سرکاری زمینوں، پانی کی گذرگاہوں پر بااثر افراد کے قبضے اس قدر بڑھ چکے ہیں کہ عدالت بھی تجاوزات ختم کرنے کا حکم جاری کرنے پر مجبور ہوگئی ہے۔ لیکن المیہ یہ ہے حکومت اور اس کے ماتحت ادارے انسداد تجاوزات آپریشن کے نام پر چند غریبوں کے چھپرے توڑ کر عدالت کو گمراہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ انتظامیہ کا یہ فعل قانون اور عدلیہ کا مذاق بنانے کے مترادف ہے اور ساتھ ہی تجاوزات کی وجہ سے برپا ہونے والی قدرتی آفات کو بھی دعوت دے رہا ہے۔
زیریں سندھ میں تعلقہ جھڈو، تعلقہ ٹنڈوباگو، تعلقہ کوٹ غلام محمد، تعلقہ ڈگری ، تعلقہ ڈیپلو، تعلقہ سندھڑی وہ علاقے ہیں، جو پچھلے نو سال کے عرصہ میں دو مرتبہ بدترین سیلابی صورتحال کا شکار ہوئے ہیں۔ دونوں مرتبہ ہزاروں مقامی باشندے نقل مکانی پر مجبور اور متعدد افراد بے گھر ہوئے، کروڑوں روپے مالیت کی کھڑی فصلیں تباہ ہوجانے سے ہر قسم کا کاروبار تباہ ہوگیا ہے۔ لیکن حکومت اور سیاسی رہنماؤں اور اراکین اسمبلی نے دونوں مرتبہ صرف فوٹو سیشن کے لیے متاثرہ علاقوں کے دورے کیے۔ ریسکیو اور ریلیف کی سرگرمیاں بھی کمیشن خوری اور اقربا پروری کا ذریعہ بنی رہیں۔
2020میں آنے والے سیلاب کے بعد ایک تبدیلی دیکھی گئی کہ این ڈی ایم اے اور صوبائی حکومت نے سیلاب کی اصل وجوہات تلاش کیں اور ان کے سدباب پر غور شروع ہوا۔ اس غور و خوض کی بناء پر چار ماہ قبل بڑا شور و غوغا برپا تھا کہ بااثر لوگوں نے پران ندی اور پانی کی ہزاروں سال قدیم گذرگاہوں کے پشتوں کو ٹریکٹروں کی مدد سے ہموار کر کے وہاں کھیتی باڑی شروع کر دی ہے، جس کی وجہ سے بارشوں کے دوران برساتی پانی سیلابی ریلے کی صورت میں آبادیوں کا رخ کرلیتا ہے۔ یہ بات بھی سامنے آئی کہ قبضہ مافیا نے آبی گذرگاہوں پر تعمیرات کر کے پانی کا راستہ روک رکھا ہے۔
سانگھڑ سےجھڈو تک "پران" پر اس قدر تجاوزات موجود ہیں کہ اس کی چوڑائی 300 فٹ سے کم ہو کر ظرف30 فٹ رہ گئی ہے اور سیلابی صورتحال میں ہزاروں کیوسک پانی آگے بڑھنے کا راستہ نہ ملنے کی وجہ سے جھڈو، نوکوٹ، ٹنڈوجان محمد، کلوئی، ولی محمد ملکانی، کاچھیلو، کوٹ غلام محمد، سامارو، سندھڑی سمیت ہزاروں دیہات میں تباہی پھیلا دیتا ہے۔
حالیہ سیلاب کو چار ماہ گذر چکے ہیں لیکن اس وقت بھی ٹنڈو جان محمد، کوٹ غلام محمد، سندھڑی سمیت دیگر علاقوں میں سیلابی پانی بھرا ہوا ہے اور ہزاروں ایکڑ زرخیز زمینیں تباہ و برباد اور کاشتکار بےروزگار ہوچکے ہیں۔گذشتہ ہفتہ اسسٹنٹ کمشنر جھڈو کی نگرانی میں تجاوزات کے خاتمے کے لیے آپریشن کیا گیا، جو محض ڈرامہ تھا۔ شہری حلقوں کی جانب سے اس پر تنقید بھی کی گئی لیکن انتظامیہ پر اس کا کوئی اثر نہیں ہوا۔ اس کے بعد محکمہ زراعت کی اراضی پر قائم تجاوزات ختم کرنے کے لئے ایک آپریشن کیا گیا لیکن یہاں بھی حسب سابق صرف دو تجاوزات منہدم کی گئیں۔
جھڈو کے اطراف میں اور پران پر تعمیرات کر کے بیٹھے ہوئے نہایت قبضہ مافیا کے خلاف جمعرات کو عوامی تحریک اور مقامی لوگوں نے سیکڑوں کی تعداد میں جمع ہو کر ریلی نکالی اور پران پر بنی تجاوزات ختم کر کے اس کی اصل حدود "300" فٹ میں بحال کرنے کا مطالبہ کیا گیا۔ ریلی کے شرکاء نے پچھلے دو سیلابوں میں ہونے والے جانی و مالی نقصان کا ذمہ دارالحکومت اور قبضہ مافیا کو قرار دیا اور تجاوزات کے خلاف آپریشن کلین اپ کا مطالبہ رکھتے ہوئے احتجاجی دھرنوں کا عندیہ دیا ہے۔
پاکستان میں برساتوں کا نیا سلسلہ شروع ہونے میں تقریباً پانچ ماہ باقی ہیں اور انتظامیہ کے پاس یہی پانچ ماہ کی مہلت ہے۔ اگر صوبائی حکومت پانی کی قدرتی گذرگاہوں کو تجاوزات سے پاک کرکےآبی گزر گاہیں نہیں کھلواتی تو یہ غفلت کسی بڑے سانحے کا سبب بن سکتی ہے۔