• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یہ چھوٹی سی ڈبیا جسے آپ رات دن بے مقصد استعمال کررہے ہیں۔ یہ آپ کی آرزوؤں، تمناؤں، امنگوں کو حقیقت میں تبدیل کرسکتی ہے۔ یہ آپ کے آس پاس کو ہرا بھرا کرسکتی ہے۔ 

لینڈ مافیا، واٹر مافیا، مارکیٹ مافیا کو زیر کرسکتی ہے۔ سرداروں کو رام کرسکتی ہے۔ جاگیرداروں کا تکبر فرو کرسکتی ہے۔ آپ اسے سمجھنے کی کوشش کریں۔ اس کی طاقت اور آپ کی طاقت دونوں مل جائیں تو معاشرے میں انقلاب آسکتا ہے۔پچھلے ساٹھ سال سے لکھ رہا ہوں۔ پڑھنے والے مسلسل یہ سوال کرتے رہے ہیں ۔

کب ہمارے حالات بدلیں گے۔ کیا ہوگا۔ کون آئے گا۔ نہیں کوئی ٹھیک نہیں کرسکتا۔ ہماری زندگی میں تو کچھ نہیں بدلے گا۔ پہلے ہم شخصیتوں کو مسیحا قرار دے دیتے تھے اب مسیحائوں سے بھی اعتبار اٹھ گیا ہے۔ ادارے بے اثر ہوگئے ہیں۔

شاہی مورخین آنے والی نسلوں کے ساتھ نا انصافی کرگئے ہیں۔ صرف درباروں کی ڈائریاں لکھتے رہے ہیں۔ آج کا میڈیا بھی یہی کررہا ہے۔ اقتدار کے ایوانوں سے باہر نہیں نکلتا۔ ایک فی صد کو 99فی صد پر مسلط کیے رکھتا ہے۔ جمہوریت میں اکثریت کو طاقت کہا جاتا ہے۔ مگر اکثریت کیا سوچتی ہے۔ کس کرب میں مبتلا ہے۔ یہ تاریخ بتاتی ہے نہ آج کا میڈیا۔

میں چھ دہائیوں بعد آج نادم ہوں میں اپنے قیمتی الفاظ۔ سچے جذبات ان بااثروں پر ضائع کرتا رہا جن کے دلوں پر مہر لگی ہوئی ہے۔ جن کی آنکھوں پر غلاف چڑھے ہیں۔ جن کے منہ بند ہیں۔

کسی ﷲ دینو کو نیب، پولیس، ایف آئی اے نے پکڑ نا ہو نہ ملے تو اس کے ماں باپ بھائیوں کو اٹھاکر لے جاتی ہے۔ شہزادے شہزادیاں ﷲ دینو سے کہیں بڑا جرم کریں تو تاریخیں آگے بڑھادی جاتی ہیں۔ 

ایک فی صد اشرافیہ نے سارے نظام ناکام بنادیے۔ نظام مصطفیٰؐ کے مقدس نام پر۔ طاقت کا سر چشمہ عوام ہے کہہ کر۔ لولی لنگڑی جمہوریت بہترین آمریت سے بہتر ہے کا نعرہ بلند کرکے۔ یہ اقلیت صدارتی نظام ہو یا پارلیمانی۔ یہ 99 فی صد پر مسلط رہتی ہے۔ 

اکثریت کو اصل معاملات سے دور رکھا جاتا ہے۔ بلوچستان، سندھ، پنجاب، جنوبی پنجاب، خیبر پختونخوا، گلگت بلتستان اور آزاد جموں و کشمیر کے غریبوں ناداروں کو متحدہ قوت بننے سے روکنے کے لیے مذہبی، لسانی، نسلی اور علاقائی تعصبات کی بارودی سرنگیں بچھادی جاتی ہیں۔ 

حکمران آرہے ہیں لائے جارہے ہیں۔ سرکاری خزانے لوٹ کر ضمانتیں حاصل کرکے مزے لوٹ رہے ہیں۔ پارلیمانی نظام ایڑیاں رگڑ رہا ہے۔ پارلیمنٹ میں ملکی معاملات پر بحث نہیں ہوتی۔ ایجنڈے کی کاپیاں پھاڑی جاتی ہیں۔ اسپیکر۔ چیئرمین کا گھیرائو کیا جاتا ہے۔ قانون سازی صدارتی آرڈی نینس فیکٹری سے ہوتی ہے۔

یہ ہے حقیقی صورت حال۔ مایوس کن ۔ کہتی ہے جا اپنی حسرتوں پر آنسو بہاکر سوجا۔

لیکن نہیں۔ اکثریت آنسو بہا کر سوئے گی نہیں۔ معاشرہ اپنے طور پر بہت ترقی کررہا ہے۔ تعلیمی ادارے پہلے سے بہت زیادہ ہوگئے ہیں۔ پڑھنے والوں کی تعداد بڑھ گئی ہے۔ بیٹیاں بھی ماضی کی نسبت زیادہ زیر تعلیم ہیں۔ تحقیق ہورہی ہے۔ زرعی یونیورسٹیاں اناج کی نئی قسمیں بتارہی ہیں۔ زمین فی ایکڑ زیادہ پیداوار بھی دے رہی ہے۔ 

صنعتوں میں بھی اضافہ ہورہا ہے۔ نئے کارخانے لگ رہے ہیں۔ برسوں سے جو کوئلہ بجلی بننے کے لیے تڑپ رہا تھا۔ اب گلی کوچے روشن کررہا ہے۔نئے نئے کاروبار شروع ہوگئے ہیں جن میں نوجوان بر سر روزگار ہورہے ہیں۔ آن لائن کاروبار پھیل رہا ہے۔ لوگوں کی تربیت نہیں تھی۔ اپنے طور پر متوسط اور غریب طبقوں نے ستاروں پر کمند ڈالی ہے۔

