چیئرمین پیپلزپارٹی بلاول بھٹو زرداری اور سابق صدرآصف زرداری کی سربراہی میں پیپلزپارٹی کی سینٹرل ایگزیکیٹو کمیٹی کے ہائبرڈ اجلاس میں پی ڈی ایم کے شوکازنوٹس کا معاملہ زیربحث لایا گیا۔ بلاول بھٹو نے شرکا کو شاہد خاقان عباسی کا شوکاز نوٹس پڑھ کر سنایا۔ بلاول بھٹو نے سی ای سی اجلاس میں شاہدخاقان عباسی کے شوکاز نوٹس کو پھاڑ کر پھینک دیا، نوٹس پھاڑے جانے پر سی ای سی کے شرکاء کی جانب سے تالیاں بجائی گئیں۔ اس موقع پر بلاول نے کہا کہ ہم سیاست عزت کے لیے کرتے ہیں، عزت سے بڑھ کر ہمارے لیے کچھ نہیں ہے۔
اجلاس میں پی ڈی ایم کی جانب سے استعفوں کی تجویزاور مستقبل کی حکمت عملی پر بھی بات چیت کی گئی۔ سابق وزیراعظم یوسف رضاگیلانی نے اجلاس میں پارٹی کو سینیٹ میں اپوزیشن لیڈر کے عہدے سے مستعفی ہونے کی پیشکش کردی اور کہا کہ اگر پارٹی سمجھتی ہے تو میں ابھی مستعفی ہونے کو تیار ہوں، میرے لیے عہدہ کوئی معنی نہیں رکھتا، ہم نے جمہوریت کے لیے جانیں اور قربانیاں دی ہیں، پیپلزپارٹی پر ایسے الزامات نہیں لگائے جاسکتے ہیں جن میں کوئی حقیقت نہ ہو۔ اجلاس کے شرکاء نے یوسف گیلانی سے کہاکہ آپ نے اصولوں کی خاطروزیراعظم کی کرسی کوٹھوکر ماردی تھی آپ کو مستعفی ہونے کی کوئی ضرورت نہیں ، پوری پارٹی آپ کے ساتھ کھڑی ہے۔
بعدازاں بلاول بھٹو نے میڈیا پر بریفنگ دیتے ہوئے کہاکہ شوکازنوٹس کی کوئی تک نہیں بنتی تھی پی پی پی ،پی ڈی ایم کے تمام عہدوں سے مستعفی ہونے کا اعلان کرتی ہے ہم وفاق اور صوبوں میں اپوزیشن کرتے رہیں گے،اپوزیشن کے خلاف اپوزیشن جاری ہے ہمارا موقف تھا کہ استعفوں کو آخری آپشن کے طور پر استعمال کیا جائے ہمارے یہ موقف درست ثابت ہوااوراب بھی ہمارا یہی موقف ہے جس کو استعفی دینا ہے وہ استعفی دے دے لیکن دوسری سیاسی جماعتوں کو ڈکیٹیٹ نہ کرے۔
ادھر کراچی کےحلقہ این اے 249 میں انتخابی سرگرمیاں عروج پر ہیں مسلم لیگ(ن) ، پی ٹی آئی، تحریک لبیک، پارک سرزمین پارٹی، پی پی پی ، مسلم لیگ فنکشنل اور ایم کیو ایم حلقے میں سرگرم ہیں الیکشن کمیشن نے ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی پر پی ٹی آئی کے کئی وزراء کو شوکازنوٹس بھی دیئے ہیں جبکہ سینیٹر فیصل واڈا کو حلقہ بدر بھی کیا ہے۔
مسلم لیگ(ن) کو جے یو آئی، اے این پی کی حمایت حاصل ہے۔ بظاہر مسلم لیگ(ن) کے امیدوار مفتاح اسماعیل کی پوزیشن بڑی جماعتوں کی حمایت کی بدولت بہترنظرآرہی ہے تاہم پیپلزپارٹی کی مخالفت یا ووٹ کی تقسیم تحریک انصاف یا کسی دوسری جماعت کے لیے بھی سودمندثابت ہوسکتی ہے۔ اے این پی اور جے یو آئی اپنے اپنے امیدوار دستبردار کرچکی ہیں۔سیاسی تجزیہ کار ڈسکہ کے بعد اس حلقے کو اہم ترین قرار دے رہے ہیں جہاں مرکز اور صوبے کی تمام جماعتیں پوری طاقت کے ساتھ میدان میں اترچکی ہیں۔
