• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
حالیہ انتخابات جہاں پاکستانی تاریخ کے متنازع ترین انتخابات تھے جس میں گولی کے ذریعے اے این پی کو انتخابات سے باہر رکھ کر پری پول دھاندلی کی سفاکانہ مثال قائم کی گئی اور منتشر و بے بس الیکشن کمیشن کے عین ناک تلے حسب طاقت، زور آوروں نے اپنا اپنا حصہ وصول کیا، وہاں یہ بھی ماننا پڑے گا کہ یہ سیاستدانوں کا کارنامہ ہے کہ ملک میں پہلی مرتبہ جمہوری طریقہ کار کے مطابق پُرامن انتقال اقتدار ہوا اور تمام تر آلائشوں کے باوجود تمام جماعتوں نے ان انتخابات کو تسلیم بھی کیا۔ بہ احسن و خوبی طے پانے والے مراحل اس سوچ کو تقویت فراہم کرتے ہیں کہ اگر سیاستدانوں و جمہوریت سے نہ کھیلا جائے تو کوئی وجہ نہیں کہ یہ ملک دیگر جمہوری ممالک کی طرح اپنے عوام کیلئے خیر، امن و ترقی کا گہوارہ ثابت نہ ہو۔ یہ جمہوریت ہی کا فیض ہے کہ سیاستدان ماضی سے سیکھتے اور رجوع کرتے ہوئے آگے قدم بڑھا رہے ہیں۔ اس امر کا گواہ جہاں وزیر اعظم میاں نواز شریف کا مفاہمانہ طرز عمل ہے وہاں پختون بلوچ قوم پرستوں کا وفاق سے ایثار و وفا کا تجدید عہد بھی ہے۔ نیشنل پارٹی کے ڈاکٹر عبدالمالک کو وزیراعلیٰ قبول کرنا اور پختونخوا ملی عوامی پارٹی کو گورنر کا منصب دیئے جانے سے متعلق فیصلہ جہاں پختون بلوچ عوام کی امنگوں کا ترجمان اور چھوٹے صوبوں کے حق حکمرانی کا غماز ہے وہاں یہ اختیارات میں عوامی شراکت داری کا پیغام لئے ہوئے ہے۔ 70ء کی دہائی کے بعد سے جب سردار عطاء اللہ مینگل وزیراعلیٰ اور غوث بخش بزنجو گورنر تھے، یہ دوسرا موقع ہے جب عوام کے سامنے عوامی نمائندے براجمان ہوں گے۔
بلوچستان میں پختون بلوچ صدیوں سے دوستی، بھائی چارے اور باہمی احترام کے گہرے تاریخی رشتوں میں بندھے ہوئے ہیں۔ کبھی ان کے مابین ایسے اختلافات سامنے نہ آ سکے جو نفرتوں کی آبیاری کر سکیں۔ گورنر اور وزارت اعلیٰ میں سے کوئی ایک منصب پختونوں کو دینے کا مطالبہ اگرچہ دیرینہ ہے لیکن کبھی یہ مسئلہ گمبھیر نہیں بنا۔ اس حوالے سے پختونخوا ملی عوامی پارٹی کا موقف بڑا واضح رہا ہے اور اس نے ہر فورم پر اس کو اجاگر بھی کیا۔ خان عبدالولی خان جو کہ پختون بلوچ تعلقات کے بے بدل علمبردار تھے اور ان کی جماعت نیپ ہی کا صدقہ جاریہ ہے کہ پختون بلوچ آج مختلف جماعتوں میں ہونے کے باوجود ایک دوسرے کو قبول کرنے میں سہولت محسوس کر لیتے ہیں۔ انہوں نے بھی کوئی ایک منصب پختونوں کو دینے کی ضرورت کو بدرجہ اتم محسوس کیا۔
