• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ڈرون ٹیکنالوجی ملک در ملک پھیل رہی ہے اور باوجود عالمی تحفظات کے غالب امکان یہ ہے کہ اس کا استعمال بھی بڑھے گا۔ پاکستان سے لے کر امریکہ تک ڈرون ٹیکنالوجی کا استعمال سیاسی پیچیدگیوں کا باعث بن رہا ہے۔اس ٹیکنالوجی کے استعمال کی وجہ سے امریکہ کو عالمی اداروں کی تنقید کے ساتھ ساتھ انسانی حقوق کی تنظیموں کی مخالفت کا سامنا ہے۔وزیر اعظم نواز شریف نے بھی اس کی برملا مخالفت کی ہے اور مطالبہ کیا ہے کہ اس سلسلے میں کوئی دوغلاپن قبول نہیں کیا جائے گا۔ وزیر اعظم کی بھرپور مخالفت کی وجہ عالمی اور خانگی سیاست کا بدلتا ہوا منظر نامہ ہے۔پچھلے کچھ عرصے میں شمالی وزیرستان میں ڈرون حملے سیاسی طور پر کافی ڈرامائی تھے۔ آخری دو حملوں میں پہلا حملہ الیکشن کے دوسرے دن ہوا اور دوسرا نواز شریف کے وزیر اعظم بننے کے اگلے روز۔ سوال یہ ہے کہ کیا امریکہ آنے والی نئی حکومت کو یہ پیغام دے رہا تھا کہ پاکستان میں سیاسی تبدیلیاں امریکہ کی ڈرون پالیسی کو متاثر نہیں کر سکتیں؟ بعض حلقوں کا خیال ہے کہ امریکہ کو جب بھی اپنے دشمن طالبان کے خلاف قابل اعتماد اطلاعات موصول ہوتی ہیں وہ ڈرون حملے کرتا ہے اور اس کا کوئی تعلق پاکستان کی اندرونی سیاست سے نہیں ہوتا۔ واشنگٹن میں یہ افواہ ہے کہ پاکستان کی بنیادی اسٹیبلشمنٹ پاکستانی طالبان سے مذاکرات کے لئے تیار نہیں ہے اور اسی لئے امریکہ کو نئی حکومت کی آمد پر طالبان کے بڑے رہنماوٴں کے بارے میں اطلاعات فراہم کی گئیں یعنی مقصد طالبان کو مذاکرات سے بھگانا تھا۔ اگر مقصد یہ تھا تو وہ اس میں کامیاب رہے کیونکہ طالبان نے اگلے روز ہی مذاکرات کی پیشکش واپس لے لی۔
وزیر اعظم نواز شریف کے لئے یہ معاملہ کئی پہلوؤں سے کافی سنجیدہ ہے۔ اول تو یہ کہ وہ منتخب حکومت کی تمام اداروں پر برتری کو یقینی بنانا چاہتے ہیں۔ گزشتہ دور میں خارجی امور باالخصوص امریکہ اور ہندوستان کے ساتھ تعلقات میں منتخب حکومت بے دست و پا تھی۔ اسی طرح دفاعی امور میں بھی منتخب حکومت دخل اندازی نہیں کر سکتی تھی۔ وزیراعظم نواز شریف نے دفاع اور امور خارجہ کے قلمدان اپنے پاس رکھ کر منتخب حکومت کا تمام امور اور اداروں پر کنٹرول کا بیڑا اٹھایا ہے۔ ان کی ڈرون حملوں کی شدید مخالفت میں بھی یہ امر مضمر ہے۔
مشرف دور سے لیکر پیپلزپارٹی کی حکومت تک ڈرون حملوں کے بارے میں تمام تر معاملہ بندی پینٹاگون اور جی ایچ کیو کے درمیان تھی۔ طرفین کے درمیان ڈرون حملوں کے بارے میں باہمی سوچ یا اتفاق رائے کی نوعیت کے بارے میں سول حکومت بے خبر ہی رہتی تھی۔ عالمی میڈیا میں اس نوع کی اطلاعات بھی ہیں کہ شاید کوئی باقاعدہ معاہدہ نہیں تھا بلکہ طرفین کے کچھ سرکردہ لوگوں کے درمیان معاملات طے ہو جاتے تھے۔ اب وزیراعظم نواز شریف چاہتے ہیں کہ اگر پاکستان میں کوئی ایکشن کیا جانا ہے تو اس میں منتخب حکومت کی رضامندی شامل ہونی چاہئے۔ اب واشنگٹن حلقوں کے مطابق اوباما حکومت نے اس امر کو مدنظر رکھتے ہوئے فیصلہ کیا ہے کہ کسی بھی ڈرون حملے سے پہلے سی آئی اے (جو ڈرون حملوں کی انچارج ہے) اسلام آباد میں امریکی سفارت خانے کو پیشگی اطلاع فراہم کرے گی جوکہ وزیر اعظم تک پہنچا دی جائے گی۔ اس سے پیشتر سی آئی اے امریکی سفارت خانے کو ڈرون حملوں کی اطلاعات فراہم نہیں کرتی تھی۔
