چیف آف آرمی سٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ کی زیر صدارت انعقاد پذیر ہونے والی 240ویں’’کور کمانڈر کانفرنس‘‘ میں کشمیری بھائیوں کی حق خود ارادیت کی جدوجہد میں کشمیری بھائیوں کیساتھ مکمل حمائیت اور ان سے اظہار یکجہتی کا اظہار کیا گیا۔ دیگر امور کے علاوہ ڈی جی ایم اوز کے مابین مشرقی بارڈر/ایل او سی پر ہونیوالے سیز فائیر معاہدے پر عملدرآمد کیساتھ ساتھ لائن آف کنٹرول کی صورتحال پر بھی تفصیلی تبادلہ خیال کیا گیا ۔
گزشتہ چند ہفتوں سے یہ تاثر بھی ابھر رہا تھا کہ مسئلہ کشمیر کو سرد خانے میں ڈال کر بھارت سے کاٹن، چینی اور آلو پیاز درآمد کرنے اور بالخصوص یوم پاکستان کے موقع پر بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کے اچانک محبت بھرے خط اور جوابی خط سے ریاست جموںو کشمیر میں عوامی سطح پر گہری تشویش پائی جا رہی تھی کہ کہیں پاکستان کشمیریوں کی وکالت سے دستبردار تو نہیں ہوگیا۔
سنجیدہ کشمیری حلقو ں کا یہ بھی کہنا تھا کہ پاکستان دشمن قوتیں پاکستان کو مقبوضہ کشمیر کے حوالے سے اس کے اصولی موقف سے پسپائی اختیار کرنے پر مجبور کرنے کی سازشوں میں کامیابی کیصورت میں کل یہ مطالبہ نہ کر دیں کہ مسئلہ کشمیر سرد خانے میں جانے کے بعد پاکستان کو اپنے پاس اٹیم بم رکھنے کا کیا جواز ہے؟
ایسے سازش کاروں کیلئے پاکستان کا اٹیمی قوت ہونا اور افواج پاکستان کا بطور ادارہ مضبوط ہونانا قابل ہضم ہے۔ اس کور کمانڈر کانفرنس میں نئے سرے سے حق خود ارادیت کے مطالبے سے جہاں زخم خوردہ کشمیریوں کے مورال بلند ہوئے ہیں وہاں یہ بات واضح ہوگئی ہے کہ مسئلہ کشمیر بھلایا نہیں گیا جو کہ ایک اہم ترین پیشرفت ہے۔
کچھ کشمیریوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ پاکستان کے بہترین مفاد میں پاکستانی فوج کشمیر ایشو کے پر امن حل میں مخلص ہے ۔ اگر بہادر مسلح افواج پاکستان کا جاندار کردار نہ ہوتا تو بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کی کشمیر پالیسی کو نظر انداز کرتے ہوئے سیاستدان کب سے مسئلہ کشمیر کو آلو پیاز کی تجارت کے عوض اس سے جان چھڑا چکے ہوتے۔ وطن عزیز پاکستان جسطرح کی اندرونی و عالمی سازشوں کا شکار ہے ۔ اس سے نبرد آزما ہونے کیلئے مسلح افواج پاکستان کا مضبوط تر ہونا پاکستان کی سلامتی اور مسئلہ کشمیر کے منصفانہ حل کیلئے اشد ضروری ہے۔
اس تناظر میں اپوزیشن لیڈر آزاد جموںو کشمیر قانون ساز اسمبلی چوہدری محمد یاسین کا کہنا ہے کہ پلوامہ اور شوپیاں میں قابض بھارتی افواج کی جانب سے محاصرے کے دوران 7کشمیریوں کو شہید کرنے پر عالمی برداری کی قبرستان ایسی خاموشی لمحہ فکریہ ہے۔ حکومت پاکستان نے بھارتی مظالم کو دنیامیں بے نقاب کرنے کی بجائے۔۔۔ بھارت سے تجارت کرنے کی منظوری دی جاتی ہے اور پھر اچانک ہوش آجاتا ہے۔ PTIحکومت کی پالیسیوں کیوجہ سے دنیا میں ہمارا مذاق اڑایا جا رہا ہے ۔ قائداعظم محمد علی جناح نے کشمیر کو پاکستان کی شہہ رگ قرار دیا تھا اور آج شہہ رگ بھارت کاٹ رہا ہے اور ہم خاموش ہیں ۔ 5اگست کے بعد اقوام متحدہ میں ایک تقریر کرکے یہ سمجھ لیا گیا کہ فرض ادا ہوگیا۔