امر واقعہ یہ ہے کہ 1970ء کے انتخابات کے نتیجے میں جب بلوچستان میں نیشنل عوامی پارٹی (نیپ) کو حکومت سازی کا موقع میسر آیا تو محترم خیر بخش مری نے ولی خان صاحب پر واضح کیا کہ وہ کسی عہدے کے طلب گار نہیں، چنانچہ نیپ کے محترم عطاء اللہ مینگل وزیراعلیٰ اور مرحوم و مغفور غوث بخش بزنجو گورنر نامزد ہوئے لیکن اس دوران بھٹو مرحوم نے نیپ سے کئے گئے وعدے سے انحراف کرتے ہوئے نواب غوث بخش رئیسانی کی بحیثیت گورنر تقرری کر دی حالانکہ بلوچستان میں پیپلز پارٹی قومی و صوبائی اسمبلی کی ایک بھی نشست حاصل کرنے میں کامیاب نہ ہو سکی تھی چنانچہ کوئٹہ میں مظاہرے شروع ہو گئے جس میں طالب علم رہنما منان شہید ہو گئے۔ بعدازاں تحریک میں شدت کے خوف سے بھٹو صاحب سابق عہد کی پاسداری پر تیار ہو گئے۔ اس موقع پر ولی خان صاحب نے غوث بخش بزنجو صاحب سے کہا کہ گورنر اور وزارت اعلیٰ دونوں مناصب بلوچوں کو مل جائیں گے اور نیپ بلوچستان کا صدر بھی بلوچ ہے۔ چونکہ ہم بلوچستان میں پختون بلوچ مساوی حقوق اور قوموں کے حقوق کی برابری پر یقین رکھتے ہیں، اس لئے میری یہ تجویز ہے کہ آپ صوبہ سرحد (پختونخوا) کے گورنر بن جائیں اور وہاں کے نامزد گورنر ارباب سکندر خان خلیل بلوچستان کے گورنر بن جائیں گے۔ اگرچہ بلوچستان کے پختونوں نے ہمارے بجائے جے یو آئی کو ووٹ دیئے ہیں اور نیپ کے توسط سے ایک بھی پختون نمائندہ اسمبلی میں نہیں پہنچا ہے لیکن ہمارا یہ عمل یہاں کے پختونوں کی تشفی کا باعث ہو گا۔ ولی خان صاحب کی خود نوشت ”باچا خان اور خدائی خدمتگاری“ کے مطابق بزنجو صاحب نے اس تجویز پر اظہار مسرت کرتے ہوئے اتفاق کیا، لیکن درخواست یہ کی کہ چونکہ صوبہ پہلی مرتبہ بااختیار ہوا ہے لہٰذا اس عمل کی تکمیل کے ساتھ ہی6 ماہ بعد میں پشاور چلا جاؤں گا اور ارباب صاحب کوئٹہ آ جائیں گے اور یوں پختون بلوچ دوستی مزید وسعت پا لے گی“۔ بہرکیف 6 ماہ بعد ہی بھٹو صاحب نے نیپ کی حکومت ختم کر دی۔ اس غیر آئینی فیصلے پر احتجاجاً صوبہ سرحد کی نیپ، جے یو آئی کی مخلوط حکومت بھی مستعفی ہو گئی۔ کہنا یہ مقصود ہے کہ چھوٹے صوبوں کے حریف سمجھے جانے والے پنجاب کے لیڈر نواز شریف نے بلوچستان کے بلوچوں و پختونوں کو جو حقِ حکمرانی لوٹا دیا ہے اس کیلئے طویل عرصے سے بلوچ پختون برسر پیکار تھے۔
