• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اپنے گزشتہ کالموں میں، مَیں نے خدشہ ظاہر کیا تھا کہ چینی صدر کا مجوزہ دورۂ پاکستان مؤخر ہو سکتا ہے جو ایک بار اس سے قبل بھی مؤخر ہو چکا ہے۔ تکلیف دہ امر یہ ہے کہ چینی صدر کا دورۂ پاکستان ایک بار پھر موخر ہو گیا ہے۔ چین جیسے دوست ملک کے صدر کے دورے کا بار بار مؤخر ہونا کسی طور پر بھی نیک شگون نہیں جب کہ یہ بھی واضح رہے کہ چین کی بین الاقوامی حیثیت کی اہمیت بالخصوص پاکستان کے لئے مسلمہ ہے۔ سی پیک کے معاہدے کے بعد پاک چین دوستی نے ایک نئی جہت اختیار کی اور مفادات صرف علاقائی سطح پر جڑے نہیں رہے بلکہ اس کا تناظر بین الاقوامی ہو گیا ہے۔ خیال رہے کہ یہ صرف ایک معاشی معاہدہ ہی نہیں ہے بلکہ اس کی خاصیت اسٹریٹجک نوعیت کی ہے کیونکہ چین کا پاکستان سے تجارتی حجم چین کی مجموعی تجارت میں صرف زیرو اعشاریہ چار فیصد ہے۔ اس بات کا امکان موجود تھا کہ سی پیک کے کچھ منفی نتائج بھی پاکستانی صنعتوں پر پڑیں گے چنانچہ اس خطرے کو رفع کرنے کے لئے نواز شریف نے ذاتی طور پر اپنے چینی ہم منصب سے بات کی تھی اور دونوں ممالک کے درمیان دوسرا تجارتی معاہدہ ہوا تھا جس میں پاکستان کی 350اشیاء پر سے چین میں ٹیکس کو پاکستانی ضروریات کے مطابق کر دیا گیا تھا تاکہ اس معاہدے کے صرف ثمرات ہی ثمرات وطن عزیز کے حصے میں آئیں۔ سی پیک میں یہ طے شدہ تھا کہ یہ دونوں ممالک کے درمیان ایک ایسا معاہدہ ہوگا جس کو کسی بھی تیسرے فریق کے ساتھ شیئر نہیں کیا جائے گا مگر اس ضمن میں پہلا دھچکا اس وقت لگا جب 2019کے اوائل میں پاکستانی حکومت نے اس معاہدے کی تفصیلات کو آئی ایم ایف کے ساتھ شیئر کیا۔ دو طرفہ اعتماد متاثر ہوا کیونکہ جب یہ طے ہوا تھا کہ اس معاہدے کو کسی کے ساتھ شیئر نہیں کیا جائے گا تو پھر ایسا ہونا ایک سانحے سے کم نہیں ہے جس کا نقصان یہ ہوا کہ جب آئی ایم ایف نے اپنی شرائط تیار کیں تو ان کے سامنے سی پیک کی تمام تصویر موجود تھی لہٰذا انہوں نے پاکستان پر ایک خاص حد سے زیادہ کسی دوسرے ملک سے قرضہ لینے پر پابندی لگا دی۔ ایم ایل ون جو سی پیک کا سب سے بڑا پروجیکٹ ہے، اس کا قرضہ آئی ایم ایف کی عائد کردہ حد سے زیادہ ہے۔ چینی بینک قرضہ منظورہو چکا ہے جو کہ پاکستان کے مفاد میں ہے لیکن پاکستان کو آئی ایم ایف کی پابندیوں کا سامنا ہے اور ایم ایل ون منصوبہ اسی سبب کھٹائی میں پڑ گیا ہے۔ سونے پر سہاگہ یہ ہوا کہ جے سی سی جو کہ پاکستان اور چین کے مابین سی پیک کے حوالے سے فیصلہ سازی کا فورم ہے، غیرفعال کردیا گیا ہے جس کا ثبوت یہ ہے کہ نومبر 2019سے جی سی سی کا کوئی اجلاس سرے سے منعقد ہی نہیں ہوا، جب اجلاس ہی منعقد نہیں کیا گیا تو فیصلہ سازی اور دیگر معاملات پر مشاورت کیسے ممکن ہو سکتی ہے؟ سی پیک میں ایک اہم عنصر مختلف صنعتی زونوں کا قیام ہے۔ صنعتی زونوں کے قیام یا ان کے فعال ہونے کے لئے صنعتی پالیسی ایک لازمی عنصر ہے۔ صنعتی پالیسی کی عدم موجودگی کی صورت میں صنعتی زونوں کے فعال ہونے کا خیال ایک سراب کے سواکچھ بھی نہیں اور اس وقت صورتحال یہ ہے کہ صنعتی زون حقیقت میں سراب کا روپ دھار چکے ہیں اور اگر صنعتی زونوں کے معاملات جوں کے توں رہے تو صنعتی پالیسی کی عدم موجودگی کیا گل کھلائے گی؟ اس کو سمجھنے کے لئے بھارتی کسانوں کی موجودہ حالت سب سے بہتر کیس اسٹڈی ہے کہ جیسے وہ رُل رہے ہیں یہاں بھی ایسا ہی ہوگا۔ اسی لئے چین کے قونصل جنرل نے درست طور یہ پر نشاندہی کی ہے کہ پاکستان میں روز نئی پالیسی تشکیل پاتی ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ یہاں پالیسی کا تسلسل سرے سے موجود ہی نہیں اور بات صرف چینی قونصل جنرل کے بیان کی نہیں ہے بلکہ چینی وزیر خارجہ کے اس بیان کی بھی بہت اہمیت ہے جس میں انہوں نے ایک فون کال پر ڈھیر ہونے کا تذکرہ کیا۔ مبصرین کے مطابق اشارہ صرف پرویز مشرف کی طرف نہیں تھا بلکہ آئی ایم ایف کے سامنے سی پیک کے معاملے پر ڈھیر ہونا بھی اس میں شامل ہے۔ خیال رہے کہ ایران اور چین کے مابین ہوئے حالیہ معاہدے میں بھی یہ شامل ہے کہ یہ معاہدہ کسی اور کے ساتھ شیئر نہیں ہوگا۔ ایران اور چین کے درمیان ہونے والے حالیہ معاہدے کو صرف چین کی کامیاب سفارتکاری کے طور پر نہیں دیکھنا چاہئے بلکہ ایران کی مضبوط سفارتکاری کے ایک ستون کے طور پربھی اس معاملے کو سمجھنا چاہئے، دنیا میں ایران نے اس کے ذریعے واضع پیغام بھیجا ہے کہ وہ عالمی منظر نامے میں تنہائی کا شکار نہیں ہے۔ علاقائی طور پر قطر، کویت، مسقط، لبنان، شام اور عراق سے اپنے اچھے تعلقات قائم کرکے وہ دنیا کو یہ پیغام پہلے بھی دے چکا ہےپھر جب امریکہ جوہری معاہدے سے باہر آ گیا تو بھی یورپ نے معاہدے کو نہیں توڑا اور اب تو امریکہ بھی مذاکرات کی جانب راغب ہو چکا ہے مگر ہمارے یہاں صورتحال یہہے کہ قطر کی سرمایہ کاری کے آگے سرخ فیتہ لگا دیا گیا ہے اور ان کے موجودہ سفیر کی کوشش کے باوجود بات کو آگے نہیں بڑھنے دیا جارہا حالانکہ وہ امیرِ قطر کے قریبی عزیز اور اپنے والد کے زمانے سے کراچی میں ذاتی رہائش رکھتے ہیں۔ ان تمام عوامل سے فائدہ اٹھانے کی بجائے بس ٹس سے مس نہ ہونے کی پولیسی پر عمل کیا جا رہا ہے۔ نئی صورت حال یہ بھی ہے کہ امریکہ بھی پاکستان کے لئے ایک اقتصادی پیکیج پر گفتگو کرنا چاہ رہا ہے مگر اس کی خواہش ہے کہ اس اقتصادی پیکیج کی قیمت کے طور پر پاکستان وہی کردار ادا کرے جو ماضی میں سوویت روس کے معاملے میں ادا کر چکا ہے۔ اب امریکا کے لئے نیا سوویت روس کون ہے؟ یہ معاملہ بالکل صاف ہے۔

تازہ ترین