وزیر اعظم نواز شریف کی ڈرون حملوں کے خلاف سخت بیانات میں داخلی سیاست کا بھی بہت بڑا عنصر ہے۔ ان کے سب سے بڑے مدمقابل تحریک انصاف کے عمران خان ہیں جن کی سیاست کی بنیاد ہی ڈرون حملوں کی مخالفت ہے۔ اب بہت سی سیٹوں پر ضمنی انتخابات ہونے والے ہیں اور پھر شاید اگلے سال بلدیاتی الیکشن بھی منعقد ہوں گے۔ ان حالات میں میاں نواز شریف اپنے آپ کو ڈرون حملوں کی مخالفت میں عمران خان سے پیچھے نہیں رکھنا چاہتے لہٰذا ان کے بیانات کی سختی قابل فہم ہے۔ اس بارے میں یہ بھی اہم ہے کہ ملک معاشی ابتری کا شکار ہے اور حکومت فوری طور پر نہ لوڈشیڈنگ ختم کر سکتی ہے اور نہ ہی معیشت بحال کر سکتی ہے۔ اس کے لئے وقت اور امن و امان چاہئے۔ وہ جانتے ہیں کہ ایک تو امریکہ خود طالبان کے ساتھ مذاکرات کا حامی ہے اور دوسرے امریکی پاکستان کی ابتر معیشت کی بحالی کے لئے کوئی خاص مدد کرنے کیلئے تیار نہیں ہیں لہٰذا جو کچھ کرنا ہے خود ہی کرنا ہے۔
تماتر بیانات اور وزیراعظم کے مشیر برائے خارجی امور طارق فاطمی کے امریکی سفارت کار سے جھگڑے کے باوجود میاں نوازشریف امریکہ کے ساتھ تعلقات اس حد تک خراب نہیں کریں گے کہ وہ آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کو پاکستان کو قرضے دینے سے منع کر دے۔ اگر پاکستان کو اپنے موقف پر بہت ہی اعتماد ہو اور وہ واقعی ڈرون حملوں کو رکوانا چاہے تو وہ اس معاملے کو اقوام متحدہ کی سیکورٹی کونسل میں اٹھا سکتا ہے۔ اس صورت میں امریکہ یہ موقف اختیار کر سکتا ہے کہ چونکہ وزیرستان سے اس کی فوجوں پر حملے ہوتے ہیں اس لئے وہ ڈرون حملے کرنے میں حق بجانب ہے۔ اس سلسلے میں وہ اقوام متحدہ کی اس قرارداد کا سہارا بھی لے سکتا ہے جس کے تحت دوسرے ملک سے معاندانہ حملوں کی وجہ سے اس ملک میں دراندازی کی اجازت ہے۔ اس لئے شاید میاں نواز شریف بھی سخت سے سخت تر بیان دیتے رہیں گے اور ڈرون حملے بھی جاری رہیں گے۔یہ دیکھنا باقی ہے کہ وہ خانگی معاملات میں ڈرون حملوں کے تعلق سے وہ مقاصد حاصل کر پائیں گے یا نہیں جن کا اوپر ذکر کیا گیا ہے۔ دوسری طرف بہت سے امریکی اور عالمی حلقے صدر اوباما کو شدید تنقید کا نشانہ بنائے ہوئے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اول تو دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ کے نام پر ڈرون حملوں کا جواز نہیں تھا لیکن اب جب صدر اوباما یہ اعلان کرچکے ہیں کہ دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ ختم ہو چکی ہے اور ڈرون حملوں میں بہت کمی کی جائے گی تو ایسے حملوں کا کوئی بھی جواز باقی نہیں رہا کیونکہ کسی انسان کو بھی عدالتی حقوق دیئے بغیر ختم نہیں کیا جا سکتا۔
اس وقت امریکہ کے علاوہ چین، روس، مغرب کے بہت سے ملک ، اسرائیل اور حتیٰ کہ ایران کے پاس ڈرون ٹیکنالوجی موجود ہے۔ امریکہ اور اسرائیل اپنے دشمنوں کے خلاف اس کا استعمال بھی کرتے ہیں۔ امریکہ میں تو دشوار گزار جنگلوں اور پہاڑوں میں جرائم پیشہ لوگوں کو ڈھونڈ نکالنے کیلئے اس کا عام استعمال ہو رہا ہے۔ اب بہت سی ریاستوں کی پولیس کے پاس ڈرون جہاز موجود ہیں اوران کا استعمال بھی ہورہا ہے۔ امریکہ کی کچھ ریاستوں مثلاً مغربی ورجینیا اور فلوریڈا نے اس کے استعمال پر پابندی لگا دی ہے لیکن چونکہ یہ چاق و چوبند ٹیکنالوجی دشوار گزار راستوں میں ایکشن کیلئے سب سے سستا ہتھیار ہے اس لئے جب بھی کوئی ملک اندرونی یا بیرونی حملوں یا بغاوتوں کا سامنا کرے گا تو وہ اس ٹیکنالوجی کو استعمال کرنے سے گریز نہیں کرے گا۔ مثلاً اگر ایران کے کسی پہاڑی یا صحرائی علاقے میں علیحدگی پسندی کی مسلح جدوجہد شروع ہوجائے تو وہ ڈرون استعمال کرنے سے کیسے گریز کرے گا۔
تازہ ترین