• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وزیراعظم نے قومی اسمبلی سے اعتماد کا ووٹ حاصل کرکے سینیٹ کی نشست پر حکومتی شکست کے بعد وزارتِ عظمیٰ کے منصب پر اپنی پوزیشن کے حوالے سے ظاہر کیے جانے والے شکوک وشبہات کا دروازہ بظاہر بند کردیا ہے۔ تاہم اپوزیشن کی جانب سے اس پورے عمل کو خلافِ آئین اور دھونس دھمکی کا نتیجہ قرار دے کر مسترد کردیے جانے نیز اُن سولہ ارکان سمیت جنہوں نے وزیراعظم کے بقول سینیٹ کے الیکشن میں پیسے لے کر اپوزیشن کے امیدوار کو ووٹ دیا تھا، اپنی پارٹی اور اتحادی جماعتوں کی حمایت حاصل کرنے کے بعد ان کی تقریر میں اپوزیشن رہنماؤں پر کی گئی جارحانہ تنقید کی بناء پر سیاسی گرما گرمی میں مزید شدت کا رونما ہونا یقینی ہے۔ وزیراعظم نے سینیٹ کی نشست جیتنے والے سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کو دنیا کا کرپٹ ترین شخص، پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن کو دو نمبر آدمی، سابق صدر آصف زرداری کو مسٹر ٹین پرسنٹ اور تین بار وزیراعظم رہنے والے نواز شریف کو ملک لوٹنے کے بعد باہر بھاگ جانے والا ڈاکو قرار دیا۔ بعض مبصرین کے مطابق اسپیکر کا فرض تھا کہ ان ’’غیر پارلیمانی‘‘ الفاظ کو کارروائی سے حذف کرا دیتے۔ سینیٹ کے انتخابات کے حوالے سے الیکشن کمیشن کو بھی اس کی وضاحت کے باوجود وزیراعظم نے ایک بار پھر اپنی نکتہ چینی کا ہدف بنایا۔ دوسری جانب پی ڈی ایم کے رہنماؤں نے اپنے بیانات میں الزام لگایا کہ اعتماد کا ووٹ گن پوائنٹ پر لیا گیا اور ووٹروں کی ایجنسیوں سے نگرانی کرائی گئی ہے جبکہ ضمنی انتخابات میں چاروں صوبوں کے عوام وزیراعظم کے خلاف عدم اعتماد کا کھلا اظہار کر چکے ہیں۔ پارلیمنٹ ہاؤس کے باہر مسلم لیگ (ن) کے رہنماؤں کی پریس کانفرنس کے موقع پر عدم برداشت اور بدتہذیبی کا نہایت افسوسناک مظاہرہ تحریک انصاف کے کارکنوں کی نعرے بازی، جوتے اچھالے جانے اور پھر باقاعدہ دھینگا مشتی کی شکل میں ہوا۔ ٹی وی اسکرینوں کے توسط سے یہ مناظر دنیا بھرکے ناظرین تک پہنچے اور قومی رسوائی کا سبب بنے۔ ہمارے سیاسی کلچر سے تہذیب و شائستگی حالیہ برسوں میں جس تیزی سے رخصت ہوئی ہے اور بدزبانی اور گالم وگلوچ نے جس سرعت سے اس کی جگہ لی ہے، اس کاجلداز جلد ازالہ نہ ہو ا تو روز افزوں انتشار و افتراق ہمارے قومی وجود کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچانے کا سبب بن کر رہے گا۔ ملک و قوم سے محبت کا تقاضا ہے کہ حکومت اور اپوزیشن دونوں باہمی تعاون سے اس صورت حال میں مثبت تبدیلی کی خاطر لائحہ عمل وضع کریں اور پوری نیک نیتی کے ساتھ اس پر عمل در آمد کا اہتمام کریں۔ ہماری سیاسی جماعتوں میں بیشتر اختلافات احتسابی اور انتخابی عمل کے نقائص کی وجہ سے ہیں۔ سیاسی قائدین اکثر ان ہی حوالوں سے ایک دوسرے پر الزامات عائد کرتے ہیں اور پھر یہ جھگڑے کارکنوں کی سطح تک پہنچ کر مزید بدنما ہوجاتے ہیں۔ ان دونوں معاملات کو مکمل طور پر شفاف، منصفانہ، غیرجانبدارانہ اور ہر قسم کی مداخلت سے آزاد کردیا جائے تو اختلاف کی بنیادی وجوہات ہی ختم ہو جائیں گی اور معیشت سمیت تمام شعبہ ہائے زندگی میں بہتری لانے کی کوششوں کو مؤثر بنانے کیلئے سازگار حالات میسر آئیں گے۔ وزیراعظم اعتماد کا ووٹ لینے کے بعد اپوزیشن کی جانب سے تحریکِ عدم اعتماد کے کسی فوری خطرے محفوظ ہو گئے ہیں۔ کیا ہی اچھا ہو کہ وہ اس موقع کو احتسابی اور انتخابی عمل کو قابلِ اعتبار بنانے کیلئے استعمال کریں۔ شفاف انتخابی عمل سے متعلق بعض اقدامات کا انہوں نے اپنے خطاب میں ذکر کیا بھی ہے۔ پارلیمنٹ میں زیر غور لاکر ان تجاویز کو حتمی شکل دی جانی چاہئے جبکہ احتسابی عمل پر قوم کا اعتماد بحال کرنے کے لئے فارن فنڈنگ سمیت حکومت اور اس کے وابستگان سے متعلق تمام مقدمات کو ترجیحی بنیادوں پر منطقی انجام تک پہنچانے میں مکمل تعاون کا عملی مظاہرہ ضروری ہے۔

تازہ ترین