یہ فیصلہ جہاں میاں صاحب کے چھوٹے صوبوں کے احترام کے جذبے کا آئینہ دار ہے وہاں یہ فیصلہ جناب محمود خان اچکزئی کی پُروقار اور باکمال شخصیت کی کوششوں کا ماحصل بھی ہے۔ یہ فیصلہ ہمہ جہت پہلو لئے ہوئے ہے، جہاں اس فیصلے کے نتیجے میں متوسط طبقے کی ایک ایسی شخصیت وزیراعلیٰ کے منصب پر فائز ہو گئی ہے جو اگر ایک طرف سرداروں، نوابوں اور اسٹیبلشمنٹ کے آلہ کاروں کے موڈ کو بدمزہ کرنے کا باعث ہے تو دوسری طرف یہ شخصیت قوم پرست سرداروں اور نوابوں کیلئے کسی اور سے زیادہ قابل قبول بھی ہے۔ بلوچستان کی قدآور اور قابل احترام شخصیات نواب خیر بخش مری، سردار عطاء اللہ مینگل اور غوث بخش بزنجو کے نظریات میں کوئی بڑا فرق نہیں تھا۔ بزنجو صاحب آج دنیا میں موجود نہیں ہیں اور خیر بخش مری اور عطاء اللہ مینگل اپنے نظریات کے ساتھ زندہ ہیں، اگر ان کا دستِ شفقت غوث بخش بزنجو کے صاحبزادے میر حاصل بزنجوکے سر پر رہا، تو کوئی وجہ نہیں کہ یہ صوبہ اپنے وسائل آپ اپنے کام میں نہ لا سکے۔
فیصلے کا ایک اور مثبت پہلو یہ بھی ہے کہ پختونخوا ملی عوامی پارٹی اور بلوچ قوم پرستوں کے مابین جو بظاہر دوریاں تھیں وہ ختم ہوتی نظر آ رہی ہیں۔ بعض حوالوں سے پختونخوا میپ پر سخت گیر رویّے کا الزام عائد کیا جاتا رہا جبکہ دوسری جانب اسے ردعمل کہا گیا۔ پختونخوا میپ بلوچستان کو دو لسانی صوبہ قرار دیتی ہے اور بلوچستان کے پختون بیلٹ کو جنوبی پختونخوا کے نام سے پکارتی ہے۔ جماعت کا نام بھی شمالی و جنوبی پختونخوا سے منسوب پختونخوا ملی عوامی پارٹی ہے۔ کشمیر، افغانستان، ڈرون حملوں، نیٹو سپلائی، طالبان اور دہشت گردی کیخلاف جنگ پر اس کا موقف وہی ہے جو اے این پی کا ہے بلکہ بعض حوالوں سے پختون قومی تحریک میں یہ جماعت اے این پی سے بھی زیادہ سخت موقف رکھنے کی دعویدار ہے۔ فرنگی استعمار کے نام سے گلو خلاصی اور صوبہ سرحد کا نام خیبر پختونخوا رکھنے کا عمل جہاں اسفند یار ولی خان کے کریڈٹ پر ہے وہاں بلوچستان میں پختون گورنر کی تقرری محمود خان اچکزئی کا طرہ امتیاز ہے۔ وفاق کے ایسے ہی اقدامات ہوتے ہیں جو چھوٹے صوبوں کو مرکز کے قریب لاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ قرطاس ِسیاست پر اس فیصلے کے ثبت ہوتے ہی محمود خان اچکزئی نے اعلان کر دیا کہ ”پنجاب نے سب کو اکٹھا کر دیا۔ بلوچستان قیامت تک پاکستان کے ساتھ رہے گا“۔ وزیراعظم نواز شریف کو مبارک ہو، خان شہید عبدالصمد اچکزئی کے صاحبزادے انہیں اور پاکستان کو مایوس نہیں کریں گے لیکن ابھی خطرات کم نہیں ہوئے ہیں۔ جناب وزیراعظم انتخابات کے فوری بعد آپ نے دو تہائی اکثریت سمیت متعدد کامیابیاں حاصل کر لی ہیں لیکن راستے میں عمران خان کے سونامی سے بھی زیادہ خوفناک دریا مسائل کی طلاطم خیز موجیں لئے ہوئے ہے لہٰذا بیداری تقاضائے وقت ہے، امید فاضلی نے کہا تھا
جانے کب طوفان اٹھے اور رستہ بچھ بچھ جائے
بند بنا کر سو مت جانا دریا آخر دریا ہے
تازہ ترین