• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مسجدِ نبویؐ ابھی زیرِ تعمیر ہے اور اللہ کے رسولﷺ وہاں امورِ مملکت میں مصروف ہیں۔ ہجرتِ مدینہ کو چند ہی ماہ ہوئے ہیں، بے پناہ مسائل کے علاوہ نومولود مملکتِ اسلامیہ کے استحکام اور مسلمانوں کے تحفّظ کے لیے مؤثر اقدامات آپﷺ کی پہلی ترجیح ہیں۔ اچانک ایک باوقار خاتون اپنے دس سالہ بچّے کے ساتھ بارگاہِ رسالتؐ میں حاضری کی طلب گار ہوتی ہیں اور اجازت ملنے پر آگے آکر عرض کرتی ہیں’’ یا رسول اللہﷺ! یہ میرا لختِ جگر انسؓ ہے۔ 

میری آرزو ہے کہ آپﷺ انھیں اپنی غلامی میں لے لیں اور ان کے لیے دُعا فرمائیں۔‘‘ آپﷺ ایک نظر معصوم انسؓ پر ڈالتے ہیں اور بارگاہِ خداوندی میں دُعا فرماتے ہیں’’ یاالہٰی! اس کے مال و اولاد میں اضافہ اور جو کچھ اسے دے، اُس میں برکت عطا فرما‘‘ (صحیح بخاری، حدیث 6379,6380)۔اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب نبیﷺ کی دُعا کو شرفِ قبولیت بخشا۔ حضرت انسؓ نے ایک سو سال عُمر پائی اور اُن کی اولاد اور پھر اُن کے بچّوں کی تعداد ایک سو سے زاید تھی۔ 

حضرت انسؓ ،والدہ کی ہدایت اور نصیحت کے مطابق حضورﷺ کی خدمت میں رہنے لگے اور پھر حضورﷺ کی زندگی کے آخری لمحات تک ساتھ رہے۔ آپﷺ، اُن سے بہت محبّت فرماتے تھے۔ حضرت انسؓ بیان کرتے ہیں کہ’’ بارہا ایسا ہوا کہ مَیں، حضورﷺ کے کسی کام سے باہر نکلتا، لیکن کھیل کود میں مصروف ہوجاتا، جب کافی دیر بعد گھر واپس آتا، تو حضورﷺ صرف اِتنا فرماتے’’ میرے بیٹے! کہاں رہ گئے تھے؟‘‘ اور مَیں آپﷺ کو سچ سچ بتا دیتا۔ آپؐ تبسّم فرما کر خاموش ہوجاتے۔ خدمت کے اس دس سالہ عرصے میں ایک لمحہ بھی ایسا نہیں آیا کہ جب آپﷺ نے میری سرزنش کی ہو یا کبھی مجھے ڈانٹا ہو۔‘‘

نام ونسب

حضرت انسؓ کی عظیم والدہ کا نام، سہلہ یا رملہ، لقب غمیصاء اور رمیصاء تھا، لیکن اپنی کنیت ،اُمّ ِ سلیم سے معروف ہوئیں۔ ابنِ سعد کے مطابق ان کا سلسلۂ نسب یوں ہے: حضرت اُمّ ِ سلیمؓ بنت ملحان بن خالد بن زید بن حرام بن جندب بن عامر بن غنم بن عدی بن نجار (طبقات ابنِ سعد 117/5)۔ اُن کا انصار کے مشہور و معروف قبیلے، خزرج کی شاخ، بنو عدی بن النجار سے تعلق تھا اور وہ حضورﷺ کے دادا، عبدالمطلب کی والدہ، سلمیٰ بنت زید کی پوتی تھیں۔اس طرح اُمّ ِ سلیمؓ، حضورﷺ کی خالہ ہوئیں۔

مالک بن نضر سے نکاح

حضرت اُمّ ِ سلیمؓ کا پہلا نکاح بنو خزرج کے ایک نوجوان، مالک بن نضر کے ساتھ ہوا، جن سے خادمِ رسولﷺ، حضرت انسؓ پیدا ہوئے۔

