• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پولیس خاوند اور بھائی کی جان لینے کے بعد خاندان بھر کی دشمن ہو گئی

راولپنڈی (سٹاف رپورٹر) راولپنڈی پولیس میرے خاوند اور بھائی کی جان لینے کے بعد میرے خاندان کے دیگر مردوں کی جان کے درپے ہو گئی ہے۔ ہمیں آئے دن ہراساں کیا جا رہا ہے، پولیس والے جب چاہتے ہیں میرے گھر میں آ گھستے ہیں، مجھے اور میرے بچوں کو ننگی گالیاں بکتے اور جان سے مارنے کی دھمکیاں دے رہے ہیں۔ پولیس میرے گھر سے نقدی، زیورات اور دیگر سامان بھی اٹھا کر لے گئی ہے‘ کوئی ان کو روکنے ٹوکنے والا نہیں۔ پولیس نے ہماری زندگیاں اجیرن بنا دی ہیں، مجھے بیوہ اور بے آسرا کرنے کے بعد پولیس ہم سے مزید کیا انتقام لینا چاہتی ہے۔ ان خیالات کا اظہار مبینہ پولیس مقابلوں میں جاں بحق ہونے والے چوہدری زاہد محمود کی بیوہ اور شاہد کی ہمشیرہ شاہدہ چوہدری نے جنگ کے دفتر آ کر کیا۔ شاہدہ نے بتایا کہ 12مارچ کو اسے معلوم ہوا کہ پولیس اسکے بھائی شاہد اور ناصر کو اٹھا کر لے گئی ہے اور تھانہ سول لائن میں ان پر تشدد کیا گیا اور اسکے بھائی شاہد کو مار دیا گیا اور بعد میں ایک جعلی پولیس مقابلہ بنایا گیا۔ بعدازاں پولیس نے اسکی لاش اسکے آبائی چک باقر شاہ چکوال لے جا کر اسے دفنا دیا گیا اور بعدازاں الزام لگایا کہ شاہد اور میرے خاوند چوہدری زاہد نے میاں عمران انسپکٹر کو قتل کیا۔ حالانکہ اس بارے انکے پاس نہ تو کوئی شہادت تھی اور نہ کوئی ثبوت تھا۔ اسی دوران پولیس افسران اور چالیس پچاس پولیس ملازمین سائلہ کے گھر واقع حاجی جان سٹریٹ زبردستی داخل ہوئے اور گھر میں توڑ پھوڑ کی اور گھر سے نقدی، طلائی زیورات وغیرہ اٹھا کر لے گئے۔ پورچ میں کھڑی اپلائیڈ فار گاڑی توڑ دی، مجھے تشدد کا نشانہ بنایا، میری بیٹی اور مجھے گالیاں دیں اور گھر سے تمام ضروری کاغذات، رجسٹریاں اور موبائل فون وغیرہ اٹھا کر لے گئے۔ اس دوران انہوں نے دھمکی دی کہ چوہدری زاہد کو پیش کرو ورنہ تمہارے سامنے بچوں کو قتل کر دیں گے۔ پولیس کی دہشت سے پریشان ہو کر میں اپنے دیور شاہد کے گھر پناہ لینے پر مجبور ہو گئی ہوں لیکن پولیس نے وہاں بھی ریڈ کیا اور گھر میں توڑ پھوڑ کی لہٰذا میں نے ہارلے سٹریٹ میں اپنی سہیلی کے گھر پناہ لی۔ 22مارچ کو ایس ایچ او کینٹ اعزاز، ایس ایچ او آر اے بازار آصف، ایس ایچ او سول لائن احسن وغیرہ پولیس افسروں اور ملازمین کے ہمراہ گھر کے اندر داخل ہو گئے اور میرے نابالغ بیٹے عبید کو زبردستی اٹھا کر لے گئے اور اس پر تشدد کیا اور بعدازاں میرے شوہر چوہدری زاہد کو بھی پولیس نے مار دیا اور ایک اور جعلی پولیس مقابلہ بتاتے ہوئے اس کی میت میراں کلاں لے جا کر دفنا دی۔ چوہدری زاہد کی بیوہ نے الزام لگایا کہ پولیس نے ظلم کی انتہا کر دی ہے اور میرے بھائی ناصر کیخلاف منشیات برآمدگی کا جعلی مقدمہ بنا دیا ہے اور اس پر ساڑھے چار کلو چرس ڈال کر اسے جیل بھجوا دیا ہے حالانکہ وہ باالکل بیگناہ ہے، اس کا جرم صرف یہ ہے کہ وہ میرا بھائی ہے اور دوسرا وہ اپنے مقتول بھائی شاہد کو پولیس کے ہاتھوں اٹھائے جانے کا چشم دید گواہ ہے۔ پولیس ہم پر ظلم کر کے اپنے خلاف تمام شہادتیں ختم کرانا چاہتی ہے۔ شاہدہ چوہدری نے کہا کہ کیا یہ اسلامی جمہوری پاکستان ہے جس میں نہ تو کسی بہن بیٹی کی عزت کا خیال رکھا جاتا ہے اور نہ قانون کی پاسداری ہے، اگر میرا بھائی اور خاوند میاں عمران کے قتل میں ملوث تھے تو ان کیخلاف قانون کے مطابق کارروائی کر کے سزا دلواتے، اب میں اپنے معصوم بچوں کو لیکر کہاں جائوں، پولیس میرے دوسرے بھائی اور خاندان کے دیگر مردوں کو بھی پکڑنا چاہتی ہے، اور ہمیں تنگ کر رہی ہے۔ گزشتہ جمعرات کی شب بارہ بجے سب انسپکٹر عثمان اور دیگر پولیس والے زبردستی ہمارے گھر میں داخل ہوئے، ہمیں ڈرایا دھمکایا، گالیاں دیں اور دھمکیاں دیں کہ عورتوں کو بھی لے جائیں گے۔ پولیس والے گھر سے لیپ ٹاپ اور 22ہزار روپے بھی لے گئے۔ شاہدہ نے چیف جسٹس آف پاکستان اور انسانی حقوق کی وفاقی وزیر شیریں مزاری سے مطالبہ کیا ہے کہ انکی دادرسی کی جائے اور انہیں پولیس کی زیادتیوں سے نجات دلائی جائے۔
تازہ ترین