حکومت پاکستان کو بھارتی مظالم کو بے نقاب کرنے اور سلامتی کونسل کی قردادوں پر عملدرآمد کروانے کیلئے جارحانہ سفارتی مہم چلانی چاہیے۔ورنہ کشمیریوں میں مایوسی پھیل گئی تو اس کے خطرناک نتائج نکلیں گے ۔ اپوزیشن لیڈر چوہدری محمد یاسین نے حقیقی معنوں میں کشمیریوں کی نمائندگی کی ہے۔ جب تک کشمیریوں کی خواہشات اور اقوام متحدہ کی قرادادوں کیمطابق مسئلہ کشمیر حل نہیں ہوتا تب تک پاکستان اور بھارت کے تعلقات بحال اور دائمی امن کا قیام عمل میں نہیں آسکتا ۔ دوسری جانب برطانیہ کی جانب سے پاکستان کو ریڈ لسٹ میں ڈالے جانے سے آزاد کشمیر کی میرپور ڈویژن میں آئے ہزاروں تارکین وطن شدید مشکلات کا شکار ہوگئے ہیں۔
قومی ائیر لائن کے ٹکسٹس کی عدم دستیابی اور کرایوں میں کئی سو گنا اضافے جبکہ برطانیہ کی جانب سے 8اپریل کے بعد برطانیہ واپس پہنچنے والوں کیلئے 1700پائونڈز خرچ کرکے 10روز تک قرنطینہ ہونے کی پابندی اور PTAکی جانب سے کورونا وائرس کیوجہ سے تارکین وطن کی واپسی میں 2ماہ سے زائد تاخیر پر موبائل فونز کی بندش و ہزاروں روپے ٹیکس وصولی کی ڈیمانڈ نے وطن عزیز کی ہر مشکل وقت میں مدد کرنے والے تارکین وطن سے سوتیلی ماں جیسا سلوک کہیں انھیں دوبارہ وطن آنے سے متنفر نہ کر دے۔
برطانیہ میں بھی اس فیصلے کے رد عمل میں 50سے زائد ممبران برٹش پارلیمنٹ نے وزیراعظم ’’بورس جانسن‘‘ ، وزیر خارجہ ’’ڈومینیک راب‘‘ ، سیکرٹری صحت ’’میتھیو ہنکاک ‘‘ اور سیکرٹری داخلہ ’’پریتی پٹیل ‘‘ سے وضاحت طلب کرتے ہوئے پالیسی واضح کرنے اور پاکستانی کشمیری کمیونٹی کو درپیش مشکلات کو دور کرنے و سفری سہولیات کیلئے لائحہ عمل مرتب کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
آل پارٹیز کشمیر پارلیمنٹری گروپ کی چیر پرسن ڈیبی ابراہیم، MPجیمز ڈیلی، MPاینڈریو، MPرحمان چشتی، MPاشنار اعلی، MPلیام برینے، MPٹریسی برابن، MPریچن برگسی اور دیگر نے خطوط لکھ کر حکومت سے وضاحت طلب کر لی جبکہ پارلیمنٹری گروپ برائے پاکستان کی چیر پرسن MPیاسمین قریشی کے خط پر 50ممبران پارلیمنٹ نے دستخط کیے اور مطالبہ کی ہمائیت کی ۔
اس حوالے سے اوورسیز کشمیریوں راجہ وقار علیخان ، راجہ امداد علی ، چوہدری قمر الزمان ، شکیل احمد ، مظہر اقبال ، تنویر ناز و دیگر کا کہنا ہے کہ حکومت پاکستان بھی اپنے شہریوں کی مشکلات پر خاموشی تماشائی بنی ہوئی ہے۔ حکومت پاکستان سفارتی سطح پر برطانیہ سے رابطہ کرکے اوورسیز پاکستانیوں اور کشمیریوں کو اس مشکل سے نکالنے اور یہاں آئے ہوئے شہریوں کی برطانیہ واپسی کیلئے قومی ائیر لائن کے ایجنٹوں کو لوٹ مار سے روکنے کے علاوہ جہازوں کا معقول انتظام کرے۔