قبولِ اسلام

ابھی مدینہ منوّرہ میں اسلام کی کرنیں پوری طرح منوّر بھی نہ ہوئی تھیں کہ اُمّ ِ سلیمؓ نے مشرف بہ اسلام ہو کر انصار کی پہلی مسلم خاتون کا اعزاز حاصل کرلیا۔ اُن کی شدید خواہش تھی کہ شوہر، مالک بن نضر بھی اسلام قبول کرلیں، مگر وہ بار بار کے اصرار کے باوجود اپنے آبائی دین پر قائم رہے۔صرف یہی نہیں، بلکہ اُنھوں نے اسلام کی شدید ترین مخالفت بھی کی۔ انسؓ نے بولنا شروع کیا، تو اُمّ ِ سلیمؓ نے اُنہیں کلمۂ طیّبہ سِکھا دیا۔ 

معصوم انسؓ کا اپنی توتلی زبان میں کلمۂ طیّبہ کا ورد والد کو پسند نہ آیا۔مذہب کے معاملے پر میاں بیوی میں اختلاف تو پہلے ہی تھا، لیکن اب بیٹے کی اسلامی تربیت نے اختلاف کی خلیج مزید گہری کردی۔ چناں چہ، مالک، بیوی بچّے سے ناراض ہو کر شام چلا گیا، جہاں اُسے کسی دشمن نے قتل کردیا۔

ابوطلحہ سے نکاح کی شرط

اللہ تعالیٰ نے حضرت اُمّ ِ سلیمؓ کو صُورت و سیرت کے ساتھ بہت سی صلاحیتوں سے بھی نوازا تھا۔ وہ صبر و استقلال کے ساتھ مضبوط عزائم اور قوّتِ ارادی کی مالک تھیں۔ بیوہ ہونے کے بعد مدینے کے کئی معزّزین اُن سے نکاح کے خواہاں تھے، لیکن اُن کا کہنا تھا کہ’’ جب تک انسؓ بچپن کی حدود پار کرکے فہم و شعور کی منازل طے نہیں کرلیتے، مَیں نکاح نہیں کروں گی۔‘‘چناں چہ جب انسؓ سنِ شعور کو پہنچے، تو اُن کے اپنے قبیلے، بنو خزرج کے ایک نام وَر شخص، زید بن سہل نے نکاح کا پیغام بھیجا، جو ابوطلحہ کے نام سے مشہور تھے۔ 

اُمّ ِ سلیمؓ اُن کی نیک نامی سے تو واقف تھیں، لیکن وہ بُت پرست تھے۔ ابوطلحہ کے بار بار اصرار پر ایک دن اُنھیں بُلا بھیجا۔ جب وہ آگئے، تو بولیں’’ ابو طلحہ! تم اچھی طرح واقف ہو کہ مَیں ایک اللہ کی عبادت کرتی ہوں، جب کہ تم پتھر اور لکڑی کے بے جان بُتوں کو پوجتے ہو۔‘‘ مسند احمد میں ہے کہ اُمّ ِ سلیمؓ نے ابو طلحہ سے کہا’’ تم جانتے ہو کہ تمہارا معبود زمین سے اُگی ہوئی لکڑی کا ہے، جسے انسان نے اپنے ہاتھ سے تخلیق کیا ہے۔‘‘ اُنہوں نے جواب دیا’’ ہاں، ایسا ہی ہے۔‘‘ اُمّ ِ سلیمؓ بولیں’’ پھر اِس حقیقت کو جانتے ہوئے بھی تم بے جان پتھروں اور درختوں کی پوجا کرتے ہو، جو بڑی شرم کی بات ہے۔‘‘ 

