• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بعض دوست مجھے احمق اور بدھو قرار دے رہے ہیں، ان کا خیال ہے کہ میں عطار کے انہی لونڈوں سے دوالینے کی غلطی کر رہا ہوں جن کے سبب اس حالت کو پہنچا۔معاملہ کچھ یوں ہے کہ میری گاڑی خراب ہوگئی اسے ٹھیک کروانے کے لئے ورکشاپ لے جانا پڑا۔وہاں پہلے ایک مکینک سے واسطہ پڑا جس نے مہارت کا یقین دلاتے ہوئے دعویٰ کیا کہ چند ہی روز میں گاڑی نئی جیسی ہوجائے گی۔ مقررہ وقت میں گاڑی ٹھیک نہ ہوئی تو اسی ورکشاپ سے ایک اورکاریگر نمودار ہوا۔اس نے ہمدردی کا اظہار کرتے ہوئے کہا آپ کو ’’چھوٹو‘‘کے حوالے کردیا گیا تھا ،یہاں کا بڑا ہنرمند تو میں ہوں ، فکر نہ کریں ،گاڑی میرے حوالے کرکے گھر چلے جائیں۔ اعتماد کرنے کے علاوہ چارہ ہی کیا تھا ،چنانچہ گاڑی کی چابیاں اس کے سپرد کیں اور دل گرفتگی کے عالم میں گھر لوٹ آیا۔چند روز بعد ورکشاپ آیا تو معلوم ہوا کہ وہ صاحب واقعی بڑے ’استاد‘ہیں اور گاڑی کی حالت سدھرنے کے بجائے مزید خراب ہو چکی ہے۔میں اس ’’بھٹو آٹوورکشاپ‘‘سے بددل ہوگیا ۔گاڑی لاد کر کچھ فاصلے پر موجود ’’انصاف آٹو ورکشاپ‘‘لے گیا۔خوش اخلاق عملے نے بھرپور استقبال کیا تو متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکا۔ورکشاپ کے مالک ارمان خان سے ملاقات ہوئی تو اس نے کہا کہ گاڑیوں کے کام کو مجھ سے بہتر کوئی نہیں جانتا۔میں یہ کام اتنی اچھی طرح جانتا ہوں کہ گاڑیاں بنانے والے بھی نہ جانتے ہوں گے۔ان صاحب کی باتوں نے مجھے گرویدہ کرلیا۔میں یہ جان کر حیران رہ گیا کہ انہوں نے آکسفورڈ یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کی ہے۔انہوں نے بتایا کہ ان کے پاس عزت،دولت،شہرت سمیت کسی چیز کی کوئی کمی نہیں ۔’’انصاف آٹو ورکشاپ‘‘تو انہوں نے لوگوں کے لئے آسانیاں پیدا کرنے کی خاطر کھولی ہے۔ مارکیٹ میں چوروں اور ڈاکوئوں کی اجارہ داری ہے جنہوں نے لوٹ مار اور کرپشن کا بازا ر گرم کر رکھا ہے۔بیچارہ عام آدمی جسے گاڑی کے انجن سے متعلق کچھ پتہ نہیں ہوتا ،اسے یہ کہہ کر لوٹ لیا جاتا ہے کہ انجن کا ہیڈ فارغ ہوگیا ہے ،واٹر باڈی اور ریڈی ایٹر تبدیل ہونے والا ہے اور لگے ہاتھوں کاربوریٹر بھی نیا ڈلوالیں تو گاڑی کی چال ڈھال بدل جائے گی۔ تبدیل کچھ بھی نہیں ہوتا ،ٹیوننگ کرکے وہی پرانی چیزیں پھر سے فٹ کر دی جاتی ہیں لیکن اگر کوئی پرزہ ڈالنا بھی پڑے تو قیمت جاپانی کی وصول کرتے ہیں مگر ڈالتے چائنا والاآئٹم ہیں۔ بس عوام کو لٹتے دیکھ کر مجھ سے رہا نہیں گیا اور میں نے ’’انصاف آٹو ورکشاپ‘‘کے نام سے کام شروع کردیا ۔پہلے کوئی میرا یقین نہیں کرتا تھا، لوگوں کا اعتماد حاصل کرنے کے لئے22سال جدوجہد کرنا پڑی۔خاصی تگ و دو کے بعد پاشا صاحب نے میرا ہاتھ تھام لیا تو لوگ جوق در جوق میرے پاس آنے لگے اور کام چل نکلا۔

