• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
بولٹن کی ڈائری۔۔ابرار حسین
لائن آف کنٹرول پر پاکستان اور بھارت کے درمیان فائر بندی کو بیرون ملک آباد پاکستانی اور کشمیری ایک خوش آئند اقدام سمجھتے ہیں اور آج یہی موضوع برطانیہ کے ہر چھوٹے بڑے شہر میں بسنے والے پاکستان اور آزاد کشمیر کے اہل بصیرت افراد میں زیر بحث ہے۔ بھارت اور پاکستان نے ایک مشترکہ اعلامیے میں جو یہ کہا ہے کہ دونوں ممالک نے 25 فروری سے تمام معاہدوں کے تحت لائن آف کنٹرول سمیت تمام سیکٹرز میں فائر بندی کو برقرار رکھنے پر جو اتفاق کیا ہے اس اعلامیہ کو ایک بڑے بریک تھرو سے تعبیر کیا جارہا ہے۔ پاکستانی اور کشمیری قوم بجاطور پر یہ سمجھتی ہے کہ کشمیر کا مسئلہ بالآخر مذاکرات کی میز پر ہی حل ہونا ہے اور مذاکرات تب شروع ہوںگے جب دونوں جانب ایک خوشگوار فضا قائم ہوگی۔ کشمیر کے علاوہ بھی تمام تر تنازعات جنہوں نے دونوں ممالک کو ایک دوسرے سے دور کر رکھا ہے اس سلسلے میں بھی دورافق پر ایک دھندلا سا منظرنامہ جو ابھرتا ہوا محسوس ہو رہا ہے اس کا حل بھی آخر کار مذاکرات اور باہمی گفت و شنید سے ہی نکلے گا ۔ہمیں یقین ہے کہ جنوبی ایشیاء کے خطے میں امن قائم کرنے کی جانب ہر کوشش کو دنیا بھر کی امن پسند اقوام اس کی یقینی طور پر حمایت کریں گی اور بالخصوص اس خطے میں جوہری قوت سے لیس دو پڑوسیوں کا ہر وقت جنگ کی صورتحال کیلئے تیار رہنا کوئی احسن اقدام نہیں سمجھا جاتا اس تناظر میں جنگ بندی کے دو طرفہ معاہدے کی پاسداری کرنے کےاعلان کا امریکہ کی جانب سے بھی خیرمقدم کرتے ہوئے اسے جنوبی ایشیاء کے امن و استحکام کیلئے ایک مثبت قدم قرار دیا گیا ہے اور پھر عالمی سپریم پاور امریکہ نے واضع طور پر کہا ہے کہ وہ مسئلہ کشمیر اور دیگر معاملات پر بھارت اور پاکستان کے درمیان براہ راست بات چیت کی حمایت کرتا ہے جبکہ عالمی ادارہ اقوام متحدہ نے لائن آف کنٹرول پر 2003ء کے فائر بندی معاہدے کے تحت امن برقرار رکھنے کے اقدام کو مثبت قرار دیتے ہوئے اس امید کا اظہار کیا ہے کہ اس کے نتیجے میں بھارت اور پاکستان کے درمیان بات چیت کی راہ ہموار ہوگی اور موجودہ تنائو کی فضا کو بہتر بنانے میں مدد ملے گی۔ برطانوی کشمیری پاکستانی یہ امید بھی رکھتے ہیں کہ امریکہ میں جو صدارت کی تبدیلی عمل میں آئی ہے اس سے پاکستان اور بھارت کے درمیان کشمیر کے دیرینہ تنازع کے پرامن حل میں بھرپور مدد ملے گی۔ کشمیری کمیونٹی یہ بھی باور کرانے کی کوشش کررہی ہے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان پائیدار اور مستقل امن تب قائم ہوسکتا ہے جب سب سے پرانے حل طلب کشمیر کے مسئلے کو کشمیریوں کی اکثریت کی مرضی و منشا کے مطابق حل کردیا جائے۔ یہاں یہ بات بھی واضع کردی جائے کہ آزاد کشمیر ،گلگت و بلتستان اور وادی کشمیر کے عوام کی قابل ذکر اکثریت کی طرح برطانیہ کے اندر جو کشمیری آباد ہیں ان کی بھی قابل ذکر تعداد ریاست جموں و کشمیر کے پاکستان کے ساتھ الحاق کی حمایتی ہے جس کا بین ثبوت کشمیری کمیونٹی کا پاکستان کی سیاسی جماعتوں میں شمولیت ہی نہیں بلکہ اکثرو بیشتر برطانیہ میں پاکستانی سیاسی جماعتوں کو چلانے والے ہی کشمیری کمیونٹی سے متعلق ہیں اور موجودہ بدلتے تناظر میں ان کی یہ بھی خواہش ہے کہ پاکستان کی موجودہ حکومت اور اپوزیشن قومی معاملات پر متفقہ موقف اختیار کریں اور عالمی برادری کے ذریعے بھارت پر دبائو بڑھایا جائے کہ وہ کشمیر میں رائے شماری کرائے تاکہ وہ موقع کا استعمال کرکے مملکت پاکستان کے ساتھ شمولیت کا فیصلہ کرسکیں تاکہ بانیان ریاست کا وعدہ ایفا ہوسکے۔ برطانیہ کے کشمیری باشندوں کا یہ عزم صمیم ہے کہ جب تک کشمیر کے عوام کو حق خودارادیت نہیں مل جاتا وہ اپنی جدوجہد ہر حال میں جاری و ساری رکھیں گے ہم اس اہم بریک تھرو کے موقع پر بیرون ملک آباد کمیونٹی پر یہ زور دینا چاہیں گے کہ وہ اپنے اپنے علاقوں کے ممبران پارلیمنٹ سے رابطے کرکے ان پر زور دیں کہ وہ جہاں پاکستان اور بھارت کے درمیان امن کی بحالی کی کوششوں کا خیرمقدم کرتے ہیں وہاں وہ کسی بھی ممکنہ مذاکرات کے عمل میں کشمیر کے مسئلے کے ترجیح اور پرامن حل کی ضرورت کو اجاگر کریں۔
تازہ ترین