اِس گفتگو نے ابو طلحہ کے دل و دماغ میں ہل چل مچا دی اور شعور کے کسی گوشے میں دَبی حق و صداقت کی کرنوں نے باطن منوّر کردیا۔ چند دن کے غور و خوض کے بعد ایک صبح اُنہوں نے اپنے گھر میں بنے بُت خانے کو توڑا اور مشرف بہ اسلام ہوگئے۔ جب حضرت اُمّ ِ سلیمؓ کو اِس کی اطلاع ملی، تو اُنہوں نے نہ صرف یہ کہ اُن سے نکاح کرلیا، بلکہ اِس خوشی میں حق مَہر معاف کرتے ہوئے فرمایا’’ ابو طلحہؓ کا قبولِ اسلام ہی میرا مَہر ہے۔‘‘

غزوات میں شرکت

حضرت اُمّ ِ سلیمؓ بھی دیگر مسلمان خواتین کی طرح مضبوط عزائم، پختہ ارادے اور اعلیٰ اوصاف کی مالک تھیں۔ حضورﷺ کی تربیت نے اُن میں صبر و قناعت، برداشت و درگزر اور دلیری و شجاعت جیسی اعلیٰ صفات پیدا کردی تھیں۔ صحیح مسلم کی حدیث ہے کہ رسول اللہﷺ حضرت اُمّ ِ سلیمؓ اور انصار کی چند خواتین کو غزوات میں اپنے ساتھ رکھا کرتے تھے۔ 

حضرت انسؓ بیان کرتے ہیں کہ مَیں نے اُحد کے دن دیکھا کہ حضرت عائشہؓ اور میری والدہ اُمّ ِ سلیمؓ پانی کی مشکیں اپنی پیٹھ پر لاد کر لاتیں، زخمیوں کے منہ میں پانی ڈال کر پھر جلدی سے لَوٹ جاتیں، پھر بھر کر لاتیں اور پھر پلاتیں‘‘(صحیح بخاری، حدیث 3811)۔

شجاعت و بہادری

حضرت اُمّ ِ سلیمؓ  غزوۂ حنین کے موقعے پر اُمید سے تھیں۔ عبداللہ پیدا ہونے والے تھے۔ جب مکّے کے لوگ میدانِ جنگ سے فرار ہونے لگے، تو وہ ایک تیز دھار خنجر لیے حضورﷺ کے قریب آگئیں۔ آپﷺ نے پوچھا’’ اِس خنجر کا کیا کروگی؟‘‘ تو بڑے جوش سے عرض کیا’’ یارسول اللہﷺ! اگر کوئی کافر آپؐ کے قریب آیا، تو اُس کا پیٹ چاک کردوں گی۔‘‘ حضورؐ نے یہ جواب سُن کر تبسّم فرمایا(صحیح مسلم حدیث 4680)۔

مواخات کا عظیم واقعہ

بھائی چارے سے متعلق تاریخِ انسانی کا نہایت ہی تاب ناک، سبق آموز اور منفرد کارنامہ اُمّ ِ سلیم ہی کے گھر پر انجام پایا۔ حضرت انسؓ بن مالک بیان کرتے ہیں کہ اللہ کے نبیﷺ ہجرت کرکے مدینہ منوّرہ تشریف لائے، تو آپؐ نے انصار و مہاجرین کو میری والدہ کے گھر میں جمع فرمایا اور اُن میں آپس میں بھائی چارہ کروایا، جسے مواخات کے نام سے یاد کیا جاتا ہے ‘‘(صحیح مسلم حدیث 6464)۔

سعادت مند اولاد

حضرت اُمّ ِ سلیمؓ کے پہلے شوہر، مالک بن نضر سے جلیل القدر صحابی، حضرت انسؓ بن مالک پیدا ہوئے، جب کہ دوسرے شوہر، ابو طلحہؓ سے کئی بچّے ہوئے، لیکن بچپن ہی میں وفات پاگئے۔تاہم، بعض کتب کے مطابق، حضرت عبداللہؓ صحابیت کے عظیم منصب پر فائز ہوئے اور اُن کی نسل بھی چلی۔

