اٹھانا چاہئے جس سے ڈیڈلاک پیدا ہو۔ اس سے حکومت نہیں ملک عدم استحکام کا شکار ہوگا۔ جسے یقیناً کوئی بھی پسند نہیں کرے گا۔ توقع کی جانی چاہئے کہ فریقین اجتماعی دانش کا راستہ اختیار کریں گے تاکہ پانامہ لیکس کے پردے میں جو موقع ملا ہے اس سے سب کا بلا امتیاز احتساب ہو اور ملک کو مالی کرپشن سے نجات ملے۔
تازہ ترین