• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عارف الحق عارف ، روز ویل، کیلی فورنیا، امریکا

پروفیسر ڈاکٹر شکیل الرحمٰن فاروقی کے انتقال سے شہرِ کراچی سوگوار ہےکہ ان کے جانے سے ہم ایک بہترین اُستاد، صاحبِ طرز ادیب وشاعر ، شعلہ بیاں مقرّر، دقیقہ رس محقّق،ادبی و شعری محفلوں اور سماجی تقریبات کی رونق سے محروم ہو گئے ہیں۔اگر چہ پروفیسرڈاکٹر شکیل فاروقی سے ہماری کوئی ملاقات نہیں ،وہ صرف ہمارے فیس بُک فرینڈ تھے ، مگرقریباً چار ماہ قبل جب پہلی بار ان سے فیس بُک کے ذریعے بات چیت ہوئی تو بالکل ایسا لگا جیسے ہم ایک دوسرے کو برسوں سے جانتے ہیں۔ 

ہم نے ان سے کہا کہ’’ آپ سے ’’فیس بکی ‘‘تعارف تو ہے اور اس سے ہمیں آپ کی ادبی، شعری، تدریسی،سماجی، تقریری اور ملاقاتی سرگرمیوں کے بارے میں کافی معلومات حاصل ہو گئی ہیں ، مگر افسوس اس بات کا ہے کہ اس قدر صلاحیتوں کی حامل ، قابلِ رشک شخصیت پہلےہمارے حلقۂ احباب میں شامل کیوں نہ ہوئی ؟ اور 2012ءتک کراچی میں موجودگی کے باوجود ہماری آپ سے ملاقات نہ ہو سکی ؟ ‘‘ تو وہ بہت ہنسے اور کہنے لگے کہ ’’شاید آپ کو یاد نہیں، ہم تو زمانۂ طالب علمی اور اس کے بعد بھی کئی بارآپ سے مِل چُکے ہیں اور ہم تو آپ کو اپنے بچپن سے جانتے ، آپ کی تحریریں اور خبریں پڑھتے رہے ہیں۔‘‘ شکیل فاروقی نے اپنی مختصر سی زندگی میں طالبِ علمی کے زمانے ہی سے اپنے حُسنِ اخلاق اور خداداد ذہانت و محنت سے تعلیمی، تقریری مقابلے جیتنے کے ساتھ طلبہ یونین کے جنرل سیکریٹری اور صدر کے انتخابات بھی جیتے۔ اسی طرح جب درس و تدریس سے وابستہ ہوئے تو طلبہ اور اساتذہ میں بھی خُوب مقبولیت حاصل کی۔

وہ طلبہ، اساتذہ، کراچی کی سیاسی،ادبی ، سماجی شخصیات اور سوشل میڈیا کے حلقوں میں یک ساں طور پر جانے ، پہچانے جاتے تھے ۔ قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ اُن سے وابستہ ہر شخص، ہر حلقہ یہی دعویٰ کرتا کہ ’’شکیل فاروقی ہمارے لیڈر اور ترجمان ہیں۔‘‘ ان کے اچانک انتقال کی خبر پر کراچی کے شہریوں کے ہر طبقۂ خیال نے جس قدر افسوس اور صدمے کا اظہار کیا ، ٹیلی ویژن ، اخبارات اور بالخصوص سوشل میڈیا پر ان کے بارے میں جس قدر لکھا جارہا ہے، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ اپنی ان خداداد صلاحیتوں، ذاتی صفات، حسنِ اخلاق اور مثبت سرگرمیوں کی وجہ سےہر دل پر راج کرتے تھے۔ 

خیر، شکیل فاروقی سے ہماری فیس بُک پر بات چیت کے بعد تو جیسے باتوں کا سلسلہ ہی چل نکلا تھااور وقفے وقفے سے گفتگو ہو تی رہتی۔ اسی دوران ہم پر یہ حیران کُن انکشاف بھی ہوا کہ وہ تو ہمارے بہت ہی گہرے اور بھائیوں جیسا خیال رکھنے والے بلدیہ کراچی کے سابق ڈائریکٹر اطلاعاتِ عامّہ، سیف الرحمٰن گرامی مرحوم کے چھوٹے بھائی ہیں ،تو اُن کے لیےہماری محبّت میں مزید اضافہ ہوگیا۔ جب ایک بار ہم نے پوچھا کہ’’ وہ گرامی اور آپ فاروقی کیسے ہیں ؟ ‘‘تو انہوں نے پروفیسرانہ انداز میں اس کی بڑی دل چسپ وضاحت کی۔

جب شکیل فاروقی کےاسپتال میں داخلے کی خبر سوشل میڈیا پر آئی، تو جیسے اُن کی فیس بُک وال نیک تمنّاؤں اور دُعاؤں سے بھر ہی گئی۔ واقعی ایسے انسان صدیوں میں پیدا ہوتے ہیں، جو اپنے اساتذہ، طلبہ اور ساتھیوں میں یک ساں مقبول اور ہر دل عزیز ہوں، جامعۂ کراچی سے تعلق رکھنے والا شاید ہی کوئی انسان ہو ، جس نے اُن کی صحت یابی کے لیے دُعا نہ کی ہو یا شکیل کے انتقال پر اس کی آنکھ نہ بھیگی ہو۔ 

