• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دل ماننے کو نہیں، ہمارا پیارا دوست شوکت علی دائمی نیند سوگیا اور اس سے پہلے انقلابی ساتھی خواجہ طارق مسعود ساتھ چھوڑ گئے۔ کس کس کو روئیں اور کس کس کو نہ یاد کریں۔ 

جنرل ضیاءالحق کا مارشل لا نیا نیا لگا تھا کہ ہمارے دوست مشتاق صوفی نے پی ٹی وی پر ایک محفل سجائی جس میں فوک سنگر شوکت علی کو ”جگا“ گانے کو کہا جس کے بولوں میں سے ایک بول یہ بھی تھا کہ ”جے میں جاندی جگے نے مرجانا‘ تے اک دی تھاں دو جمدی“۔ 

جس طرح جگے کی جگہ تو پر نہ ہوسکی، شوکت علی اور خواجہ طارق مسعود کی جگہ بھی کوئی نہ لے سکے گا۔ روایتی قصے کہانیوں کے جگے، ملنگی اور نظام لوہار فوک لور کا حصہ بن کے جاوداں ہوگئے جیسے رابن ہڈ۔ مگر شوکت علی جیسے لوک فنکار جیتے جی جاوداں ہوکر بھی کامراں نہ ہوسکے۔ 

جب شوکت علی نے پی ٹی وی پر جگا گایا تو غیر سیاسی قومی اسمبلی کے رکن چوہدری ظہور الہٰی نے نکتہ اعتراض اُٹھایا کہ اب سرکاری ٹی وی پر ”ڈاکوؤں“ کو ہیرو بنا کر پیش کیا جارہا ہے تو مارشل لا کا غضب نازل ہوگیا جسے مشتاق صوفی اور شوکت علی کو بھگتنا پڑا۔ 

رات گئے شوکت علی کی موت کی خبر ملی اور صبح سویر پرانے ساتھی پرویز رشید کا فون آیا اور ہم باہم ”پرسا“ کرتے رہے ۔پھر پرویز رشید نے ایک عجب پیغام واٹس ایپ کیا۔ موصوف نے لکھا: ”امتیاز! اس کی فوک گائیکی نے اسے مشرقی پنجاب کا ہیرو بنایا۔ مغربی پنجاب میں وہ ساتھیو! مجاہدو! سے جانا جاتا ہے۔ 

اول (گائیکی) اس کی روح تھی اور دوئم (گائیکی) اس کا پیٹ۔ ویسے آج کا مغربی پنجاب ہے کیا؟ نہ جغرافیہ، نہ تاریخ، نہ دھرتی، نہ تہذیب، نہ معاشرہ، نہ معیشت۔ برصغیر سے صرف ہمیں منہا کر کے تصویر بناؤ۔ رنگ، خوشبو، رقص موسیقی، مصوری سب کچھ ہے سوائے جنگ و جدل کے“۔ 

اب اس سے زیادہ تازیانہ نما نذرانہ اور کیا بھیجا جاسکتا ہے؟ پرویز ہی نے بتایاکہ ”جگا“ گانے پر ملک معراج خالد بھی شوکت علی پر سیخ پا ہوئے تھے اور ہماری پنجابی سنگت والے بھی۔ بھلا لوک ہیروز کے قصے کیسے ہی خیالی ہوں، ہیں تو عوامی نافرمانی کے قصے جو عوام کے دلوں کو گرمائے رکھتے ہیں۔ 

جیسے ہیر وارث شاہ اور میاں محمد بخش کو شوکت علی نے گایا وہ صرف ایک لوک گائیک ہی گاسکتا تھا۔ شوکت علی کی گرجدار آواز نے 1968ءکی عوامی تحریک کو حبیب جالب کے ساتھ مل کر خوب گرمایا تھا۔ وہ 1968ءکے عظیم ابھار کا مغنی تھا اور ایک سدا بہار انسان جو گائیک سے بڑھ کر عظیم انسان دوست شخص تھا۔ ایک بار 14 اگست کو میرے کہنے پہ وہ امرتسر گیا جہاں ایک پنجابی ثقافتی میلہ لگتا تھا۔ 

جب شوکت علی نے وہاں جگا گایا تو پچاس ہزار سے زائد کامجمع اس کے گیت پر بھنگڑا ڈال رہا تھا۔ آخری مہینوں میں جب مجھے اس کی بیماری کی خبر ملی تو میں نے اس کے جگر کی بیماری کے علاج کے لیے سندھ کے چیف منسٹر مراد علی شاہ سے درخواست کی تو انہوں نے اس کے علاج کے لیے جو ہوسکتا تھا کیا اور وہ بہت خوش تھا کہ اس کے بھٹو کی پارٹی کے لوگ اس کے کام آئے۔ مگر مرض جان لیوا ثابت ہوا۔ 

