پاکستان سمیت دنیا بھر میں پھیلے ہوئے بہت سے مسلمان اور اسرائیل کی فلسطینیوں کے خلاف دہشت گردی کے مخالف بہت سے باضمیر افراد اس بات پر خوش ہیں کہ چند یوم قبل اقوام متحدہ میں اسرائیل کے خلاف پاکستان کی قرارداد منظورہوگئی ہےجس کے تحت حال ہی میں غزہ میں اسرائیل کی جانب سے ظلم وستم کے پہاڑ ڈھائے جانے کی کارروائی کےدوران جنگی جرائم اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی تحقیقات کی منظور دی گئی۔
یادرہے کہ اٹھائیس مئی کو جنیوا میں اقوام متحدہ کی انسانی حقوق سے متعلق کونسل کےاجلاس میں غزہ کے علاقے میں اسرائیلی بم باری کے دوران انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور جنگی جرائم سے متعلق عالمی تحقیقات کے لیے کمیشن قائم کرنے کی قرارداد منظور کرلی گئی تھی۔ قراداد میں کہا گیاتھا کہ مستقل، آزادانہ تحقیقاتی کمیشن قائم کیا جائے گا جوگیارہ روز تک جاری رہنے والی اسرائیلی بم باری اور حماس کے میزائل حملوں کے دوران غزہ، مغربی کنارے، مقبوضہ بیت المقدس اور اسرائیل میں مبینہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا جائزہ لے کر رپورٹ مرتب کرے گا۔
اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کے اجلاس میں آزادانہ تحقیقاتی کمیشن کے قیام کی قرارداد اسلامی ممالک کی تنظیم (او آئی سی) کے توسط سے پاکستان کی جانب سے پیش کی گئی تھی جس کے حق میںچوبیس اور مخالفت میں نو ووٹ پڑے تھے۔بھارت سمیت چودہ ممالک نے ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا تھا۔
دوسری جانب اسرائیل نے روایتی ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایک بار پھر اقوام متحدہ کی قرارداد کو مسترد کردیا اورتعاون نہ کرنے کا اعلان کیا ہے۔اسرائیلی وزیراعظم نے اپنے بیان میں کہا کہ یہ شرم ناک فیصلہ اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کی اسرائیل مخالف اقدام کی ایک اور واضح مثال ہے۔ امریکا نے بھی اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کی تحقیقاتی کمیشن سے متعلق قرارداد کی مخالفت کرتے ہوئے کہاہے کہ اس اقدام سے خطے میں اب تک امن کے لیے کی جانے والی کوششوں کو خطرات لاحق ہوگئے ہیں۔
یہاں تھوڑی دیر رُک کر اسرائیلی وزیرِاعظم اور امریکا کی جانب سے جاری شدہ بیانات کے لب و لہجے اور الفاظ پر توجّہ دے لی جائے تو مستقبل کا منظرنامہ خود بہ خود واضح ہوجاتا ہے۔اگر اس معاملے کو گہرائی میں جاکر سمجھنا ہوتو ہمیں ماضی میں جھانکنا پڑے گا۔
سازشوں،دھونس اور دھمکی سے قایم کی گئی اسرائیل کی ناجائز ریاست اور فرزندِ زمین،یعنی فلسطینیوں کے درمیان جو کش مکش کئی دہائیوں سےجاری ہے اس سے عالمی برادری بہ خوبی واقف ہے۔ اس کشیدہ صورت حال کی سب سےبڑی وجہ اسرائیل کی جانب سے اس کے توسیع پسندانہ عزایم کے تحت فلسطینی علاقوں میں قبضہ جماتے ہوئے یہودیوں کی بستیاں آباد کرنا ہے۔مظلوم فلسطینی عوام کے خلاف اسرائیل کی دہشت گردی کے خلاف آوازیں بلند ہوتی رہتی ہیں، لیکن اسرائیل کے کانوں پر کبھی جوں تک نہیں رینگتی۔