این اے 249 کاجائزہ لیں تو پی ڈی ایم سے ناراض پیپلزپارٹی میدان میں بھی ہے اور اس کے امیدوار کی مہم زورشور سے جاری ہے، اس حلقے میں تحریک انصاف اور نون لیگ اہم جماعتیں اس لیے ہیں کیونکہ 2018 کے انتخابات میں پی ٹی آئی کے امیدوار فیصل واڈا نے یہاں سے کامیابی حاصل کی تھی جبکہ مسلم لیگ(ن) کے صدر میاں شہبازشریف کو محض 723ووٹ کے فرق سے شکست سے دوچار ہونا پڑا تھا۔
اس حلقے کی ایک اور خاص بات یہاں کم وبیش تین سے چار جماعتوں کا بھاری ووٹ بینک ہے۔2018 کے انتخابات میں این اے 249 سے پی ٹی آئی کے فیصل واڈا نے 35349 ، مسلم لیگ(ن) کے شہبازشریف نے 34626 اور ٹی ایل پی کے عابدحسین نے 23981 ووٹ حاصل کئے تھے۔ گزشتہ عام انتخاب میں جے یو آئی نے دینی جماعتوں کے اتحاد ایم ایم اے پلیٹ فارم سے انتخابات میں حصہ لیا تھا اور 10307ووٹ حاصل کیے تھے اس سے اکیلی پارٹی کے ووٹ کااندازہ لگانا مشکل ہے۔
پیپلزپارٹی کے امیدوار ماضی میں بھی موجودتھے اورانہوں نے 7236ووٹ حاصل کئے تھے جو جیت کے لیے تو بہت کم مگر دوسرے امیدوار کوہرانے کے لیے خاصے ووٹ ہیں۔حلقے میں ایم کیو ایم اور پی پی پی کے ووٹ بٹتے نظرآرہے ہیں جبکہ مسلم لیگ(ن)اور پی ٹی آئی کے لیے تحریک لبیک بڑا چیلنج بن سکتی تھی تاہم اس کے ووٹ بھی سنی تحریک کے ایک گروپ کے سبب بٹتے نظرآرہے ہیں اس حلقے سے جماعت اسلامی نے حصہ نہیں لیا ہے جماعت اسلامی کراچی کے امیرحافظ نعیم کا کہنا ہے کہ اگر ہم اس حلقے سے انتخاب میں حصہ لینے تو ہماری توجہ حلقے کے انتخاب جیتنے پر مرتکزہوجاتی جبکہ اب ہم حقوق کراچی کے حوالے سے تحریک چلارہے ہیں۔
ادھر وزیراعلیٰ سندھ نے میگاپروجیکٹس کی پیش رفت کاجائزہ لینے سے متعلق اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے کہاکہ انکی حکومت نے شہر میں 5.78 ارب روپے کے 20 میگا منصوبے شروع کیے ہیں ان میں سے 10 منصوبے مکمل ہوچکے ہیں جبکہ باقی 10 منصوبے جس پر 1.78 ارب روپے لاگت آئے گی وہ مالی سال کے اختتام تک ترجیحاتی بنیادوں پر مکمل ہوجائیں گے۔ انھوں نے کہا کہ میں کراچی ڈویلپمنٹ اتھارٹی کو بیل آؤٹ پیکیج دے کر اور مزید توانائی و وسائل کے حامل منصوبے بناکر مضبوط بنانا چاہتا ہوں۔
وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ انہوں نے فلائی اوور اور انڈر پاسز کی تعمیر سے ٹریفک کی آمدورفت کو سہل بنانے اور برسات کے پانی کے خستہ حال نالوں کی تعمیر نو اور پانی کی نئی لائنیں بچھانے کیلئے ضلع غربی میں پانی کی فراہمی کیلئے شہر میں 5.78 ارب روپے کی اسکیمیں شروع کیں۔ انہوں نے کہا کہ مجھے آج خوشی ہے کہ 20 اسکیموں میں سے 10 بڑی اسکیمیں مکمل ہوچکی ہیں اور باقی نئی بڑی اسکیمیں آئندہ مالی سال شروع کی جائیں گی۔
مکمل شدہ اسکیموں میں 2.2 ارب روپے کی لاگت سے ۔ وزیراعلیٰ سندھ نے وزیر بلدیات سید ناصر شاہ کو ہدایت کی کہ وہ جاری اسکیموں کی پیشرفت پر ذاتی طور پر نگرانی کریں اور انہیں رپورٹنگ کرتے رہیں۔ مراد علی شاہ نے یہ بھی کہا کہ وہ کے ڈی اے کو مالی مستحکم بنانے کیلئے بیل آؤٹ پیکیج دیں گے ۔ انہوں نے وزیر بلدیات ناصر شاہ کو ہدایت کی کہ وہ بیل آؤٹ پیکیج کیلئے اپنی سفارشات پیش کریں اور کے ڈی اے کو ایک مستحکم ادارہ بنائیں۔