• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میں نے عزیر احمد سے کہا ’’میں سفرِ آخرت پر روانہ ہو رہا ہوں‘‘ اس نے فوراً کہا ’’میں بھی آپ کے ساتھ جائوں گا‘‘ میں نے جواب دیا ’’اس دفعہ نہیں‘‘ بولا ’’آپ کے گھٹنے خراب ہیں، جہاز میں سیڑھیاں بھی چڑھنا ہوں گی، آپ کو سہارا کون دے گا؟‘‘ میں نے کہا ’’فکر نہ کرو، اس دفعہ انتظامات مکمل ہیں، نہ سیڑھیاں چڑھنا پڑیں گی، نہ چلنا پڑے گا بلکہ وہیل چیئر کی ضرورت بھی نہیں پڑے گی‘‘۔ عزیر نے جب حیرت سے مجھے دیکھا تو میں سمجھ گیا کہ وہ اُلجھن کا شکار ہو گیا ہے۔ چنانچہ میں نے زیادہ دیر اسے اُلجھن میں مبتلا رکھنے کی بجائے کہا ’’یار بات یہ ہے کہ میں نے آج فوت ہو جانا ہے، چنانچہ وہیل چیئر وغیرہ کی بجائے صرف ایک چارپائی کی ضرورت پڑے گی‘‘ عزیر بولا ’’ایک نہیں دو، میں نے بھی آپ کے ساتھ جانا ہے‘‘ میں نے کہا ’’یار اللہ تمہیں لمبی زندگی دے، ابھی تمہارے اس سفر کی باری بہت دور ہے‘‘۔ وہ صبح کی فلائٹ سے ہیوسٹن سے لوٹا تھا چنانچہ چودہ گھنٹے کی مسلسل فلائٹ کی وجہ سے اس کا دماغ گھوما ہوا تھا، جب اسے کچھ ہوش آیا تو اسے میری بات کی سمجھ آئی اور سخت مغموم ہو گیا۔ تاہم ابھی کچھ کسر باقی تھی، بولا ’’آپ کے گھنٹوں میں درد رہتا ہے، قبرستان تک کیسے جائیں گے؟‘‘ میں نے ہنستے ہوئے کہا ’’اوئے گائودی تمہیں مسجد سے چارپائی جو لانے کا کہا ہے۔ چار دوست کاندھوں پر اٹھا کر لے جائیں گے۔ تم بھی کاندھا دے لینا!‘‘ اس کے بعد میں نے اس کے چہرے کی طرف نہیں دیکھا۔

نمازِ جنازہ کے بعد قبر کی کھدائی کے دوران میرے دوست دو دو، چار چار کی ٹکڑیوں میں کھڑے میری تعریف میں کچھ جملے کہہ رہے تھے، ایک دو منٹ میں میری تعریف میں مزید کچھ کہنے کے لئے باقی نہ رہا تو ایک دوست بولا ’’یار اپوزیشن تو ان دنوں ایک دوسرے کی اپوزیشن کا کردار ادا کر رہی ہے‘‘ دوسرے نے کہا ’’حکومتی جماعت میں بھی یہی صورتحال ہے‘‘ تیسرے دوست جس کی شیو بڑھی ہوئی تھی اور وہ تازہ تازہ عشق میں ناکام ہوا تھا، گویا ہوا ’’کون کسی کا ہمیشہ ساتھ دیتا ہے، بس یہ وعدے وعید ہی ہوتے ہیں‘‘ میرا ایک دوست جو غیرجانبداری کا دعویدار ہے بولا ’’تم سب ٹھیک کہتے ہو مگر یاد رکھو، یہ ملک سیاستدان سنبھال ہی نہیں سکتے‘‘ میرا ایک پاگل سا دوست یہ سن کر بھڑک اٹھا اور بولا ’’خبردار اگر اس سے پہلے مسئلے کا وہ حل بتایا جس کے نتیجے میں آج تک سارے مسائل پیدا ہوئے ہیں‘‘ اس سے آگے کی گفتگو میں نہیں سن سکا کیونکہ منکر نکیر سے میرے سوال جواب شروع ہو گئے تھے۔ ان میں سے ایک نے مجھے ڈانٹتے ہوئے کہا ’’ہمارے سوالوں کا دو ٹوک جواب دو، یہاں تم کمرۂ امتحان میں ہو، کالم نہیں لکھ رہے!‘‘