شکیل الرحمٰن فاروقی پر ان کے شاگردوں اور ساتھیوں کی جانب سے اب تک جو کچھ لکھا جا چُکا ہے، وہ ان کی منکسر المزاجی ، اعلیٰ ظرفی اور بہترین شخصیت ہونے کا ثبوت ہے۔ وہ اسلامی نظریات پر سختی سے عمل پیرا ہونے کے با وجود اپنے بد ترین مخالفین کے ساتھ بھی اِخلاص اور ہم دردی کارویّہ ررکھتے اور بلا امتیاز سب کو ساتھ لے کر چلنے پر یقین رکھتے تھے۔

اس کی ایک واضح مثال اُن کے ایک تحریکی دوست اورحال ہی میں چیف کمشنر ،ایف بی آر کے عُہدے سے ریٹائر ہونے والے ایّاز محمود کے یہ الفاظ ہیں کہ ’’ جمعیت کی روایت رہی ہے کہ (جامعہ کراچی میں ) کام یابی کا اظہار جشن کے بجائے’’ یومِ تشکّر ‘‘منا کے کیا جاتا ہے۔1984ء میں صدر کا انتخاب جیتنے کے اگلے روز یومِ تشکّر منایا گیا، جس میں نو منتخب صدر ، شکیل الرحمٰن فاروقی نے طلبہ کے ایک بڑے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئےجو تقریر کی ،اُس کا لبّ ِ لباب کچھ یوں تھا ’’ہماری فتح اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم کے بعد آپ لوگوں کے ووٹس کی مرہونِ منت ہے۔ 

لہٰذا اس مبارک باد کے اصل مستحق آپ لوگ ہیں، جس کے لیے مَیںآپ کا تہہ دل سےشکر گزار ہوں۔‘‘پھر اس کے بعد انہوں نے وہ بات کی، جو ان کی وسیع القلبی اور فکر و نظر کی کشادگی ظاہر کرتی ہے۔انہوں نے خاص طور پر طالبات کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’’مجھے انجمنِ طلبہ کا صدر منتخب کیا گیا ہے، اس لیے مجھے کسی ایک طلبہ تنظیم کا صدر نہ سمجھا جائے۔ سبز دوپٹّا اوڑھے مجھے ووٹ ڈالنے والی وہ بہنیں، جو یہاں موجود ہیں اور سُرخ دوپٹا اوڑھنے والی وہ بہنیں، جو یہاں موجود نہیںہیں، مَیں دونوں میں کوئی تفریق نہیں رکھتا، سب میرے لیے انتہائی قابلِ احترام اورمیری بہنیں ہیں۔ آپ میں سے کسی کو کبھی بھی کوئی شکایت ہو تو بلا جھجھک میرے پاس آسکتی ہیں۔‘‘

پروفیسرڈاکٹر شکیل الرحمٰن فاروقی20جون 1960ء کو حیدر آباد میں پیدا ہوئےتھے۔ وہیں سے 1975ء میں میٹرک کیا اور کراچی منتقل ہوگئے۔ بعد ازاں، پروفیسر حسن عادل کے نیشنل کالج سے انٹر اور کراچی یونی وَرسٹی سے نباتیات میں بی ایس سی کیا اور طلائی تمغہ جیتا، جب کہ 1984ء میں شماریات میں ڈپلوما اور 1986ء میں جینیات میں ایم ایس سی کی ڈگری حاصل کی۔ 1994ء میں کراچی یونی وَرسٹی میں ملازمت کے دوران اسکالرشِپ پر امریکا کی کینساس یونی وَرسٹی سے پی ایچ ڈی کیا۔کراچی یونی وَرسٹی میں زمانۂ طالب علمی میں اسلامی جمعیت طلبہ میں شامل ہوئے اور 1983ء میں اسی کے پلیٹ فارم سے انجمنِ طلبہ، جامعہ کراچی کے سیکرٹری اور 1984ء میں انجمن طلبہ ،جامعہ کراچی کے صدر منتخب ہوئے۔

شکیل الرحمٰن فاروقی نے14 مارچ 1988ء کو جامعہ کراچی میں اُستاد کی حیثیت سے ملازمت اختیار کی اور19جولائی 2020ء کو شعبۂ جینیات سے بحیثیت اسسٹنٹ پروفیسر ریٹائر ہوئے ۔اس کے علاوہ وہ انجمنِ اساتذہ، جامعہ کراچی کےدو مرتبہ صدر بھی منتخب ہوئے۔وہ جامعہ کی سنڈیکیٹ کے رُکن اور مشیر برائے شیخ الجامعہ بھی رہے۔ 

نیز، انہوں نےپاکستان ٹیلی ویژن میں طویل عرصے تک ایک اسلامی پروگرام ’’میزان‘‘ کی میزبانی کے فرائض بھی انجام دیئے۔ اپنی ذات میں انجمن، پروفیسر ڈاکٹر شکیل الرحمٰن فاروقی کورونا وائرس کا شکار ہوکر15 مارچ 2021ء کو اس جہانِ فانی سے کُوچ کرگئے۔

تازہ ترین