• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

حضرتِ غالبؔ کا زمانہ اِس اعتبار سے بہت اچھا تھا کہ وہاں لوگوں کو اپنے کاموں اور بداعمالیوں پر شرم آتی تھی۔ اُن کا شعر ہے؎

کعبہ کس منہ سے جاؤ گے غالبؔ

شرم تم کو مگر نہیں آتی

ہمارے زمانے میں شرم عنقا ہے۔ اب شرمانے کے بجائے اپنی وعدہ خلافیوں، کہہ مکرنیوں اور مذموم حرکتوں پر فخر کرنے کا چلن عام ہے۔ بدکلامی اور دَشنام طرازی آرٹ کا درجہ حاصل کرتی جا رہی ہے اور جو جس قدر بدزبان ہے، اس کا اتنا ہی بلند مقام ہے۔

اب خیر کے کاموں میں سبقت لے جانے کا جذبہ دم توڑتا جا رہا ہے، کیونکہ بدی کے پیروکار مسندِ اختیار پر جلوہ گر ہیں جس کی حفاظت کیلئے طرح طرح کے جتن کیے جا رہے ہیں۔ جگہ جگہ فریب اور دَغابازی کی سرنگیں بچھا دی گئی ہیں اور چاروں طرف خوشامد اور چاپلوسی میں ڈھلے ہوئے محافظ تعینات ہیں۔

لڑکپن میں جناب امیرؔ مینائی کا ایک شعر پڑھا تھا؎

خنجر چلے کسی پہ تڑپتے ہیں ہم امیرؔ

سارے جہاں کا درد ہمارے جگر میں ہے

اُس وقت میری سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ سارے جہاں کا درد ’ہمارے جگر‘ میں کیسے سما سکتا ہے، مگر اب جب اپنے پیارے وطن پہ خنجر چلتا دیکھتا ہوں، تو تڑپ اُٹھتا ہوں۔ سالہاسال سے یہی کیفیت طاری ہے اور جوں جوں وقت گزرتا جاتا ہے، میری شرمساری اور ندامت میں اضافہ ہوتا جاتا ہے۔ یہ میرا پیارا وطن جس نے ہمیں آزادی کی نعمت سے سرفراز کیا

عالمی برادری میں ہمارا سر بلند رکھا اور اسلام کو ایک زندہ تمدن کے طور پر فروغ دیا اور ہمیں ہندوانہ عقائد اور ذات پات کی چھوت چھات سے پناہ دی، وہ آج ہماری بداعمالیوں کے باعث سخت اذیت میں ہے۔ وہ روح فرسا منظر میرے وطن کے وجود میں ایک تیغِ بےنیام کی طرح پیوست ہے جب کوالالمپور کے ایئرپورٹ پر پی آئی اے کا طیارہ اُس وقت قبضے میں لے لیا گیا جب وہ مسافروں کے ساتھ پاکستان کی طرف اُڑان بھرنے والا تھا۔ وہ طیارہ جس کمپنی سے لیز پر لیا گیا تھا، اُس نے ملائیشیا کی عدالت میں پی آئی اے کے خلاف دعویٰ دائر کیا کہ اِس نے لیز کی رقم ادا نہیں کی ہے۔ عدالت نے پی آئی اے کے خلاف فیصلہ سنا دیا۔

تب کئی ہفتے یہ طیارہ قید کی حالت میں پاکستان کی رسوائی کا باعث بنا رہا۔ اقتدار کے ایوانوں میں چہل قدمی فرمانے والوں نے اس قدر ذِلت آمیز سلوک پر کوئی حرفِ ندامت ادا کیا نہ کسی سے بازپُرس کی، کیونکہ انہیں اپنی ذات کی ملمع سازی سے فرصت ہی نہیں تھی۔

میرا وطن ابھی پہلے زخم ہی سے نڈھال تھا کہ اِس کے سر پر براڈشیٹ کا بم گرا اور اِس کا پورا وجود لہولہان ہو گیا۔ جنرل پرویز مشرف نے سیاسی وفاداریاں خریدنے کے لیے 1999 میں نیب کا ادارہ قائم کیا جس نے نوازشریف کے غیرملکی اثاثوں کا سراغ لگانے کے لیے ایک غیرمعروف کمپنی سے معاہدہ کیا۔ اُس میں یہ عجیب و غریب شِق بھی شامل تھی کہ اگر نیب اپنے طور پر اثاثوں کا سراغ لگا لیتا ہے، تو وہ اُن کا بیس فی صد کمیشن اس کمپنی کو ادا کرے گا۔