حکمت و دانائی کا اعلیٰ نمونہ

حضرت انسؓ بن مالک بیان کرتے ہیں کہ’’ میری والدہ اُمّ ِ سلیمؓ کے ہاں ابو طلحہؓ سے ایک بیٹا ہوا، جس سے ہم سب بہت پیار کرتے تھے۔ ایک دن وہ بچّہ فوت ہوگیا۔ والدہ کو بچّے سے اُن کی انسیت کا اندازہ تھا۔ لہٰذا، اُنہوں نے بیٹے کے جسدِ خاکی کو غسل وغیرہ دے کر تیار کیا اور کمرے میں لِٹا کر چادر ڈال دی۔ خود بھی بنائو سنگھار کرکے تیار ہو گئیں۔رات کو جب ابوطلحہؓ گھر واپس لَوٹے، تو اُنہوں نے آتے ہی بچّے کے بارے میں پوچھا، جواب ملا کہ’’ آرام و سکون میں ہے۔‘‘ 

اِس پر وہ مطمئن ہوگئے۔ کھانا وغیرہ کھا کر فارغ ہوئے اور بستر پر سونے لیٹے، تو صابر و شاکر اہلیہ نے ایک عجیب سا سوال کردیا’’ بولیں، اگر کوئی آپ کے پاس اپنی امانت رکھوائے اور کچھ دن بعد واپس مانگے، تو کیا کریں گے؟‘‘ ابو طلحہؓ نے جواب دیا’’ اُسے فوراً واپس کردینا چاہیے۔‘‘ بولیں’’ اللہ نے ہمیں جو بچّہ دیا تھا، وہ ہم سے واپس لے لیا ہے۔‘‘ ابوطلحہؓ نے بچّے کی تدفین کی اور خدمتِ اقدسؐ میں حاضر ہو کر اکلوتے بیٹے کی وفات کا بتایا۔ رسول اللہﷺ نے دُعا فرمائی کہ’’ اللہ بہت جلد تمھیں اولاد عطا فرمائے گا۔‘‘ چناں چہ عبداللہ پیدا ہوئے، تو والد اُنھیں حضورﷺ کی خدمت میں لے گئے۔ آپؐ نے عجوہ کھجور چبا کر بچّے کے منہ میں ڈالی، تو وہ اُسے چوسنے لگا۔ آپؐ نے فرمایا’’ دیکھو! انصار کو کھجور سے کیسی محبّت ہے‘‘ (صحیح مسلم 6322)۔

ازواجِ مطہراتؓ سے خصوصی تعلق

رسول اللہﷺ نے 5 ہجری میں حضرت زینبؓ بنت جحش سے نکاح فرمایا، تو ولیمے والے دن حضرت اُمّ ِ سلیمؓ نے ایک برتن میں بہت سا ملیدہ بنا کر حضرت انسؓ کے ہاتھ حضورﷺ کی خدمت میں بھیجا اور کہا کہ ’’حضورﷺ سے عرض کرنا کہ اِس ہدیے کو قبول فرمالیں۔‘‘ 7جری میں غزوۂ خیبر کے بعد جب نبی کریمﷺ نے حضرت صفیہؓ سے نکاح فرمایا، تو اُمّ ِ سلیمؓ ہی نے اُنہیں اپنے گھر میں دلہن بنا کر تیار کیا تھا (صحیح بخاری حدیث 371)۔حضرت انسؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ جب ہمارے مکان پر تشریف لاتے، تو ہماری والدہ آپﷺکے لیے چمڑے کا فرش بچھا دیتیں، جس پر آپؐ قیلولہ فرماتے۔ جب بیدار ہوتے، تو میری والدہ ،حضورﷺ کا پسینہ اور جَھڑے ہوئے بال ایک شیشی میں جمع کرلیا کرتیں‘‘ (صحیح بخاری حدیث 6281)۔

