• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
امریکی انتظامیہ نے کانگریس کی بلا جواز مخالفت کی بناء پر پاکستان کو 43 کروڑ ڈالر کی اس رقم کی ادائیگی روک دی ہے جو آٹھ ایف سولہ طیاروں کی خریداری کے لئے بطور امداد دی جانی تھی تاکہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کو مزید مؤثر بنایا جاسکے۔ یہ رقم ان طیاروں کی قیمت کا 70 فی صد تھی تاہم اب امریکہ کا موقف ہے کہ پاکستان کو تقریباً 70 کروڑ ڈالر مالیت کے یہ آٹھ ایف سولہ طیارے اسی صورت میں دیے جاسکتے ہیں جب ان کی پوری قیمت وہ خود ہی ادا کرے۔ واضح رہے کہ پاکستان نے یہ طیارے جو رات کی تاریکی میں بھی تخریب کاروں کے ٹھکانوں کو بالکل درست طور پر نشانہ بنانے کی صلاحیت رکھتے ہیں، دہشت گردی کے خلاف جنگ میں استعمال کے لئے مانگے تھے جس کے بعد بارہ فروری کو امریکی حکومت نے اعلان کیا تھا کہ وہ پاکستان کو آٹھ ایف سولہ طیاروں کے ساتھ ریڈار اور دیگر آلات بھی فروخت کرے گا ۔گیارہ مارچ کو امریکی سینیٹ نے ان طیاروں کی پاکستان کو فروخت روکنے سے متعلق قرار داد مسترد کرکے طیاروں کی فراہمی کی راہ ہموار کردی تھی۔امریکی سینیٹ کے سو میں سے 71 ارکان نے پاکستان کے حق میں فیصلہ دیا تھا۔ تاہم بھارت نے پاکستان کو ایف سولہ طیاروں کی فراہمی کے فیصلے پر منفی ردعمل کا اظہار کیا تھا اور حکومت پاکستان کے ذرائع کے مطابق امریکی انتظامیہ کے تازہ فیصلے کا سبب فی الحقیقت طیاروں کی پاکستان کو فراہمی پر بھارت کا واویلا ہی ہے۔ اس بارے میں امریکی حکومت کا اعلان سامنے آنے کے بعد بھارتی حکومت نے امریکی سفیر مقیم نئی دہلی کو دفتر خارجہ طلب کرکے اپنی ناراضگی ظاہر کی تھی اور بھارتی وزرات خارجہ نے اس پر باقاعدہ احتجاج کیا تھا جبکہ وزیر اعظم نریندر مودی نے اپنے دورہ امریکہ میں اوباما انتظامیہ کے اس فیصلے پر اثر انداز ہونے کی کوشش کی تھی۔ وزیر اعظم کے معاون خصوصی برائے امور خارجہ طارق فاطمی نے گزشتہ روز امریکی حکومت کے اس فیصلے پر اپنے ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ امریکہ سے ایف سولہ طیاروں کی خریداری کے لئے پاکستان کا مقدمہ بہت مضبوط ہے۔دنیا جانتی ہے کہ پاکستان کس طرح دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑرہا ہے۔اس جنگ میں پاکستان کی قربانیوں اور کامیابیوں کا اعتراف عالمی سطح پر کیا جارہا ہے۔اس لئے ہمیں یقین ہے کہ پاکستان کو آٹھ ایف سولہ طیاروں کی خریداری کے لئے رقم فراہم کردی جائے گی۔طارق فاطمی نے واضح کیا کہ دہشت گردی کے خلاف پاکستان کی کامیاب کارروائیوں کا فائدہ خطے کے تمام ملکوں اور خود امریکہ کو بھی پہنچ رہا ہے۔پاکستان اپنے محدود وسائل سے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں گزشتہ دوسال کے دوران دو ارب ڈالرخرچ کرچکا ہے۔وزیر اعظم کے معاون خصوصی نے اس توقع کا اظہار کیا کہ امریکی انتظامیہ بالآخر کانگریس کو طیاروں کی خریداری کے لئے پاکستان کو رقم کی فراہمی پر رضامند کرلے گی ۔ تاہم امریکی محکمہ خارجہ کے ایک اعلیٰ افسر نے برطانوی نشریاتی ادارے کو بتایا ہے کہ اوباما انتظامیہ اگرچہ اب بھی طیارے پاکستان کو فروخت کرنے کے حق میں ہے لیکن اس کے لئے کانگریس کی منظوری لازمی ہے۔اس ذریعے کے مطابق امریکی انتظامیہ نے رواں سال پاکستان کو دی جانے والی 74 کروڑ بیس لاکھ ڈالر کی فوجی امداد کا جوبجٹ کانگریس کے سامنے پیش کیا تھا، اس کی منظوری کا عمل بھی فی الحال روک دیا گیا ہے اور کانگریس نے ذہن نہ بدلا تو یہ رقم پاکستان کو فراہم نہیں کی جاسکے گی۔ حکومت پاکستان اور امریکہ میں پاکستانی سفارت خانے کے ترجمان کی جانب سے اس معاملے کے بالآخر سلجھ جانے کی توقعات کے اظہار کے باوجود امریکی کانگریس کا یہ رویہ پاکستانی قوم کے لئے سخت تکلیف دہ اور مایوس کن ہے۔ بظاہر بھارت کے بے بنیاد شور و غوغا پر اس کی خوشنودی کے لئے کیا جانے والا یہ اقدام دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کے عوام اور افواج کی قربانیوں کو عملاً نظر انداز کرنے اور بالواسطہ دہشت گردعناصر کی حوصلہ افزائی کے مترادف ہے۔پاکستان نے نائن الیون کے بعد دہشت گردی کے خلاف جنگ میں فرنٹ لائن اسٹیٹ کے طور پر امریکہ کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا تو اب امریکہ کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ افغانستان سے روسی افواج کی واپسی کے بعد پاکستان کو تنہا چھوڑ دینے والی غلطی نہ دہرائے جس کے تباہ کن نتائج کا سلسلہ اب تک جاری ہے بلکہ خطے سے دہشت گردی کے مکمل خاتمے تک پاکستان کو مکمل معاونت فراہم کرے ، ایسا نہ کیا گیا تو دہشت گردی سے محفوظ دنیا کا خواب کبھی حقیقت نہ بن سکے گا۔
تازہ ترین