اس کی یاد ہمیشہ رہے گی اور اس کی گائیکی سلامت رہے گی کہ وہ پنجابی کی عوامی روح ہے۔

اب آتے ہیں بائیکاٹ ازم کی سیاست پر جو کہ آجکل کا چالو سکہ ہے۔ وفاقی معاشی رابطہ کمیٹی نے معاشی ضرورتوں کے تحت بھارت سے کپاس، دھاگہ، چینی اور گندم درآمد کرنے کا فیصلہ کیا جس کی توثیق وزارت تجارت کے وزیر عمران خان اور دفتر وزیراعظم نے دے دی جس کا دنیا بھر میں اور کاروباری حلقوں نے خیر مقدم کیا۔ 

یوں لگا جیسے اسلام آباد کے سکیورٹی پہ ہونے والے سیمینار میں وزیراعظم عمران خان اور چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ نے جیو اسٹرٹیجک کی جگہ علاقائی معیشت کی اہمیت پہ زور دیا تھا، تجارت کی بحالی اسی کا ثمر ہے۔ لیکن اگلے ہی روز کابینہ نے اس فیصلے کو اُلٹ دیا یا ایک اور یوٹرن لے لیا۔ 

اس لال بجھکڑ قسم کی فیصلہ سازی پہ مشیر سلامتی امور نے تو گھامڑ پن کی حد ہی کردی اور کہا کہ ”وزیراعظم کا بھارت سے تجارت کی سمری منظور اور مسترد کرنا دو الگ باتیں ہیں“۔؟ مگر کابینہ نے سلامتی کے نئے معاشی نظریے کی ٹانگ اس پر توڑی ہے کہ جب تک بھارت 5اگست 2019ء کو جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کرنے کا فیصلہ واپس نہیں لیتا تب تک تجارت ہوگی نہ بات چیت۔ 

ایسے میں وزارت خارجہ کے بابو سر نہیں پیٹیں گے تو کیا کریں گے؟ اس کے باوجود کہ بیک چینل میں بات چیت جاری ہے، کابینہ کے فیصلے سے ایک بڑی سفارتی چھلانگ مخمصے کا شکار ہوگئی ہے۔ 

کچھ ایسا ہی جنوبی پنجاب کے سیکرٹریٹ کے قیام، پھر اس کے اختتام اور اب پھر اس کی بحالی کی پے درپے قلابازیوں کی صورت ہوا ہے۔ یہ سرائیکی علاقے کے فیڈرل کس منہ سے اگلے انتخاب میں اپنے وسیب جائیں گے؟ 

یہ تو سرائیکی سرائیکی محض عوام کو بیوقوف بنانے کے لیے کھیلتے رہے ہیں اور یونہی دغا دیتے آئے ہیں۔ ان پر تکیہ کیسا؟ بائیکاٹ ازم کی بڑی شکار آجکل مقہور (اگر مغفور نہیں ہوئی) پی ڈی ایم ہے جو اب خیر سے سینیٹ میں دو حصوں میں تقسیم ہوگئی ہے۔ 

اگر سینیٹ میں قائد حزب اختلاف کی پوزیشن اتنی ہی غیر اہم تھی تو اس پر باہم جو تم پیزاری کی نوبت کیوں آئی؟ آخر سیاسی بصیرت کہاں گھاس چرنے چلی گئی۔ بائیکاٹ ازم کا خمیازہ ایم آر ڈی بھگت چکی جس کے نتیجے میں پی این اے کے ڈنڈابردار قومی لیڈر بن گئے اور پیپلزپارٹی پنجاب سے فارغ کردی گئی۔ 

میاں نواز شریف، بے نظیر بھٹو اور آصف علی زرداری کو دعا دیں کہ انہوں نے ان کو دو بارہ 2008ء کے انتخابات کے بائیکاٹ سے باز رکھا۔ اگر وہ بائیکاٹ پہ اڑے رہتے تو جانے ن لیگ کا کیا حشر ہوتا اور پیپلزپارٹی مشرف کے ہاتھوں کتنا خراب ہوتی۔ بھئی آخر ایسی کیا بڑی آفت ٹوٹ پڑی ہے۔ 

عمران حکومت آدھی سے زیادہ مدت خراب کر بیٹھی ہے، مدت پوری کرے گی تو اسے لگ پتہ جائے گا۔ 

کالم ختم کرتے ہوئے یاد آیا کہ جب آپ یہ کالم پڑھ رہے ہوں گے تو ذوالفقار علی بھٹو شہید کی بیالیسیویں برسی ملک بھر میں آہوں اور دعاؤں کے ساتھ منائی جارہی ہوگی۔ کیا عجب مرد تھا ذوالفقار علی بھٹو!

تازہ ترین