برسوں اس کمپنی کی کارکردگی صفر رہی جس پر معاہدہ منسوخ کر دیا گیا، مگر سارے معاملات خفیہ طور پر انتہائی غیرپیشہ ورانہ طریقے سے چلائے جاتے رہے، چنانچہ گزشتہ سال اِس کمپنی نے لندن کی عدالت میں مقدمہ دائر کر دیا کہ نیب نے معاہدے کے مطابق اسے کمیشن کی ادائیگی نہیں کی۔ طویل سماعت کے بعد عدالت نے نیب پر تیس ملین پونڈ کا ہرجانہ ڈال دِیا۔

اعلیٰ سطح پر ملی بھگت کے نتیجے میں پاکستان سے یہ رقم لندن میں پاکستان ہائی کمیشن کے اکاؤنٹس میں ٹرانسفر کر دی گئی جو کسی جائز اتھارٹی کے بغیر جعلی کمپنی کو آناً فاناً ادا کر دی گئی۔ ایک طرف میرا پاکستان معاشی تنگ دستی کا شکار ہے اور دوسری طرف پارلیمنٹ سے منظوری لیے بغیر لاکھوں پونڈ لٹائے جا رہے ہیں۔ اس ہوش رُبا اسکینڈل میں کئی پردہ نشینوں کے نام آ رہے ہیں اور اِحتسابی عمل میں چھپے چور دَروازے بھی بےنقاب ہوتے جا رہے ہیں۔

میرے عزیز وطن کے امیج کو جس واقعے نے بہت زیادہ نقصان پہنچایا، اس سے عرقِ انفعال کے فوارے اُبل پڑے ہیں۔ 2018کے سینیٹ انتخابات میں پاکستان پیپلزپارٹی نے خیبرپختونخوا سے اپنے ارکان کی تعداد کے تناسب سے دو نشستیں زیادہ حاصل کر لی تھیں جس پر وزیرِاعظم عمران خان نے اپنی پارٹی سے گیارہ ارکانِ اسمبلی نکال دیے تھے۔

اخراج کا اعلان کرتے وقت کہا تھا کہ ہمارے پاس وہ وِیڈیو محفوظ ہے جس میں یہ افراد رقوم وصول کر رہے ہیں۔ تین سال بعد جب سینیٹ کے انتخابات کا وقت قریب آیا، تو پی ٹی آئی نے اوپن بیلٹ سے انتخابات کرانے کا نظریہ پیش کیا۔

اِس کا موقف تھا کہ اِس سے ووٹوں کی خریدوفروخت کا سلسلہ بند ہو جائے گا۔ اِس مقصد کی خاطر اس نے اپنی غیرمصالحانہ روایت کے مطابق اپوزیشن کو اعتماد میں لیے بغیر آئین میں ترمیم کا بل پیش کیا جو شوروغُل کی نذر ہو گیا اور اِیوان مچھلی منڈی کا منظر پیش کرتا رہا۔ اس ناکامی کے بعد ایک صدارتی ریفرنس سپریم کورٹ کی خدمت میں بھیجا گیا کہ ہماری رہنمائی کی جائے۔

یہ ریفرنس ابھی زیرِسماعت ہی تھا کہ حکومت نے صدارتی آرڈیننس جاری کر دیا جس میں اوپن بیلٹ کا طریقِ کار نافذ کر دیا، تاہم اسے سپریم کورٹ کے فیصلے سے مشروط رکھا۔ اس موقع پر ایک ویڈیو وائرل ہوئی جس میں ارکانِ اسمبلی نوٹوں کی گڈیاں گن رہے ہیں اور اِنھیں بیگز میں ٹھونس رہے ہیں۔ ستم یہ کہ ارکان میں رقوم تقسیم کرنے والے صاحب خیبرپختونخواحکومت میں وزیرِ قانون کے منصب پر فائز تھے۔

وزیراعظم عمران خان کی ہدایت پر انہیں فوری طور پر وزارت کی ذمہ داری سے فارغ کر دیا گیا ہے، مگر اس وڈیو نے جو چہرے بےنقاب کر دیے ہیں اور وطنِ عزیز کو جو گہرے زخم لگائے ہیں، ان پر رب کی قسم ہم بہت شرمسار ہیں ۔

اس لرزہ خیز ندامت اور خجالت سے چھٹکارا پانے کا ایک ہی راستہ ہے کہ سپریم کورٹ، پاکستان الیکشن کمیشن اور پارلیمان سب مل کر شفاف، دولت کی آلائشوں سے محفوظ اور قابلِ اعتماد انتخابات کی راہ ہموار کریں اور پاکستان کے جمہوری چہرے کو زیادہ سے زیادہ تابدار بنائیں۔

تازہ ترین