• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بیانیہ خبریں کم ہی خوشگوار ہوتی ہیں، حالانکہ ہمارے مجموعی قومی میڈیا ایجنڈے میں سیاسی ابلاغ کا غلبہ ہے جو بھونڈی، غیر موثر اور الٹے اثر (فائر بیک) کی سیاسی بیان بازی سے اٹی ہوئی ہے۔ وجہ کروڑ ہا بلکہ اربوں روپے سے چلنے والے ملکی روایتی سیاسی جماعتوں کے میڈیا سیل ’’کمیونیکیشن سائنس‘‘ کے اطلاق کی صلاحیت سے عاری ہیں۔ انہیں گہرے اثر والے مطلوب طاقتور بیانیوں کی میسج کنسٹرکشن کی الف ب سے بھی آشنائی نہیں، لہٰذا ہمارے جارح اور ہائی فری کوئنسی سیاسی ابلاغ میں مطلوب بیانیے (Narratives) شاذ و نادر ہی بن پاتے ہیں۔ بن جائیں تو کسی نہ کسی درجے پر ضرور اثر انگیز ہوتے ہیں اور سیاسی جماعتیں اس کا خاطر خواہ فائدہ اٹھاتی ہیں۔ وگرنہ ہمارا سیاسی ابلاغ ڈیزاسٹر ہی ڈیزاسٹر ہے۔ یوں ہمارا ملکی سیاسی ابلاغ اپنے میڈیا پر غلبے کے ساتھ اپنی آلودگی اور Loaded Language)) سے مسلسل سیاسی انتشار اور مایوسی کا باعث بنتا رہتا ہے۔ لیکن بعض صورتوں میں تشویش تک کا باعث بن جاتا ہے جیسے گزشتہ تین چار ماہ سے حکومتی اور اپوزیشن کے سیاسی ابلاغ کی کیفیت بلیم گیم سے پر ہوگئی ہے جو سینٹ الیکشن اور گزشتہ ہفتہ دس روز میں خیبر پختونخوا، پنجاب اور سندھ میں ہونے والے ضمنی انتخابات میں تشویشناک ہوگئی، اور اس ماحول میں ڈسکہ میں پولنگ کے تشویشناک ماحول میں دو شہریوں کی جانیں بھی گئیں۔ یقیناً اس سارے سیاسی انتشار میں آلودہ اور جارح سیاسی ابلاغ نے اپنا بد رنگ دکھایا۔ اس پس منظر میں وزیر اعلیٰ عثمان بزدار کا بہت خوش گوار بیان آیا ہے۔ اگرچہ یہ تعلقات اور سیاسی دعوے کے زمرے میں آتا ہے، لیکن پڑھ کر ہی راحت و سکون محسوس ہوا۔ لگا کہ وزیر اعلیٰ کے ترقی کے دعوے اور پی آر ٹائپ بیانیے سے زیادہ کسی بڑےسائیں کا خواب یا خواہش ہے، جس نے مجھے ہی نہیں بہتوں کو محو کرکے انجانی سی راحت کا احساس دلایا ہوگا۔ سائیں بزدار کا یہ بیان آج لاہور کے سب ہی قومی اخبارات کے صفحہ اول پر شائع ہوا ہے۔ کسی ایسے پی آر ٹائپ سیاسی دعوے سے ایک منجھے کالم نگار کے لئے بھی کالم کا موضوع نکالنا محال ہوتا ہے، لیکن اپنی دلچسپی کے موضوع پر یہ بیانیہ خبر پڑھی تو ’’آئین نو‘‘ کا متذکرہ موضوع اسی میں سے برآمدہو گیا۔ معمول کے سے اس بیانیے میں سائیں بزدار کا دعویٰ ہے کہ ’’لاہور کے گردو نواح میں 51 مقامات پر مصنوعی جنگلات بنانے کا پروگرام شروع کردیا ہے‘‘۔ بیان میں یہ دعویٰ بھی کیا گیا ہے کہ ’’لاہور میں 10لاکھ سے زائد درخت لگائے ہیں‘‘۔ گورننس ماڈل میں تبدیلی اور ترقی میں رکاوٹ نہ آنے دینے کے دونوں ہی دعوے بہت خوش کن ہیں۔ سیاسی دعوے عوام کیلئے بہت پرکشش، لیکن پورے نہ ہونے پر اس قدر ہی عوامی مایوسی کا باعث بنتے ہیں۔ لاکھوں کروڑوں گھر او ر ملازمتوں کو تو لٹا خزانہ ملنے، آئی ایم ایف کی شرائط میں جکڑنے اور کوویڈ 19 کا شیلٹر مل گیا، سائیں بزدار کے متذکرہ دعوئوںکیلئے کوئی بہانہ نہ ہوگا، تاہم ’’ترقی میں کوئی رکاوٹ نہ آ نے دینے‘‘ کا عزم قابلِ تحسین ہے۔ یہ دعویٰ خوش کن ہے کہ سائیں بزدار (Sustainable Development)ترقی جاریہ جوتمام ہی ترقی پذیر معاشروں کی حکومتوں کا بڑا محال لیکن بنیادی ہدف ہوتا ہے۔ جہاں تک سائیں بزدار کے گورننس کا ماڈل بدلنے کا دعویٰ ہے ایسا بھی نظر تو نہیں آ رہا۔ ہاں! وزیر اعلیٰ صاحب کا یہ کل کا بیان گورننس کی اپروچ میں مطلوب تبدیلی کا عکاس ضرور ہے۔ اپروچ جب حکومتی حکمت عملی اور نتیجہ خیز اقدامات میں ڈھلنے کا مطلب دعوئوں کی تکمیل اور مطلوب سیاسی کامیابی ہوتی ہے، جس کے بینی فشری سب شہری ہوتے ہیں۔یہ تو تھا وزیر اعلیٰ پنجاب کا خوش گوار دعوؤں سے لیس بیانیہ، خوشی ہے کہ انہوں نے میڈیا کو جاری اس بیانیے میں لاہور کو پیرس بنانے کا مبالغہ آمیز روایتی دعویٰ نہیں کیا۔ لاہور دریائی شہر ہے جو 11صدیوں سے دریائے راوی کے کنارے آباد و شاد ہو کر اپنی تاریخ و سیاست و ثقافت و صحافت، علم و ادب و شاعری اور سرسبزی اور باغبانی کے حوالے سے شہرۂ آفاق ہوا۔ ہوا تو اس پر بڑا ستم اور لاہوریوں پر بڑا ظلم بھی ہوا۔ اس کے گردو نواح میں آم، جامن، امرود، لیموں، بیر، شہتوت، لسوڑے، تربوز، خربوزے کے باغ کے باغ اور کھیت کے کھیت اور گلاب، چنبلی اور گیندے کی فارمنگ کرپشن زدہ گورننس ماڈل کے زور پر شہر کی ماحولیات کو اجاڑ کر سبزی، پھلوں، پھولوں کے بڑے بڑے زرعی قطعات کو اجاڑ کرانہیں کمرشل کردیاگیا۔ ہمارے معاشرتی، اقتصادی (Socio- Economic) ماحول سے متصادم ہائوسنگ اسکیموں کے ’’جنگل‘‘ پھیلا دیئے گئے۔ لاہوری صنعت کار فیملی اتفاق برادرز محنت شاقہ سے لوہا کوٹ کوٹ کرر زق حلال سے گوالمنڈی سے نکل کر ماڈل ٹائون کے ہوئے۔ سیاست میں آئے تو پاکستان کی سب سے زیادہ Social Developed کمیونٹی ماڈل ٹائون کو جزواً خیر باد کہہ دیا اور شہر کے ایک زرعی خطے رائیونڈ میں وسیع و عریض فارم ہائوس بنا کر ’’اک نئے لائف اسٹائل کی تشکیل‘‘ کی۔ اس پر اللہ بخشے قاضی حسین احمد نے احتجاجی مظاہرہ بھی کیا۔ میں نے متذکرہ موضوع پر کالم بھی لکھا، جس کی کاپیاں پلاٹ اڈے کے مظاہرے میں تقسیم ہوئیں۔ شریف برادران کا اقتدار پکاہوگیا تو بڑے مدو جزر آنے کے بعد پھر اقتدار میں آ کر فقط 35-30 کلومیٹر کے پرتعیش سفر کے لئے عین شہر میں کنکریٹ کے ستون کا جنگل پھیلا دیا۔ اسی طرح 27کلومیٹر کے ’’من پسند‘‘ اورنج ٹرین کے منصوبوں کو بلاضرورت اور عوامی مطالبے کے لاہوریوں پر مسلط کرکے ایسے ہی سینکڑوں ستونوں کا ایسا جنگل بنایا جو صدیوں، بدترین گورننس ماڈل کی عبرت ہماری نسلوں کو دلاتا رہیگا۔ لگتا ہے وزیر اعلیٰ 2درختوں کے جنگل لگا کر اس پر شہباز شریف کے وزارت اعلیٰ کے مقابلے پر تل گئے ہیں۔ ن لیگ نے کفارہ ادا کرنا ہے تو انکے لاہور کے گرد جنگلات اور لاہور میں دس لاکھ درختوں کے دعوئوں کی مانیٹرنگ کرے اور عوام کو بتائے کیا ہو رہا ہے۔ الخاموشی نیم رضا مندی ہوگی۔ سائیں بزدار ہوشیار رہیں اور دعوے کے تکمیلی مرحلوں سے عوام کو آگاہ کرتے جائیں۔

تازہ ترین