بی بی نے 2003ء میں اپنی پچاسویں سالگرہ کے موقع پر دبئی میں ایک منفرد ڈنر کا اہتمام کیا تھا۔ انہوں نے سالگرہ کی مناسبت سے اپنے قریبی عزیزوں اور احباب میں سے 50 مہمان مدعو کئے تھے۔ یہ ایک یادگار تقریب تھی جس میں بی بی نے اپنی طویل انگریزی نظم ”بینظیر کی کہانی اپنی زبانی“ سنائی تھی۔ بی بی کی خصوصی دعوت پر اس تقریب میں شرکت میری زندگی کا خوشگوار ترین لمحہ تھا۔ اس موقع پر جناب آصف علی زرداری نے بی بی کے لئے 50 درجن گلاب کے پھولوں کا گلدستہ بھیجا۔ آج 21 جون 2013ء ان کی ساٹھویں سالگرہ ہے اور پاکستان کے عوام اور پارٹی کے کارکن انہیں عقیدت کے پھولوں کا نذرانہ پیش کریں گے۔ ان کی ذات اپنے خاندان‘ قوم اور ملک کیلئے مسلسل جدوجہد اور افتخار کی علامت ہے۔ انہوں نے اپنے شہید والد ذوالفقار علی بھٹو کے اس مشن کو آگے بڑھایا جو محروم‘ پسماندہ اور نظرانداز طبقات کو طاقت کا سرچشمہ قرار دیتا ہے۔ عوام کے دکھوں پر مرہم رکھنے کو ہر وقت بیتاب قائد عوام کی بیٹی کو دختر مشرق کا نام ملا۔
حالیہ انتخابات میں طویل عرصہ تک جمہور دشمن قوتوں کے نرغے میں رہنے والے ملک عزیز میں پہلی بار ایک منتخب جمہوری حکومت نے نومنتخب اکثریتی جماعت کو اقتدار منتقل کیا۔ پیپلزپارٹی کی شہید قائد محترمہ بینظیربھٹو پرامن جمہوری انتقال اقتدار کا جو خواب دیکھتی رہیں ان کی جماعت نے اس فریضہ کو احسن انداز سے پایہ تکمیل تک پہنچا دیاہے۔ میثاق جمہوریت پر جن دو بڑی جماعتوں نے دستخط کئے تھے، ان کے قائدین محترمہ بینظیربھٹو اور میاں نوازشریف نے عہد کیا تھا کہ وہ کسی بھی صورت میں دوسرے فریق کو اقتدار سے ہٹانے کیلئے غیرآئینی اور غیرجمہوری طریقہ کار اختیار نہیں کرینگے۔ آج یقینا حالات وہ نہیں جب غیرجمہوری قوتوں نے اپنے مفادات کی تکمیل کیلئے اکتوبر 1988ء کو آئی جے آئی بنایا تھا۔ آج حالات تبدیل ہو چکے ہیں۔ آج عوام کا جمہوری ذہن آئی جے آئی کے قائدین میں سرکاری خزانے سے رقوم کی تقسیم اور مینڈیٹ چرانے جیسے شرمناک حقائق سے نہ صرف آگاہ ہے بلکہ وہ اس کی مذمت بھی کرتا ہے۔محترمہ بینظیربھٹو نے پاکستانی سماج کو کئی اعتبار سے متاثر کیا ہے۔ خواتین کو سیاست‘ کاروبار اور ملازمتوں میں حصہ ملنے لگا۔ وہ قوتیں جو ”قومی مفاد“ کی تشریح کا کنٹرول اپنے پاس رکھتی تھیں انہیں عوامی خواہشات کا احترام کرنا پڑا۔ سیاست ذاتی اثرورسوخ بڑھانے کی بجائے ریاستی امور کو چلانے میں خلوص کامظہربننے لگی۔ آج سیاسی اداروں کے کردار‘ آئین کی بالادستی‘ جمہوریت کے استحکام اورعام آدمی کوسیاسی نظام کا محور سمجھنے کی جس سوچ کو پروان چڑھتے دیکھا جارہا ہے وہ بلاشبہ محترمہ بینظیربھٹو شہید کی جدوجہد اور قربانیوں کے طفیل ہے۔محترمہ بینظیربھٹو کا ایک اہم کارنامہ یہ ہے کہ انہوں نے بے سمتی کے شکار پاکستانی معاشرے کو ایسی جمہوری اقدار سے روشناس کرایا جو واضح مقصد کی نشاندہی کرتی ہیں۔ جنرل ضیاء الحق نے جب اپنے ہی نامزد وزیراعظم محمد خان جونیجو کو آمرانہ اختیارات استعمال کرتے ہوئے برطرف کیا تو جونیجو سے ذاتی تعلق نہ ہونے کے باوجود محترمہ بے نظیربھٹو شہید نے اس طریقہ کار کو کم ظرفی خیال کیا۔ پھر جب عام انتخابات ہوئے تو پیپلزپارٹی کی مقبولیت سے خوفزدہ ضیاء الحق نے غیرجماعتی بنیاد پر انتخابات کی بات کی تاکہ پی پی پی کو انتخابی عمل سے باہر رکھا جائے جس کا مقصد یہ تھا کہ اپنے من پسند افراد کو انتخابات کا ڈھونگ رچا کر برسراقتدار لایا جائے اور عوام دوست سیاسی قوتوں کی راہ روکی جائے۔