نبی کریمﷺ کا معجزہ

صحیح بخاری میں حضرت انسؓ سے مروی ایک واقعہ تحریر ہے۔ فرماتے ہیں’’ ایک دن ابوطلحہؓ نے اپنی اہلیہ، اُمّ ِ سلیمؓ سے کہا’’ آج حضورﷺ کی آواز میں ضعف و نقاہت تھی، معلوم ہوتا ہے کہ آپﷺ فاقے سے ہیں۔ اگر کچھ ہے، تو کھانے کو بھیج دو۔‘‘ والدہ نے چند روٹیاں لپیٹ کر میرے کپڑے کے نیچے چُھپا دیں اور مجھے رسول اللہﷺ کی خدمت میں بھیج دیا۔ اُس وقت مسجدِ نبویؐ میں آپﷺ کے ساتھ صحابۂ کرامؓ بھی موجود تھے۔ مَیں سامنے جاکر کھڑا ہوگیا۔ حضورﷺ نے مجھے دیکھ کر فرمایا’’ انسؓ! تمہیں ابو طلحہؓ نے روٹیاں دے کر بھیجا ہوگا؟‘‘ مَیں نے عرض کیا’’ جی ہاں۔‘‘ آپﷺ نے سب صحابہؓ سے فرمایا’’ چلو، ابو طلحہؓ کے گھر چلتے ہیں۔‘‘ اُس وقت تقریباً80 صحابۂ کرامؓ موجود تھے۔

آپؐ سب کو لے کر ہمارے گھر آئے۔ ابو طلحہؓ گھبرا کر اُمّ ِ سلیمؓ سے بولے کہ’’ ہمارے پاس تو اِن چند روٹیوں کے علاوہ اور کچھ بھی نہیں۔‘‘ حضورﷺ گھر میں داخل ہوئے اور فرمایا’’ اُمّ ِ سلیمؓ جو کچھ گھر میں حاضر ہے، لے آئو۔‘‘ میرے پاس جو روٹیاں تھیں، والدہ نے وہ خدمتِ اقدسؐ میں پیش کردیں۔ حضورﷺ نے فرمایا’’ اس کا چورا کرلو۔‘‘ پھر والدہ نے اس پر گھی ڈال کر ملیدہ بنادیا۔ رسول اللہﷺ نے دُعا فرمائی اور ارشاد فرمایا’’ اب دس، دس افراد کو کھانے پر بُلالو۔‘‘یوں صحابۂ کرامؓ آتے رہے اور خُوب شکم سیر ہو کر کھانا کھاتے رہے، یہاں تک کہ تمام 80 صحابہؓ نے پیٹ بھر کر کھانا کھالیا‘‘(صحیح بخاری حدیث 5381)۔ امام بخاریؒ لکھتے ہیں’’ اُمّ ِ سلیمؓ کو یقین تھا کہ نبی کریمﷺ دُعا فرمائیں گے اور اللہ کھانے میں برکت عطا فرما دے گا۔‘‘

فضائل و مناقب

رسول اللہﷺ، ازواجِ مطہراتؓ کے علاوہ کسی عورت کے گھر نہیں جاتے تھے، سوائے حضرت انس کی والدہ، اُمّ ِ سلیمؓ کے۔ آپﷺ فرماتے تھے کہ مجھے ان پر بہت رحم آتا ہے، کیوں کہ اُن کے بھائی نے میرے ساتھ رہ کر غزوے کے دَوران شہادت پائی (صحیح مسلم حدیث 6391)۔حضرت انسؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا کہ’’جب مَیں جنّت میں گیا، تو وہاں آہٹ(کسی کے چلنے کی آواز) پائی، تو پوچھا’’ یہ کون ہے؟‘‘ فرشوں نے جواب دیا کہ’’ یہ غمیصاء بنت ملحان (اُمّ ِ سلیم) ہیں۔ انسؓ بن مالک کی والدہ ماجدہ ‘‘(صحیح مسلم حدیث 6320)۔

وفات

حضرت اُمّ ِ سلیم کی وفات کا سال اور مہینہ معلوم نہیں، لیکن قیاس یہی ہے کہ اُنھوں نے خلافتِ راشدہ کے شروع میں وفات پائی۔

تازہ ترین