• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

IMF پروگرام، نظرثانی کا اشارہ، بجلی ٹیرف میں اضافے کا مطالبہ ناجائز، مالیاتی ادارے نے پاکستان کے ساتھ زیادتی کی، وزیرخزانہ

مالیاتی ادارے نے پاکستان کے ساتھ زیادتی کی، وزیرخزانہ


اسلام آباد(ٹی وی رپورٹ‘ایجنسیاں)وفاقی وزیرخزانہ شوکت ترین نےآئی ایم ایف پروگرام پر نظرثانی کا عندیہ دیتے ہوئے کہاہےکہ عالمی مالیاتی فنڈ نے پاکستان کے ساتھ زیادتی کی ۔فیض اللہ کموکا کی زیر صدارت قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی خزانہ کو بریفنگ دیتے ہوئےشوکت ترین نے کہا کہ بجلی ٹیرف میں اضافے کا آئی ایم ایف کا مطالبہ نا جائز ہے، معیشت کا پہیہ چل نہیں رہا، ٹیرف بڑھانے سے کرپشن بڑھ رہی ہے۔جی ڈی پی گروتھ 5 فیصد تک نہ لے کر گئے تو 4 سالوں تک ملک کا ﷲ حافظ ہے‘2ماہ سے محصولات میں اضافہ ہو رہا ہے تاہم معیشت کی بحالی اور استحکام کیلئے سخت فیصلے کرنا ہوں گے‘نئے ٹیکسز کی بجائے ٹیکس نیٹ بڑھانے کی ضرورت ہے‘ریونیو بڑھانے کے لیے کسی کی دم پر پاؤں نہیں آنا چاہئے‘حکومت جن اداروں کو نہیں چلا سکتی ان کی نجکاری کر دی جائے گی‘اب معیشت کا گیئر تبدیل کرنے کی ضرورت ہے‘20سے 30سال کیلئے شرح نمو پائیدار ہونی چاہئے‘ ایف بی آر نے مجھے دس سال تنگ کیا‘آئی ایم ایف کو سمجھانے کی کوشش کر رہا ہوں، ٹیرف بڑھانے سے مہنگائی کی شرح میں اضافہ ہو رہا ہے، آئی ایم ایف سے کہا کہ گردشی قرضہ کم کریں گے لیکن ٹیرف بڑھانا سمجھ سے باہر ہے۔وزیر خزانہ کا کہنا تھاکہ آئی ایم ایف کے ساتھ بجلی ٹیرف پر بات کرنا انتہائی ضروری ہے‘انہوں نے کہا کہ ہمارے ملک میں شارٹ، میڈیم اور لانگ ٹرم معاشی پالیسی نہیں جبکہ چین، ترکی اور بھارت نے معاشی پالیسیوں میں تسلسل رکھا۔شوکت ترین کا کہنا تھاکہ زراعت، صنعت، پرائس کنٹرول، ہاؤسنگ سیکٹر میں بہتری کی ضرورت ہے، صرف 0.25 فیصد ہاؤسنگ مارگیج ہے، ہاؤسنگ سیکٹر کی بحالی سے 20 دوسری صنعتوں کا پہیہ چلے گا، تمام صوبوں کے محاصل کا 85 فیصد 9 بڑے شہروں پر خرچ ہوتا ہے ۔صحت اور تعلیم کیلئے بہت کم رقم مختص کی جاتی ہے ۔این این آئی کے مطابق شوکت ترین کا کہنا تھاکہ موجودہ حالات میں عالمی مالیاتی فنڈ سے ریلیف لینے کی ضرورت ہے ‘بجلی ٹیرف بڑھانے کی شرطکوچیلنج کرنا چاہیے تھا ،بجلی کی قیمت بڑھنے سے چوری بڑھے گی ‘جب تک معیشت کا پہیہ نہیں چلے گا روزگار نہیں ملے گا‘اب معیشت کا گیئر تبدیل کرنے کی ضرورت ہے‘ 20سے 30سال کیلئے شرح نمو پائیدار ہونی چاہئے ‘معاشی ماہرین سے کہا کہ سفارشات پیش کریں ۔شوکت ترین نے ایف بی آر سے شکوہ کرتے ہوئے کہا کہ ایف بی آر نے مجھے دس سال تنگ کیا‘ ایف بی آر نے دو دفعہ مکمل اسکروٹنی کی‘ایک دفعہ میری فائل گم کردی گئی‘ ایل ٹی یو ون اور ٹو نے میری پھرپور اسکروٹنی شروع کردی سابق وزیر خزانہ کے ساتھ یہ سلوک ہوتا ہے تو عام آدمی کے ساتھ کیا ہوتا ہوگا‘ ایف بی آر سے ہراسگی ختم کرنے کی کوشش کریں گے‘ ریونیو بڑھانے کے لیے کسی کی دم پر پاؤں نہیں آنا چاہئے ‘آئندہ سال ٹیکس ٹو جی ڈی پی 11 فیصد کرنے کی کوشش کریں گے‘ ہر سال ایک فیصد ٹیکس ٹو جی ڈی پی بڑھانے کی کوشش کریں گے ‘ قیمتوں میں استحکام لانے کی کوشش کی جائے گی ‘سرکاری ادارے حکومت نہیں چلا سکتی ان کمپنیوں سے حکومتی مداخلت کو ختم کردیں گے‘پی ایس ڈی پی کو بڑھانے کی کوشش کریں گے۔ وزیر خزانہ شوکت ترین نے آئی ایم ایف سے ہونیوالے قرض معاہدے کا جائزہ لینے کا عندیہ دیتے ہوئے کہا کہ آئی ایم ایف کے ساتھ ہونیوالے معاہدے سخت ہیں ،آئی ایم ایف کو کہا ہے کہ تھوڑی نرمی برتی جائے ،آئی ایم ایف پروگرام میں رہتے ہوئے اہداف حاصل کرنے کی کوشش کریں گے ‘آئی ایم ایف کے ساتھ بجلی ٹیرف پر بات کرنا انتہائی ضروری ہے‘ شرح سود کو 13.25 فیصد پر رکھنا غلطی تھی۔ بعدازاں میڈیا سے گفتگو میں شوکت ترین کا کہنا تھاکہ اس وقت دیکھنا چاہیےکہ آئی ایم ایف سے کیا ریلیف مل سکتا ہے، مہنگائی بڑھ رہی ہے، مہنگائی کو قابو کرنے کے اقدامات کررہے ہیں۔ پٹرولیم ڈویژن کے سینئر حکام نے دی نیوز کو تصدیق کی ہے کہ وزیر خزانہ شوکت ترین نے اعلیٰ حکام سے مشاورت کے بعد بجلی ٹیرف میں اضافہ نا کرنے کا منصوبہ تیار کرلیا ہے، جس کا اشتراک وہ آئی ایم ایف حکام سے اپنی پہلی باضابطہ ملاقات میں کریں گے، جو کہ رواں ماہ کے وسط میں شیڈول ہے۔ جب کہ عالمی بینک نے بجلی ٹیرف میں اضافہ نا کرنے کے حکومتی منصوبے پر نرم گوشہ اختیار کیا ہے تاہم اس کے لیے حکومت کے سامنے شرط رکھی ہے کہ وہ گردشی قرضوں کو موثر انداز میں کنٹرول کرے۔ تاہم، آئی ایم ایف نے اس ضمن میں سخت رویہ اختیار کررکھا ہے۔ عہدیدار کا کہنا تھا کہ شوکت ترین آئی ایم ایف حکام کو بتائیں گے کہ بجلی ٹیرف میں اضافے سے ملک میں نا صرف اقتصادی سرگرمیاں رک جائیں گی بلکہ بجلی چوری میں بھی اضافہ ہوگا۔ ایسے وقت میں جب پاکستان کو کوروناوائرس کی تیسری لہر کا سامنا ہے یہ ممکن نہیں کہ بجلی ٹیرف میں اضافہ کیا جائے کیوں کہ اس سے معاشی مسائل بڑھ جائیں گے جسے برداشت کرنا حکومت پاکستان کے لیے مشکل ہوجائے گا۔ آئی ایم ایف دو اور ڈھائی سال کی مدت میں بجلی ٹیرف میں فی یونٹ 4.60 روپے کا اضافہ چاہتا ہے لیکن روپے کے مقابلے میں ڈالر کی قیمت 161 روپے سے گر کر 153 روپے ہوگئی ہے یہی وجہ ہے کہ اس ٹیرف میں سے ایک روپے منہا ہوجائے گا۔ باقی ماندہ 3.60 روپے فی یونٹ پر حکومت ٹیرف میں 0.60 فی یونٹ فرنس آئل پر چلنے والے پرانے 11 پاور پلانٹس کی ادائیگی کرکے کمی کرے گی۔ آئی ایم ایف کو آگاہ کیا جائے گا کہ حکومت 3100 میگاواٹ کے ان 11 پرانے پاور پلانٹس کی ادائیگی کے معاملے میں سنجیدہ ہے حالاں کہ ان پاور پلانٹس نے ایک سال میں اپنی صلاحیت کی صرف 5 فیصد بجلی ہی پیدا کی ہے۔ لیکن بدلے میں حکومت انہیں 60 ارب روپے سالانہ، صلاحیت مد میں ادا کررہی ہے۔ جس کی وجہ سے ہر صارف کو 0.60 روپے فی یونٹ اضافی ادائیگی کرنا پڑرہی ہے۔ آئی ایم ایف کو یہ بھی بتایا جائے گا کہ فرنس آئل پر چلنے والی 11 آئی پی پیز کے شیئرز 150-200 ارب روپے کی رعایتی قیمت پر پی آئی بی، سکوک کے ذریعے خریدے جائیں گے، جس سے صارفین پر 0.60 روپے فی یونٹ کا بوجھ کم ہوگا۔ آئی ایم ایف کو یہ بھی بتایا جائے گا کہ صارفین سے اضافی جی ایس ٹی بلز ختم کردیئے گئے ہیں جس سے صارفین کو 0.85 روپے فی یونٹ ریلیف ملے گا۔ اگر آئی پی پیز کے فیول چارجز پر ٹیکسز اور ڈیوٹیز چھوڑ دی جائیں تو صارفین کو فی یونٹ 0.22 روپے فی یونٹ ریلیف ملے گا۔ ان تجاویز پر عمل کرنے سے پاور ٹیرف میں 1.67 روپے فی یونٹ کی کمی ہوگی۔ اس طرح مجموعی طور پر 4.60 روپے فی یونٹ میں سے 2.67 روپے فی یونٹ کم ہوجائیں گے اور حکومت کو بھی چین کے 3 ارب ڈالرز قرض کی ری پروفائلنگ سے 1.30 روپے فی یونٹ کا ریلیف حاصل ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ ٹیرف میں اضافے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ تاہم، عہدیدار کا کہنا تھا کہ اگر اضافہ ناگزیر ہوا تو حکومت ایک روپے فی یونٹ کا اضافہ کرسکتی ہے۔

تازہ ترین