محترمہ بینظیر بھٹو کا انداز سیاست سادگی‘ واضح مقصد اور حقیقی تبدیلی کا مظہر تھا۔ انہیں خوب معلوم تھا کہ پاکستان کا نظام جمہور دشمن طاقتوں کے تسلط میں ہے۔ وہ ان طاقتوں کی خوئے بد اور سازش گری سے آگاہ تھیں۔ وہ جانتی تھیں کہ جمہوریت کی خرابیاں ڈھونڈنے والے کس طرح مینڈیٹ چوری کرتے ہیں۔ انہوں نے وہ سچ تلاش کرلیا تھا جو کوڑوں‘ پھانسیوں‘ قیدوبند اور عوام کی محبت میں گندھ کر جمہوریت پسندوں کی شناخت کرتا ہے۔ وہ زندہ تھیں تو تبدیلی کیلئے ہردم سرگرم رہیں۔ وہ ہمیشہ کیلئے زندہ ہوئیں تو ضدی رویّے بھی جمہور کی چوکھٹ پر سر جھکانے لگے۔ آج سیاست میں گرماگرمی ہے لیکن ٹکراؤ اور ایک دوسرے کے خلاف غیر آئینی ہتھکنڈے استعمال کرنے کی سوچ شکست سے دوچار ہے۔محترمہ بینظیر بھٹو شہید کہتی تھیں:”خواہ پی پی پی جیتے یا ہارے، ہم نے پاکستان میں جمہوریت کے احیاء کو کم از کم ممکن بنادیا ہے۔ ہماری جدوجہد رائیگاں نہیں گئی اور نہ ہی ہم نے اپنے اصولوں کے راستے سے انخراف کیا ہے۔“
حالیہ انتخابات میں پاکستان پیپلزپارٹی کی شکست اس اعتبار سے سبق آموز ہے کہ اس میں بی بی شہید نے اپنی طویل جلاوطنی کے باوجود پارٹی کو مضبوط بنیادوں پر برقرارر کھا ہے۔ اسے وقتی طورپر دھچکا لگا ہے اور یوں گمان ہوتا ہے جیسے ان کی تمام تر محنت اکارت گئی ہے۔ یہ کہنا بھی بجا ہوگا کہ بعض باتونی بی بی کے دور کو عہد ماضی قرار دے کر اپنی سیاسی چوہدراہٹ کا ڈنکا بجانے کی ناکام کوشش کرتے رہے۔یہ کہنا درست ہے کہ پاکستان پیپلزپارٹی کے کارکنوں نے ان کے اس شرمناک رویے سے بدظن ہوکر ان کاغرور خاک میں ملا دیا۔ یہ حقیقت ہے کہ پنجاب میں یہ شرمناک شکست چند لیڈروں کی خود پسندی اور ان کارکنوں کو خاطر میں نہ لانے کا انجام ہے جو بی بی کو ہمیشہ عزیز رہے۔بی بی ان کی عزّت کرتی تھیں اوران سے رابطہ رکھتی تھیں کیونکہ وہ کارکنوں کو پارٹی کی ریڑھ کی ہڈی سمجھتی تھیں۔ اس لئے پنجاب میں یہ ناکامی درحقیقت ان حادثاتی اور موقع پرست لیڈروں کی شکست ہے جسے پاکستان پیپلزپارٹی کی شکست کہنا درست نہیں۔ اس کی واضح مثال سندھ میں پاکستان پیپلزپارٹی کی واضح کامیابی ہے کیونکہ وہاں پیپلزپارٹی نے اپنی شہید قائد محترمہ بینظیربھٹو سے رشتے کی زنجیر کو ٹوٹنے نہیں دیا اور وہ الیکشن میں سرخرو ہوئی۔یہی امر اس حقیقت کا مظہر ہے کہ بینظیربھٹو شہید اور قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو شہید کے پیروکاروں نے ان تمام افراد کو شکست دے کر اپنی قائد بینظیربھٹو کے نام اور قیادت کاپرچم سربلند رکھا۔ ان کی ساٹھویں سالگرہ میں یہ واضح پیغام ہے کہ بی بی زندہ ہیں اور اپنے مزار سے کارکنوں کی ہمیشہ رہنمائی کرتی ہیں۔