• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
وزیر اعظم میاں نواز شریف نے اپنے پہلے پالیسی بیان میں قوم کو خوشخبری دی ہے کہ لوڈشیڈنگ ختم کرنے کا جامع منصوبہ بنا لیا گیا ہے ۔ دوسرا یہ کہ کرپشن نہ وہ خود کریں گے اور نہ کسی کو کرنے دیں گے ان دونوں چیزوں کا تعلق براہ راست عوام اور ہماری معیشت سے ہے اس وقت ان دونوں وجوہ کی بناء پر پاکستان کی معیشت کو مختلف چیلنجز کا سامنا ہے جبکہ کرپشن ایک ناسور کی بجائے ضرورت اور فیشن بنتی جا رہی ہے پہلے معاشرے میں کرپٹ عناصر کو ناپسند کیا جاتا تھا اب انہیں عزت وتکریم کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے، یہ سلسلہ پچھلے 25-20سال میں شروع ہوا جو اب بڑھتا ہی جا رہا ہے کرپشن کا عنصر امریکہ ہو یا بھارت یا یورپ یا چین ہر جگہ موجود ہے مگر وہاں اس کے اثرات معیشت اور معاشرت پر اتنے نہیں پڑتے جتنے پاکستان میں اس طرح جنرل ضیاء الحق کے دور میں بجلی کی لوڈشیڈنگ نہیں لوڈ مینجمنٹ ہوا کرتی تھی لیکن اب اوسطاً 14سے15گھنٹے کی لوڈشیڈنگ نے عوام کو ڈپریشن اور ہر روز گنتی گننے پر مجبور کر دیا ہے کہ آج 10گھنٹے بجلی گئی کل 14گھنے گئی تھی دوسری طرف بجلی اور گیس کی قلت نے صنعتی و تجارتی شعبہ کی مشکلات میں بھی اضافہ کیا ہے اس سے مجموعی طور پر قومی محاصل کی آمدنی میں کمی ہوئی ہے خاص کر ایسے حالات میں جہاں جی ڈی پی کا 9سے 10فیصد حصہ ٹیکس ملتا ہو وہاں ریونیو میں اضافہ کیسے ممکن ہے اب یہ کام وزیر اعظم نواز شریف ہی کر سکتے ہیں وہ بزنس کمیونٹی کو اس بات پر قائل کریں کہ اب ہمارا ملک ٹیکسوں کی چھوٹ یا مراعات اور ریفنڈ وغیرہ سے نہیں چلے گا بلکہ اب ہر شخص کو اپنی اپنی قابل ٹیکس آمدنی میں ٹیکس ادا کرنے کی عادت ڈالنا ہو گی اس کے علاوہ قومی سطح پر اخراجات کی بچت کی مہم چلائی جائے ، جس کا آغاز ایوان صدر اور ایوان وزیر اعظم سے کیا جائے اس کی تقلید چاروں صوبوں کے گورنرز اور وزرائے اعلیٰ کریں اب ملکی حالات خالی بیانات دینے کے نہیں بلکہ عملی طور پر خود مثالی حکمران بننے کے ہیں قومی اسمبلی کے پہلے اجلاس میں قائد ایوان کے طور پر میاں نواز شریف نے دیکھ لیا کہ پیپلز پارٹی یا تحریک انصاف انہیں کئی مواقع پر مشکلات سے دوچار کر سکتی ہے گو کہ عوامی اعتبار سے مسلم لیگ (ن) کو سب پارٹیوں پر سبقت حاصل ہے مگر قومی اسمبلی کے چند اجلاسوں کی کوریج سے اپوزیشن اپنے مقاصد حاصل کرنے میں کامیاب ہو سکتی ہے اس لئے وزیر اعظم میاں نواز شریف کو بردباری کے ساتھ سیاسی اور معاشی معاملات چلانے ہوں گے ۔ سارا ایوان نہ ان کا ہے اور نہ کسی اور کا ! یہاں چند ماہ کے بعد لوگوں کے تیور بدلنا شروع ہو سکتے ہیں ۔ اس خدشہ کو روکنے کا ایک ہی حل ہے کہ کسی تاخیر کے بغیر معاشی سرگرمیوں کے حوالے سے عوام کو مطمئن کیا جائے عوام کا مسئلہ روٹی سکیورٹی اور سکھ کا ہے، جو اب ناپید نظر آ رہا ہے انہی حالات کے پس منظر میں عوام انہیں اقتدار میں لائے ہیں عوام کی اکثریت اس وقت بھی رزق حلال پر یقین رکھتی ہے لیکن حالات کافی بڑی تعداد کو گمراہ کر رہے ہیں اسلامی نقطہ نظر سے کرپشن بددیانتی کے زمرے میں آتی ہے، یہ کرپشن صرف مالی نہیں، اخلاقی اور انتظامی حوالے سے بھی ختم کرنی ضروری ہے ۔ اس کے لئے اقربا پروری اور خاندان پرستی یا دوستیاں نبھانے کی بجائے پبلک سیکٹر کے اداروں میں ایسے افراد کو سربراہ تعینات کیا جائے جو پروفیشنل نقطہ نظر سے مضبوط پوزیشن کے حامل ہوں اس طرح ان کے بورڈ آف ڈائریکٹر زمیں بھی دوستوں کو نہیں ان شعبوں کے ماہرین کو شامل کیا جائے چاہے وہ ماضی میں دیگر حکمرانوں کے ساتھ کام کرتے رہے ہوں، مسلم لیگ ن کی قیادت کو یہ بات سمجھ لینی چاہئے کہ بیوروکریٹ ہو یا کوئی پروفیشنل اس کی کوئی سیاسی جماعت یا کمٹمنٹ نہیں ہوئی وہ ہر حکمران کے ساتھ ہوتا ہے، جو اقتدار میں ہوتا ہے اس لئے حالات کا تقاضا ہے کہ قومی مالیاتی ادارے ہوں یا پی آئی اے، سٹیل ملز، پی ایس او ہو یا گیس کمپنیاں، سب میں نئی تقرریوں کے حوالے سے احتیاط ضروری ہو گی ورنہ اپوزیشن انہیں مشکلات سے دوچار کرتی رہے گی ایک محتاط اندازے کے مطابق توانائی کے بحران اور کرپشن کی وجہ سے بھاری معیشت کو سالانہ ہمارے ریونیو بجٹ سے بھی زیادہ کا نقصان ہو رہا ہے پہلے چار سال سے احتساب کمیشن بل قومی سابق اسمبلی کے حوالے سے زیر التوا چلا آ رہا ہے کم از کم اب وقت ہے کہ مسلم لیگ ن اس حوالے سے قوم کو مطمئن کرے اور ایک ایسا احتساب کمیشن بنائے جو مثالی کردار ادا کرے ۔ جو کسی بھی جگہ سے نہ ڈکٹیشن لے اور نہ ہی کسی کے دباؤ میں آکر کام کرے اس کے لئے غیر متنازعہ شخصیت کو سربراہی کے لئے تلاش کیا جا سکتا ہے قومی سطح پر بزنس کمیونٹی مطمئن نظر آ رہی ہے کہ نئی حکومت کی ترجیحات میں معیشت کی بحالی سرفہرست ہے اس سلسلہ میں انہیں نئے مالی سال کے بجٹ سے کافی زیادہ توقعات ہیں ہمارے خیال میں انہیں زیادہ توقعات اور خواہشات نہیں رکھنی چاہئے انہیں دعا کرنی چاہئے کہ کسی طریقے سے معاشی حالات کی بہتری کا آغاز ہو جائے اس وقت تو صورتحال یہ ہے کہ صرف انرجی سیکٹر کے بحران کی وجہ سے جی ڈی پی کا 2فیصد زائد نقصان ہو رہا ہے مجموعی طور پر اس وقت ملکی معاشی حالات ”خسارے “ کی صورتحال سے دوچار ہیں اس کے لئے ایک ایسے تھنک ٹینک کی ضرورت ہے جو صرف ”مستقبل کی حکمت عملی “ مرتب کرے اور ماضی کو بھول کر آگے بڑھنے کا راستہ دکھائے، اس سے روشن پاکستان کا خواب پورا ہو سکتا ہے اور جہاں تک ” خیالی جنت “ کا معاملہ ہے اس میں تو ہماری قوم سالہا سال سے چلی آ رہی ہے اب خیالی پلاؤ یا کاغذی منصوبوں کی نہیں عملی طور پر کچھ کرنے کی ضرورت ہے اس میں جمہوریت کا تسلسل برقرار رہ سکتا ہے اور اس سے قومی سطح پر ہمارا امیج بہتر ہو سکتا ہے کہ پاکستانی قوم اپنے آپ کو سدھارنے اور آگے بڑھنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔
تازہ ترین