• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) پر پابندی کے حوالے سے وزیر داخلہ سمیت حکومتی حلقوں کا کہنا ہے کہ اس فیصلے کی وجہ کوئی سیاسی دبائو نہیں بلکہ مذکورہ تنظیم کا ’’کردار‘‘ ہے۔ وزیر داخلہ شیخ رشید احمد کا حکومتی فیصلے کے حوالے سے بیان بدھ کے روز اس پس منظر میں آیا کہ ٹی ایل پی کے سربراہ سعد حسین رضوی کی گرفتاری کے خلاف ملک کے مختلف شہروں میں کئے گئے احتجاج کا تیسرا دن تھا اور مختلف علاقوں میں جگہ جگہ دھرنوں، رکاوٹوں، پتھرائو کے ذریعے شہری زندگی درہم برہم کی جا چکی تھی۔ وزیر داخلہ کے دعوے کے بموجب قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں کے اغوا سے لیکر حملوں تک کے واقعات رونما ہو چکے تھے، دو اہلکاروں سمیت نصف درجن افراد جاں بحق اور 580زخمی ہو چکے تھے۔ متعدد ایمبولینسوں کے روکے جانے کے باعث مریضوں کو اذیت ناک صورتحال سے گزرنا پڑا اور کورونا کی صورتحال میں آکسیجن گاڑیوں کو بھی نہیں جانے دیا گیا۔ ٹی ایل پی کا دعویٰ ہے کہ اس کے 700کارکن گرفتار اور ایک ہزار سے زیادہ زخمی ہوئے ہیں۔ مذکورہ تنظیم پر پابندی لگانے کا فیصلہ پنجاب حکومت کی سفارش پر انسداد دہشت گردی ایکٹ 1997کے تحت کیا گیا اور سمری کابینہ کو بھجوا دی گئی۔ بدھ کی رات تک قانون نافذ کرنے والے اداروں کی مشترکہ کارروائی کے نتیجے میں صورت حال معمول پر محسوس ہونے لگی اور خاصی تعداد میں گرفتاریاں عمل میں لائی جا چکی تھیں۔ وزیراعظم عمران خان کا سرگودھا میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا کہ ہنگاموں اور تشدد کے واقعات سے شہریوں کو تحفظ دینا اور ریاستی عملداری قائم کرنا مملکت کی ذمہ داری ہے اور اسی بنا پر عوام اور ملک کے وسیع تر مفاد میں تحریک لبیک پاکستان پر پابندی لگائی گئی ہے۔ جہاں تک فرانس میں گستاخانہ خاکوں کی اشاعت کے بعد حکومت پاکستان کے ردعمل کا تعلق ہے وہ اقوامِ متحدہ میں وزیراعظم کی تقریر سمیت ان کے متعدد بیانات اور عالمی رہنمائوں سے رابطوں میں عیاں ہے۔ تحریک لبیک نے سڑکوں پر آ کر فرانس سے سفارتی تعلقات توڑنے کا مطالبہ کیا تو حکومت نے پارلیمنٹ کے ذریعے اس معاملے کا اطمینان بخش حل نکالنے کا ٹی ایل پی سے معاہدہ کر لیا جس پر عملدرآمد میں تاخیر پر تحریک لبیک نے 20اپریل تک کا الٹی میٹم دیا مگر بعض سرگرمیوں کی مبینہ اطلاعات سامنے آنے کی بنا پر حکومت نے تحریک لبیک کے سربراہ کوعجلت میں گرفتار کر لیا۔ بعد ازاں پیدا ہونے والی صورتحال ایسے مقام پر نظر آ رہی ہے جہاں تک نہ پہنچتی تو اچھا تھا۔ وزیر داخلہ کا کہنا ہے کہ ’’ہم اتفاق رائے سے قومی اسمبلی میں ایسی قرارداد پیش کرنا چاہتے تھے جس سے دنیا کو اچھا پیغام ملے لیکن تحریک لبیک کے رہنمائوں نے ریاستی معاملات کو ملحوظ خاطر نہیں رکھا۔وہ ایسا مسودہ چاہتے تھے جس سے دنیا کو پاکستان کے انتہا پسند مملکت ہونے کا تاثر جائے۔ ایسے عالم میں، کہ بعض قوتیں پاکستان کو فیٹف سمیت مختلف فورموں اور سطحوں پردہشت گردی کی اعانت کرنے والے اور غیرمحفوظ ملک کے طور پر پیش کرنے کیلئے کوشاں ہیں وزیر داخلہ کا موقف حقیقت سے قریب محسوس ہوتا ہے مگر داخلی و خارجی معاملات سے نمٹنے میں احتیاط کے تقاضوں کو بہر طور ملحوظ رکھا جانا چاہئے۔ تحریک لبیک سے معاملہ جس پارلیمنٹ میں لے جانے کا سمجھوتہ کیا گیا، اس کا اہم اور ناگزیر حصہ حزب اختلاف بھی ہے جس سے ’’خاص امور‘‘ کے باوجود اچھی ورکنگ ریلیشن شپ رکھی جا سکتی تھی اور رکھی جانی چاہئے۔ کیا ہی اچھا ہو کہ اس باب میں وزیراعظم عمران خان پہل کاری کرتے ہوئےباہمی صلاح مشورے کاآغاز کریں۔ اختلافی معاملات اپنی جگہ، ملکی امور متقاضی ہیں کہ حکومت اور اپوزیشن بہتر تعلقات کار کی فضا میں مل کرکام کریں۔

تازہ ترین