ارمان خان کی کہانی سن کر میری آنکھوں میں آنسو آگئے ،اس کی باتیں بالکل درست تھیں اس لئے میرے دل میں گھر کرتی چلی گئیں ۔اس نے بتایا کہ ورکشاپ میں ہر قسم کے ماہرین کی خدمات حاصل کی گئی ہیں ۔ہر شعبہ میں مہارت رکھنے والے افراد اس کے پاس موجود ہیں۔میں گاڑی دیکر واپس آیا تو دوست مجھ پر ہنسنے لگے ۔انہوں نے دعویٰ کیا کہ تمہارے ساتھ ہاتھ ہوگیا ہے یہ نئی ورکشاپ نہیں بلکہ یہاں صرف نیا بورڈ آویزاں کیا گیا ہے اور منیجر والے دفتر میں ارمان خان نامی صاحب کو بٹھایا گیا ہے ورنہ یہاں کچھ نیا نہیں ،کام کرنے کے لئے پرانی ورکشاپوں کاوہی عملہ مستعار لیا گیا ہے جسے چور اور ڈاکو کہا جاتا ہے، نہ صرف عملہ وہی ہے بلکہ چونا لگانے کے طریقہ ہائےواردات سمیت کچھ نہیں بدلا۔مجھے دوستوں کی بیہودہ باتوں پر بہت غصہ آیا مگر پروں پر پانی نہ پڑنے دیا اور پٹواری قرار دیکر گھر سے نکال دیا۔اگلے روز میں ان الزامات کی تصدیق کرنے کی خاطر وہاں پہنچا تو معلوم ہوا کہ میرے دوستوں کی کہی سب باتیں من و عن درست ہیں ۔عملے کو دیکھ کر یوں لگتا تھا جیسے ’’شریف آٹوز‘‘اور ’’بھٹو آٹوز‘‘کو ملا کر کوئی ہائبرڈ قسم کی ورکشاپ بنائی گئی ہے۔وہی ’’چھوٹو‘‘ اور وہی ’’استاد‘‘جو اس سے پہلے مجھے بے وقوف بنا چکے تھے ،یہاں کام کرتے دکھائی دیئے۔آگے بڑھا تو وہی جانی پہچانی شکلوں والے ڈینٹر ،پینٹر،الیکٹریشن اور مکینک منہ چڑا رہے تھے ۔کچھ ہی دیر میں ایک نااہل ترین کیشئر نے بل تھما دیا ۔میں اسے اچھی طرح جانتا تھا ’’بھٹو آٹو ورکشاپ‘‘میں اس سے کئی بار ملاقات ہو چکی تھی ۔میں نے حیرت چھپاتے ہوئے کہا،تم یہاں کیسے؟اس نے بتایا کہ ’’شیخ ‘‘صاحب کی فراغت پر مجھے یہ ذمہ داری سونپی گئی ہے۔میرے ارمانوں پر تو جیسے گھڑوں پانی پڑ گیا ۔’’شیخ ‘‘ اور ’’ترین‘‘ دونوں یکے بعد دیگرے ’’بھٹو آٹو ورکشاپ‘‘کے خزانچی رہ چکے ہیں اور اگر یہاں بھی ترتیب اُلٹ کے یکے بعد دیگرے انہی کی خدمات حاصل کی جا رہی ہیں تو پھر کیسی تبدیلی؟

اسی اُدھیڑ بن میں منیجر کے دفتر کی طرف بڑھا تو ایک خوش لباس شخص نے خوش آمدید کہا۔ میں اسے پہچان گیا، ’’شریف آٹوز‘‘پر ملاقات ہو چکی تھی، یہ صاحب وہاں منیجر کے اسسٹنٹ ہوا کرتے تھے۔ اسسٹنٹ مجھے اندر لے گیا تو ارمان خان نے میری کیفیت بھانپتے ہوئے کہا، دیکھو! ایک تو تم نے گھبرانا نہیں ہے۔ یہ سب لوگ جو ’’بھٹو آٹوز‘‘ ’’شریف آٹوز‘‘ یا پھر کسی اور ورکشاپ سے آئے ہیں، یہ وہاں کرپٹ تھے، میرے پاس آکر ایماندار ہو گئے ہیں۔ یہ بات سن کر میں مطمئن ہو گیا اور اب میرے دوست مجھے احمق اور بدھو قرار دے رہے ہیں۔ آپ ہی بتائیں، کیا میں نے ارمان خان کا یقین کر کے غلط کیا ہے؟

تازہ ترین