اس کے بعد میں ایک وسیع و عریض میدان میں کھڑا تھا، یہ منکر نکیر سے مکالموں کے کروڑوں سال بعد کی بات ہے۔ یہاں کا احوال بیان کرنے کا فائدہ ہی کوئی نہیں کیونکہ اتنا طویل ہے کہ اسے کوئی پڑھنے والا شاید اگلے جہان ہی میں پڑھ سکے گا چنانچہ قصہ مختصر اس میدان میں ارب ہا لوگ کھڑے تھے اور سب گھبرائے ہوئے تھے، صرف ایک میں تھا جو ان کی گھبراہٹ دیکھ کر مسکرا رہا تھا کہ مجھے اپنے انجام کا پتہ تھا۔ سامنے دو دروازے نظر آ رہے تھے، ایک کے باہر جنت اور دوسرے کے باہر دوزخ کا داروغہ کھڑا تھا۔ دوزخ کے داروغے نے مجھے پہچان لیا اور سب سے پہلے بلا لیا۔ میں نے پوچھا ’’برادر تم نے مجھے کیسے پہچان لیا؟‘‘ بولا ’’میں تمہارا ریڈر ہوں اور کب سے تمہاری آمد کا منتظر تھا‘‘ اس سے کوئی آدھ پون گھنٹہ گفتگو ہوئی، پھر اس نے پریشانی کے عالم میں جنت کے داروغے کو پکارا اور کہا ’’یہ پتہ نہیں کیا انٹ شنٹ کہہ رہا ہے، تم اسے سنبھالو‘‘ جنت کے فرشتے نے بھی آدھ پون گھنٹے کی گفتگو کے بعد مجھے جنت کی طرف دھکا دیا اور کہا ’’فی الحال تم جنت میں جائو، تمہاری الجھی ہوئی باتوں سے لگتا ہے کہ تمہارا کیس بہت الجھا ہوا ہے، ہم بعد میں تمہارے بائیں اور دائیں بیٹھے تمہاری نیکیاں اور خباثتیں نوٹ کرنے والے فرشتوں سے تمہارا کیس ڈسکس کر کے ﷲ کے حضور پیش کریں گے‘‘۔

جنت کیا تھی، بس یوں سمجھ لیں کہ جنت ہی تھی۔ میں نے ایک حور کو بلایا وہ اللہ جانے کیا سمجھ رہی تھی، میں نے اسے کہا کہ مجھے فوراً بونگ کی ایک پلیٹ، ایک تلوں سے لبالب بھرا ہوا قلچہ اور ایک گلاس پیڑوں والی لسی کا پیش کرو۔ اور ہاں دیکھو قلچہ پوری طرح سرخ ہونا چاہئے‘‘۔

مجھے یقین ہے کہ وہ میری اس فرمائش پر شدید احساسِ کمتری کا شکار ہوئی ہو گی، مگر میں اکیلا جنتی تو نہیں تھا ہزاروں اور بھی تھے، سبحان اللہ، وہ بھی اپنی اپنی نیکیوں کا ثمر سمیٹنے میں مشغول تھے، حوروں سے پنکھا جھلوا رہے تھے اور کسی خوبرو غلمان سے پائوں دبوا رہے تھے۔ اتنے میں مجھے منیر نیازی نظر آئے جون ایلیا ان کے ساتھ تھے جو خدمت گاروں کے کاندھوں پر ہاتھ رکھے شاداں و فرحاں دکھائی دے رہے تھے۔ پتہ چلا کہ فیض احمد فیض اور احمد ندیم قاسمی نے انہیں بلایا ہے اور دیگر شعراء بھی وہاں موجود ہیں اور محفل شعر و سخن منعقد ہو رہی ہے۔ میں بھی ان کے ساتھ چل پڑا۔ اپنی باری آنے پر ابھی میں نے اپنی غزل کے دو شعر

یہ چتائیں اے زمانے کس لئے ہیں

روگ یہ اتنے سیانے کس لئے ہیں

تیرے بچے مر رہے ہیں بھوک سے کیوں

اے زمیں تیرے خزانے کس لئے ہیں

ہی پڑھے تھے کہ ایک فرشتہ اپنی سرخ آنکھوں سے مجھے گھورتا ہوا میری طرف آیا اور مجھے گردن سے پکڑ کر باہر لے گیا اور دوزخ کے فرشتے کے سپرد کرتے ہوئے اسے کہا ’’تم لوگ اس خبیث شخص کی الٹی سیدھی باتیں سن کر اتنے کنفیوز ہوئے کہ اسے جنت ایسی پاکیزہ جگہ میں داخل ہونے دیا۔ حکم آیا کہ اسے ابھی دوزخ کی بھڑکتی ہوئی آگ میں پھینک دو‘‘۔

اس کے بعد حکم کی فوری تعمیل ہوئی مگر دوزخ کی گرمی کے بارے میں جو سنا تھا مجھے تو وہ میانوالی کی گرمی سے بھی کم محسوس ہوئی۔

تازہ ترین