• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

(گزشتہ سے پیوستہ)

دوستو! یہ توپ جسے زمزمہ اور بھنگیاں والی توپ بھی کہتے ہیں، ماضی کے خوبصورت شہر لاہور میں بنائی گئی تھی۔ جب اس تاریخی توپ کو بنانے کا حکم صادر ہوا تو کہا گیا کہ لاہور کے ہر گھر سے پیتل اور تانبے کا ایک ایک برتن حاصل کیا جائے ، لاہوریوں نے پیتل اور تانبے کا ایک ایک برتن توپ کی تیاری کے لئے دیا۔ اس وقت لاہور میں ہندو اور سکھوں کی آبادی بہت زیادہ تھی۔ ہندو اور سکھ پیتل اور تانبے کے برتن مسلمانوں اور عیسائیوں کے مقابلے میں زیادہ استعمال کرتے تھے۔ چنانچہ یہ زمزمہ توپ یعنی کمز گن (Kim's Gun) المعروف بھنگیاں والی توپ تیار ہو گئی۔ یہ توپ پہلی مرتبہ پانی پت کی جنگ میں مرہٹوں کے خلاف احمد شاہ ابدالی نے استعمال کی تھی اور کابل جاتے ہوئے وہ یہ توپ لاہور چھوڑ گیا۔ 1762 میں اس توپ پر ایک سکھ جرنیل ہری سنگھ بھنگی نے قبضہ کر لیا جس کی بنا پر یہ توپ بھنگیاں والی توپ کے نام سے مشہور ہوئی، آج تک لاہوریئے اسے بھنگیاں والی توپ ہی کے نام سے یاد کرتے ہیں۔ کبھی یہ بھی کہا جاتا تھا کہ یہ توپ جس کے پاس ہوتی وہ لاہور/ پنجاب کا حاکم بنتا تھا۔ یہ توپ ایک طویل مدت تک بھنگی سرداروں کے قبضے میں رہی۔ پھر لاہور، گوجرانوالہ اور امرتسر سے ہوتی ہوئی لاہور آئی تھی۔ 1802 میں سردار رنجیت سنگھ اسے لاہور لے کر آیا تھا جب سے یہ لاہور میں ہے۔ البتہ لاہور میں مال روڈ پر مختلف جگہوں پر اس کو رکھا گیا۔ کبھی یہ لاہور کے دہلی دروازے کے باہر بھی رہی پھر کبھی وزیر خاں کی بارہ دری جو میو اسکول آف آرٹس کے ساتھ ہے، وہاں بھی رہی اور اب پچھلے 243برس سے اسی مال روڈ پر ہے۔ توپ کی پشت پر حروف کندہ ہیں ’’پیکر اژدھائے آتشباز‘‘ ۔ فارسی زبان میں شیر کی گرج کو بھی زمزمہ کہتے ہیں۔ کہتے ہیں اس کی آواز بڑی زور دار تھی۔ ایک توپ لارنس گارڈن کی پہاڑی پر بھی نصب تھی جس کا گولہ لاہور میں کبھی دن کے بارہ بجے لارنس گارڈن کی پہاڑی سے داغا جاتا تھا جس سے لوگوں کو پتہ چل جاتا تھا کہ بارہ بج گئے ہیں۔ ایک تاریخی توپ کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج میں بھی نصب ہے۔ اس کی تاریخ بھی کبھی بیان کریں گے۔ شاہی قلعہ کے اندر بھی دو توپیں نصب ہیں۔ لاہور کے تاریخی حسن اور قدیم مغل فن تعمیر کو سب سے زیادہ نقصان سکھ حکمرانوں نے پہنچایا۔ دوسرا نقصان ماضی کی حکومتوں اور تجاوزات نے پہنچایا ہے۔ قیام پاکستان کے وقت آپ کو باغبانپورہ میں ہر تاریخی مقبرہ، عمارت اور قدیم باغ، یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی(میکلیگن کالج آف انجینئرنگ) کے پاس کھڑے ہو کر نظر آ جاتا تھا۔ آج آپ کو لاکھ کوشش کے بعد ان تاریخی مقابر اور عمارتوں کو تلاش کرنا پڑتا ہے۔ تاریخی باغ تو ویسے ہی قبضہ مافیا اور نئی بستیاں کب کی کھا چکیں۔ لاہور میں کبھی بے شمار اور کئی ماڈلز کی گاڑیاں چلا کرتی تھیں حتیٰ کہ پرانے زمانے کی کپڑے کی چھت والی گاڑیاں بھی مال روڈ پر نظر آتی تھیں۔ جن گاڑیوں یا موٹر کاروں کو ہم نے مال روڈ اور بانساں والی سڑک، ڈیوس روڈ، ریگل اور ایمپریس روڈ پر دیکھا ہے ان میں مورس، منی آسٹن، منی مورس، فوکس ویگن، شیورلیٹ، فورڈ، بیوک، ڈاج، ہل مین، واکس ہال، زفیر، اسکوڈا، امپیلا، فیئٹ، یہ سب گاڑیاں اب غائب ہو چکی ہیں۔ان خوبصورت اور دیدہ زیب موٹر کاروں کو دیکھنے کو اب آنکھیںترس گئی ہیں۔ اب لاہور میں صرف جاپانی گاڑیاں ہی نظر آتی ہیں۔ اس مال روڈ پر شاہی سواری، تانگہ، بگھی، وکٹوریہ، ٹم ٹم اور سائیکل رکشہ بھی کبھی چلا کرتے تھے۔ ہم نے ایک سائیکل رکشا بھی دیکھاہے۔

