اسلام آباد ( آن لائن ) وفاقی حکومت نے شہباز شریف کے بیرون ملک جانے سے متعلق لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے کے خلاف درخواست تیار کرلی جو آج ( پیر ) کو سپریم کورٹ میں درخواست دائر کریگی۔ جس میں 7؍ مئی کے فیصلے کو معطل کرنے کی اپیل کی جائے گی۔ پٹیشن اسلامی جمہوریہ پاکستان کے 1973 ء کے آئین کے آرٹیکل 185 ( 3 ) کے تحت دائر کی جائیگی،پٹیشن میں اٹھائے گئے قانونی سوالات کہاگیا ہے کہ آیا کہ معزز فاضل جج کسی متعلقہ محکمے / حکام کو نوٹس جاری کئے بغیر مدعا علیہ کے حق میں پاکستان سے باہر جانے کی اجازت دے سکتے ہیں ؟ آیا کوئی سابق عبوری حکم جو مدعا علیہ کی درخواست پر اثر انداز ہوتا ہو، ایک رٹ پٹیشن جو متنازعہ سوالات پر مبنی ہو، اسے معزز سنگل جج کے ذریعے قانونی طور پر منظور کیا جا سکتا ہے؟ آیا کوئی فرد اربوں روپے کی سرکاری رقم کے متعدد مقدمات میں کریمنل ٹرائل کا سامنا کر رہا ہو اور ضمانت پر ہو جسے معزز عدالت کے روبرو چیلنج کیا جا رہا ہے، تو اسے ٹرائل کورٹس کو کسی پیشگی اجازت یا اطلاع دیئے بغیر ملک چھوڑنے کی اجازت دی جا سکتی ہے؟ آیا ایک ایسا ملزم جسکی صحت کی بنیادوں پر ضمانت کی درخواست کچھ روز قبل ہی لاہور ہائی کورٹ کے فاضل ججوں کی جانب سے خارج کر دی گئی ہو، کے باوجود کسی مجاز میڈیکل بورڈ کی جانب سے حقائق کی تصدیق کئے بغیر صحت کی بنیادوں پر اسے ملک چھوڑنے کی اجازت دی جا سکتی ہے؟آیا عدالتوں سے مفرور ہونے کی خاندانی تاریخ رکھنے والا ایک ملزم جو خود رٹ پٹیشن نمبر 68815 / 2019 ء میں 16 نومبر 2019 ء کو منظور کئے گئے حکم کے تناظر میں ضامن ہو، کو قانون کے تحت مجاز اتھارٹی کی جانب سے لگائی جانے والی پابندیوں کے باوجود ملک چھوڑنے کے استحقاق میں توسیع دی جا سکتی ہے؟ آیا مدعا علیہ کی جانب سے لاہور ہائی کورٹ میں دائر کی گئی پٹیشن قابل سماعت تھی یا قومی احتساب بیورو کو سنے بغیر سماعت کی گئی جسکی درخواست پر مدعا علیہ کا پاکستان سے باہر سفر ممنوع تھا؟ فوری پٹیشن دائر کرنے کے حقائق یہ ہیں کہ مدعا علیہ نے اپنا نام بلیک لسٹ میں ڈالے جانے کے خلاف اور بیرون ملک جانے کا اضافی ریلیف حاصل کرنے کیلئے معزز عدالت لاہور ہائی کورٹ کے روبرو ایک رٹ پٹیشن نمبر 30681 / 2021 دائر کر رکھی ہے۔ یہ کہ رٹ پٹیشن لاہور ہائی کورٹ کے سنگل جج کے روبرو اعتراض پر سماعت کیلئے مقرر تھی۔ فاضل جج نے کیس کو مزید سماعت کے لئے دفتر واپس بھیج دیا اور اپنی آبزرویشن دی کہ دفتر کے اعتراض کا فیصلہ بعد میں مرکزی درخواست کے ساتھ کیا جائے گا۔ درخواست میں مزید کہا گیا ہے کہ دفتر نے فوری مقدمہ کے طور پر فاضل جج کے روبرو 7 مئی 2021 ء کیلئے کیس کو دوبارہ شامل کیا۔ کیس کی سماعت اسی روز دن 12 بجے شروع ہوئی اور ڈپٹی اٹارنی جنرل کو عدالت کی جانب سے طلب کیا گیا، وہ حاضر ہوئے اور متعلقہ محکمہ سے ہدایات حاصل کرنے کیلئے نوٹس کی درخواست کی تاہم انہیں ہدایات وصول کرنے کیلئے صرف 30 منٹ دیئے گئے۔ 10۔ یہ کیس اسی روز 12 بجکر 40 منٹ پر لیا گیا اور فاضل ڈپٹی اٹارنی جنرل نے عرض کیا کہ آنے والی عید الفطر کی تعطیلات اور آخری کاروباری دن یعنی جمعتہ الوداع اور کووڈ 19 صورتحال کے باعث اس مختصر وقت میں کوئی متعلقہ افسر دستیاب نہیں ہے۔ دریں اثناء مدعا علیہ کے وکیل نے فضائی ٹکٹ پیش کیا اور عدالت کو بتایا کہ مدعا علیہ نے طبی بنیادوں پر بیرون ملک جانے کیلئے 5 مئی 2021 ء کا فضائی ٹکٹ حاصل کیا ہے، فاضل سنگل جج نے ریٹرن ٹکٹ کے بارے میں استفسار کیا اور مدعا علیہ کو دوپہر 2 بجے ذاتی طور پر طلب کیا، جو ذاتی طور پر پیش ہوئے۔ فاضل ڈپٹی اٹارنی جنرل نے رٹ پٹیشن کے قابل سماعت ہونے اور مدعا علیہ کے بھائی میاں نواز شریف کے حوالے سے اپنے حلف نامہ کی خلاف ورزی میں مدعا علیہ کے طرز عمل کے بارے میں اعتراضات اٹھائے جو اس وقت عدالتوں سے مفرور ہے۔ درخواست میں کہا گیا ہے کہ فاضل ڈپٹی اٹارنی جنرل نے یہ بھی عرض کیا کہ تین قسم کی فہرستیں ہیں، ایگزٹ کنٹرول لسٹ، پاسپورٹ ایکٹ کے تحت فہرست اور پی این آئی ایل لسٹ اور اس بات کی تصدیق نہیں کی جا سکتی ہے کس فہرست میں مدعا علیہ کا نام شامل ہے اور متعلقہ محکمے سے مشاورت اور رپورٹ کے لئے وقت طلب کیا۔ تاہم فاضل جج نے جلدی میں مدعا علیہ کو باہر جانے کی اجازت دینے کا حکم دیا۔ استدعا درج بالا گذارشات کے پیش نظر استدعا کی جاتی ہے کہ رٹ پٹیشن نمبر 30681 / 2021 میں فاضل جج لاہور ہائی کورٹ کی جانب سے 7 مئی 2021 ء کو دیئے گئے حکم کے خلاف اپیل کی اجازت دی جائے اور مذکورہ حکم کو معطل کیا جائے۔