موبائل فون سب کی ضرورت ہے۔ اس کی خرید و فروخت میں لسانی نسلی صوبائی کوئی تعصب حائل نہیں ہوا۔ دالبندین میں بھی اس کی مارکیٹ ہے۔ چیچہ وطنی میں بھی ۔ کالا ڈھاکے میں بھی۔ گڑھی یٰسین میں بھی۔ پلندری میں بھی۔ چیلاس میں بھی۔ بنیادی نکتہ معاشی سوچ ہے۔ سائنسی رویے ہیں۔ آپ کا انداز فکر اگر اقتصادی ہے۔ معروضی ہے تو سارے مافیا اس کے سامنے ہیچ ہیں۔

اس لیے میرے ذہن میں ایک جھماکا ہورہا ہے۔ ایک بشارت کی سی کیفیت۔ کہ اب ﷲ تعالیٰ کا نائب انسان پیغمبر آخر الزماںؐ کا امتی ریاست۔ حکومت سے کسی معجزے کی امید نہ رکھے۔ اپنے وجود کے مرکز سے رہنمائی حاصل کرے۔ اپنے ذہن سے رابطہ کرے۔ ﷲ نے بہت صلاحیتیں دی ہیں۔ پیارے نبیؐ کا اسوہ حسنہ ہمارے سامنے ہے۔ دنیا کی ترقی کی مثالیں موجود ہیں۔ 

اپنے سوز دروں سے روشنی مانگیں۔ درسگاہوں کی انجمنیں ہیں۔صنعت کاروں کی فیڈریشنیں ہیں۔ مارکیٹوں کی ایسوسی ایشنیں ہیں۔ بینک بہت فعال ہیں۔ان کے ایگزیکٹو کی۔ جونیئر کارکنوں کی تنظیمیں ہیں۔ یہ سب باشعور ہیں۔ دیانتدار ہیں۔ سرکاری دفتروں کے کلرکوں اور افسروں کی بھی یونینیں ہیں۔ 

یہ سب سر جوڑ کر بیٹھیں۔ ان نمائندہ انجمنوں کے عہدیدار۔ اپنا کنسورشیم بنائیں۔ ایک فی صد اشرافیہ کے خلاف یہ 99فی صد اپنی آواز میں آواز ملائیں۔ ایک فی صد بہرہ مندوں نے 99فی صد کو اپنا غلام بنا رکھا ہے۔ لوٹ مار میں اگر ان کے ڈرائیور۔ منشی۔ وکیل۔ منیجر۔ ساتھ نہ دیں تو یہ چند خاندان کبھی سرکاری خزانہ نہیں لوٹ سکتے۔

حکومت ریاست سے ہم سب جو کہتے ہیں کہ یہ ہونا چاہئے وہ ہونا چاہئے۔ ہم اپنی ان مخلصانہ دانشمندانہ تجاویز کو خود ایک دستاویزی شکل دیں۔ درسگاہیں۔ صنعتیں اس فکر کو عملی شکل دینے کے لیے فنڈنگ کریں۔ اب تک جو وزیروں۔ سیکرٹریوں کو اربوں روپے رشوت دیتے آئے ہیں۔ 

وہ اس ریسرچ پر خرچ کریں۔ صحت۔ معیشت۔ زراعت۔ آن لائن ڈیجیٹل سسٹم کے ماہرین اپنی ایک ٹیم بناسکتے ہیں۔ بین الاقوامی این جی اوز کروڑوں ڈالر خرچ کرچکی ہیں۔ مگر کوئی سسٹم نہیں بنواسکیں کیونکہ وہ وطن کے دردسے عاری ہیں۔

میرے دل سے آواز آرہی ہے کہ ہمارا معاشرہ بانجھ نہیں ہے۔ سمندر پار پاکستانی۔ خلوص بھی رکھتے ہیں سرمایہ بھی۔ وہ سیاستدانوں۔ سیاسی جماعتوں پر پیسہ لٹاتے رہے ہیں۔ لیکن جب انہوں نے دی سٹیزن فائونڈیشن۔ انڈس اسپتال جیسے اداروں کی سرپرستی کی تو پاکستان میں تعلیم اور صحت کے شعبوں میں بہت عمدگی آئی ہے۔ 

وقت آگیا ہے کہ اب سیاستدانوں پر مال خرچ کرنے کی بجائے ایسے اداروں کو مالی طاقت دیں جو اکثریت کے ذہن بدلیں۔ جذباتی نقطہ نظر کی بجائے اقتصادی اور سائنسی سوچ کو فروغ دیں۔ شہروں قصبوں دیہات میں ایسے واٹس ایپ گروپ قائم کریں جو اپنے محلوں علاقوں کے مسائل اسکرین پر لائیں۔ یہ پیغامات متعلقہ افسروں کو موبائل پر بھیجیں۔ ان کی ویب سائٹس پر ارسال کریں۔ 

پھر وقت لے کر متعلقہ دفتروں میں گروپوں کی شکل میں جائیں۔ افسروں سے میٹنگ کریں۔ گفتگو ریکارڈ کریں۔ ویب سائٹ پر دیں۔ یو ٹیوب چینلوں میں دیں۔ اپنے ایم این اے ایم پی اے اور کو نسلر سے ملیں ۔ یہ بہت اچھا موقع ہے۔ یہ ڈبیا یہ موبائل فون ایک سسٹم وجود میں لاسکتی ہے۔ ہمت کریں۔

تازہ ترین