لاہور کے ٹریفک کا کیا صاف ستھرا اور زبردست نظام تھا۔ ہمارے سامنے دیکھتے دیکھتے لاہور میں ٹریفک کے خودکار سگنل نصب ہوئے۔ پولیس کے سپاہی ٹریفک کنٹرول کرتے تھے۔ ان کی یونیفارم لمبی لمبی نیکریں تھی۔ ٹریفک پولیس کا یونیفارم بالکل سفید، سفید لکڑی کا ہیٹ اور اس پر لال پٹی لگی ہوتی تھی۔ اینگلو انڈین ایس پی ایل آر نیلٹ (بعد میں ڈی آئی جی ہو گیا تھا) اکثر سڑک پر ٹریفک چیک کرتے ہوئے نظر آتا تھا۔ وہ پولیس میں سارجنٹ بھرتی ہوا تھا۔ اب سارجنٹ کی پوسٹ نہیں۔ اب تو ایس پی اور ڈی آئی جی ٹریفک سڑکوں پر ٹریفک کنٹرول کرنا اپنی توہین سمجھتے ہیں۔ ایل آر نیلٹ کا ساڑھے چھ فٹ کا حوالدار اس کے ساتھ ہوتا تھا۔ آرنیلٹ کا قد ذرا چھوٹا تھا۔ مجال ہے کہیں ٹریفک پھنسی ہو۔ بہت کم چالان ہوتے تھے البتہ سائیکل والے کا ڈبل سواری اور سائیکل پر بتی نہ ہونے پر ضرور چالان ہوتا تھا۔ تانگے والے کا بھی چالان ہوتا تھا۔ سائیکل ون وےچلانے پر بھی چالان ہوتا تھا۔ لوگ سائیکلوں پر سفر کرتے تھے اور صحت مند تھے۔ سینما گھروں میں سینکڑوں سائیکلیں کھڑی ہوتی تھیں۔ سائیکل کی بتی کی حفاظت کے علیحدہ پیسے ہوتے تھے۔ یا پھر بتی اتار کر یا ڈینمو کی حفاظت کا بندوست کرنا پڑتا تھا۔ ہر سائیکل اسٹینڈ پر لکھا ہوتا تھا کہ سائیکل کی بتی کی حفاظت خود کریں۔ تانگے کے دونوں طرف دائیں بائیں مٹی کے تیل کے بڑے بڑے لیمپ لگے ہوتے تھے۔ ہمیں یاد ہے کہ جنرل پوسٹ آفس اور بنک اسکوائر کے سامنے ایک بڑا خوبصورت بیل بوٹوں والا پول یعنی کھمبا ہوتا تھا جس پر بلب لگا ہوتا تھا۔ جب بجلی نہیں آئی تھی تو تیل سے لیمپ جلایا جاتا تھا۔ اس لیمپ پوسٹ پر کئی تاریخی جلسے ہوئے۔ کئی سیاسی لیڈروں نے یہاں تقریریں کیں۔ یہ لیمپ پوسٹ یا بتی والا کھمبا بڑا یادگار تھا اورتکونی شکل کا تھا۔ اس لیمپ کو یادگار کے طور پر یہیں رکھنا چاہئے تھا۔ اب بھی محکمہ آثار قدیمہ /کارپوریشن کو چاہئے کہ اس کو یہاں نصب کرے اور اس پر تاریخ درج کرے۔ ہم بھی اس لیمپ کے نیچے بیٹھ کر مال روڈ کا نظارہ کیا کرتے تھے۔ یہ لائٹ والا کھمبا/پول 1990 تک ہم نے دیکھا تھا۔ (جاری ہے)

تازہ ترین