• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
میں ان لوگوں میں سے ہوں جو پاکستان کے مستقبل سے کبھی مایوس نہیں ہوئے، ہر وقت مایوسی پھیلانے والے میرے دوست میری امید بھری باتوں کو میری خوش فہمی گردانتے بلکہ یہ بھی کہتے کہ تم حقائق سے آنکھیں چراتے ہو۔ الحمدللہ کچھ عرصے سے قوم کو بری خبروں کے ساتھ جو اچھی خبریں ملنا شروع ہوئی تھیں، آج اچھی خبروں کی شرح پہلے سے کہیں زیادہ ہو چکی ہے۔ ہمیں ایک طرف جہاں لوڈشیڈنگ، دہشت گردی اور اس کے نتیجے میں معاشی بدحالی کے خوفناک چیلنج کا سامنا تھا، وہاں سول سوسائٹی بھی آہستہ آہستہ بیدار ہو رہی تھی۔ عدلیہ نے بھی اپنا پرانا لبادہ نوچ ڈالا تھا اور آزاد میڈیا ہی عوامی امنگوں کا ترجمان بن چکا تھا۔ پاکستان میں پہلی مرتبہ اکابر مجرمین پر ہاتھ ڈالا گیا اور ان کی طاقت، دولت اور نخوت ان کے کسی کام نہ آئی۔ اسی طرح قومی اسمبلی میں بھی بعض بہت اہم بل پائے ہوئے اور آئین کی شکل پہلے سے بہتر ہوتی چلی گئی۔ سب سے بڑی بات یہ کہ پاکستان میں پہلی بار عوام کی منتخب کسی حکومت نے اپنے پانچ سال پورے کئے۔
تاہم سب سے مشکل مسئلہ نئے انتخابات کا تھا، کچھ قوتیں انتخابات ملتوی کرانے کے درپے تھیں اور اس کی جگہ ٹیکنو کریٹس کی حکومت قائم کرنے کے لئے کوشاں تھی۔ اس کے لئے عوامی ذہن تیار کرنا ضروری تھا چنانچہ بہت سے دوسرے اقدامات کے علاوہ نجومیوں اور کچھ ”اللہ والوں“ کی پیش گوئیوں سے بھی کام لیا گیا۔ یہ ”اللہ والے“ کئی سال پہلے کہنا شروع ہو گئے تھے کہ انہیں ایسے غیر سیاسی لوگوں کی حکومت بنتی نظر آ رہی ہے جو ملک کی تقدیر سنبھال لے گی۔ یہ ”اللہ والے“ بتاتے تھے کہ اولیاء اللہ کی ”میٹنگ“ میں یہ سب معاملات طے ہو چکے ہیں ”فائل“ فلاں پہ فلاں صحابہ کرام کے دستخط ہو چکے ہیں، بس آخری منظوری کا انتظار ہے، لیکن الحمدللہ ایسا کچھ بھی نہیں ہوا۔ انتخابات کی تیاری شروع ہوئی تو شیخ الاسلام علامہ ڈاکٹر طاہر القادری کینیڈا سے تشریف لائے اور اعلان کیا کہ ”یہ شادی نہیں ہو سکتی“ لیکن ”شادی“ کی تیاریاں جاری رہیں اور شیخ الاسلام اپنے کنٹینر اور ان کے پیرکار شدید سردی میں کھلے آسمان کے نیچے دھرنا دیتے رہے۔ اس کے بعد ایک دن شیخ الاسلام نے مبارک ہو، مبارک ہو کے شورسے آسمان سر پر اٹھا لیا اور کہا ان کا آدھا مطالبہ پورا ہو گیا ہے مگر افسوس حضرت پر اپنے نئے وطن کینیڈا سدھار چکے ہیں اور وہاں کسی گوشے میں اپنی حسرتوں پر آنسو بہاتے نظر آتے ہوں گے!
ان ساری رکاوٹوں اور دہشت گردوں کی خوفناک دھمکیوں کے باوجود پاکستانی عوام بہت بڑی تعداد میں اپنے گھروں سے نکلے اور اپنی پسندیدہ جماعت پر مہر لگا کر گھروں کو لوٹ گئے۔ مسلم لیگ ن بھاری اکثریت کے ساتھ مرکز میں کامیاب ہوئی ہے، پنجاب میں تو اس نے مقبولیت کے سارے ریکارڈ توڑ دیئے ہیں، بلوچستان میں بھی اس جماعت کو اکثریت حاصل ہوئی ہے اور کے پی کے میں بھی یہ اس پوزیشن میں ہے کہ دوسری جماعتوں کے ساتھ مل کر اپنی حکومت بنا سکے۔
لیکن میں بہت خوش ہوں کہ مسلم لیگ ن کے قائد میاں محمد نواز شریف نے اپنے وعدے کے مطابق واقعی اقتدار پر اقدار کو ترجیح دی ہے، کے پی کے میں انہوں نے مولانا فضل الرحمن کی ”اُشکل“ کے باوجود یہ اعلان کیا کہ وہاں حکومت سازی کا حق تحریک انصاف کو ہے، لہٰذا ان کا حق انہی کو ملنا چاہئے تاہم میاں صاحب کے جس اقدام نے پوری پاکستانی عوام کے دل جیت لئے ہیں اور ایک بار پھر اپنے ”لیڈران پاکستان“ ہونے پر مہر تصدیق ثبت کی ہے۔ وہ یہ کہ اکثریت کے باوجود نہ صرف یہ کہ انہوں نے وہاں اپنی حکومت نہ بنانے کا اعلان کیا بلکہ بلوچستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ کسی سردار یا نواب کی بجائے ایک مڈل کلاسی ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کو بطور وزیراعلیٰ نامزد کر دیا۔ اس طرح گورنر بھی اپنی پارٹی سے نہیں بلکہ گورنری کا تاج بھی محمود خان اچکزئی کو پہنا دیا۔ مجھے بہت خوشی ہوئی جب ایک ٹاک شو میں تحریک انصاف کے رہنما شاہ محمود قریشی نے میاں صاحب کے اس اقدام کو بھرپور طور پر سراہا۔ خدا کرے قومی معاملات میں تمام جماعتیں جماعتی مفاد کی بجائے قومی مفاد کو مدنظر رکھنے کی عادت مستقل طور پر اپنا لیں!
آج میاں نواز شریف ایوان صدر اسلام آباد میں وزارت عظمیٰ کا حلف اٹھا رہے ہوں گے۔ اس موقع پر انہیں ان کی ذمہ داریوں کا احساس دلانے کی کوئی ضرورت نہیں کیونکہ یہ احساس ان کے دل میں پہلے سے ہی بہت قوی ہے۔ وہ ایک ”نیا پاکستان“ بنانا چاہتے ہیں۔ ایک ایسا پاکستان جس کے لئے ہمارے بزرگوں نے بے پناہ قربانیاں دی تھیں، وہ اس ضمن میں بہت پرعزم ہیں، اللہ کرے وہ اپنے پانچ سال پورے کریں، ان کی پالیسیوں میں کوئی اندرونی مداخلت نہ ہو، انہیں فری ہینڈ ملنا چاہئے، تاہم مجھے لگتا ہے کہ میاں صاحب کا اصل مقابلہ کسی سیاسی جماعت یا کسی غیر سیاسی قوت سے نہیں، بلکہ میڈیا سے ہو گا۔ میڈیا نے اگر مثبت کردار ادا کرتے ہوئے حکومت کو اس کی غلطیوں پر ٹوکا اور اچھے کاموں کی تحسین کی تو یہ رویہ ملک کے لئے بہت بڑی خوشخبریاں لانے کا باعث بنے گا اور اگر تنقید برائے تنقید کا ر ویہ اختیار کیا گیا تو یہ ملک کے باقی عوام کے علاوہ خود میڈیا پرسنز کے لئے بھی اچھا نہیں ہو گا کیونکہ ترقی کے راستے میں رکاوٹیں ڈالنے سے ہم سب کی اولادیں متاثر ہوں گی کہ اب ہم سب کا جینا مرنا پاکستان کے ساتھ ہے۔ میری دعا ہے کہ میاں نواز شریف پاکستانی قوم کے لئے وہ مسیحا ثابت ہوں جو اس کے سارے دلدر دور کر دے، تاہم بہتر ہو گا اگر اس ضمن میں خود میاں صاحب کی رائے بھی لے لی جائے تو میاں صاحب! کیا آپ پاکستان کے صرف حکمران بننا چاہیں گے یا پاکستانی قوم کے لئے مسیحا پسند کریں گے؟ فیصلہ آپ کے ہاتھ میں ہے مگر یاد رکھیں ”تخت“ سے اترنے کے بعد حکمران نشان عبرت بنے نظر آتے ہیں اور مسیحا نشان منزل کے طور پر یاد رکھے جاتے ہیں۔
تازہ ترین