اس کی سب سے بڑی وجہ امریکا سمیت کئی عالمی طاقتوں کی جانب سے اسرائیل کی ناجائز حمایت ہے۔اس حمایت کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ دنیا کے بیش تر کثیر القومی تجارتی ادارے،بینکس،دیگر مالیاتی ادارےاور ذرایع ابلاغ کے زیادہ تر بڑےادارے یہودیوں کی ملکیت ہیں۔پھر یہ کہ وہ مشرقِ وسطی کی سیاست اورعربوں کو کنٹرول کرنے کے ضمن میں امریکا کے لیے پولیس مین کا کرداراداکرتا ہے۔یہودی امریکا اور یورپ کی معیشت اور سیاست پر بھرپور کنٹرول رکھتے ہیں۔ان میں سے بیش تر ممالک کی حکومتیں بنانے اور گرانے میں ان کا اہم کردار ہوتا ہے ۔ ظاہر ہے کہ مالی ،سیاسی اور ابلاغی اعتبارسے ایسے طاقت ور غنڈےکو کون ناراض کرناچاہےگا۔
اسرائیل کے جنگی جرائم کی تحقیقات کا اعلان تو پہلے بھی ہوا تھااور اس وقت بھی یہ قراردادپاکستان ہی نے پیش کی تھی۔یہ 2014کی بات ہے۔ اس وقت اقوام متحدہ کی انسانی حقوق سے متعلق کونسل نے فلسطینی علاقے غزہ کی پٹی میں جنگی جرائم میں ملوث اسرائیلی فوج اور دیگر عناصر کے خلاف عالمی تحقیقات کرانے سے متعلق قرارداد بھاری اکثریت سے منظوری کی تھی۔ جنیوا میں انسانی حقوق کے صدردفترمیں غزہ کی پٹی میں 7جولائی 2014 سے 26اگست 2014تک اسرائیلی فوج کے جنگی جرائم کی عالمی سطح پر تحقیقات سے متعلق درخواست پاکستان کی جانب سے دی گئی تھی۔ دوسری جانب اسرائیل نے انسانی حقوق کونسل کی قرارداد کی شدید مذمت کرتے ہوئے اسے مسترد کردیاتھا۔
قرارداد میں عالمی اداروں، بالخصوص اقوام متحدہ سے مطالبہ کیا گیا تھاکہ وہ غزہ کی جنگ میں جنگی جرائم میں ملوث عناصر، بالخصوص اسرائیلی فوج کے جرائم کی عالمی سطح پر تحقیقات کرائے اور جنگی جرائم میں ملوث صہیونیوں کو قانون کے کٹہرے میں لایا جائے۔ لیکن کیا ہوا؟کیا اسرائیل کے خلاف اب تک کوئی موثر کارروائی ہوسکی ہے؟تو اب ایسی اُمّیدیں کیوں باندھی جائیں۔
عالمی فوج داری عالمی عدالت نے 2019میں 113صفحات پر مشتمل رپورٹ میں کہا تھا کہ پہلی تحقیقات مکمل ہوگئی ہیں جس سے ثابت ہوا کہ غربِ اردن، مشرقی القدس اور غزہ کی پٹی میں اسرائیل نےجنگی جرائم کا ارتکاب کیاتھا۔لیکن وہ رپورٹ فائلز تک ہی محدود رہی کیوں کہ وہ عراق، افغانستان، شام ، لیبیا یا ایران کے خلاف تھوڑا ہی تھی جو اس پر امریکا اور اس کے حواری فورا ردعمل دیتے ہوئے ان ممالک پر چڑھ دوڑتے۔
پھر رواں برس چار مارچ کو یہ خبر آئی تھی کہ عالمی عدالت انصاف کی چیف پراسیکیوٹر،فتاؤ بن سودانے فلسطینی علاقوں میں مبینہ جنگی جرائم کی باقاعدہ تحقیقات کا آغاز کردیا ہے۔فتاؤ بن سودا نے کہا تھا کہ اس معاملے کی تحقیقات کے دوران تیرہ جون2014سے اب تک کے اسرائیل کے زیرِ قبضہ غربِ اردن، مشرقی یروشلم اور غزہ کی پٹی میں ہونے والے واقعات کا احاطہ کیا جائے گا۔یاد رہے کہ اس سے ایک ماہ قبل دی ہیگ میں قائم عدالت نے فیصلہ دیا تھا کہ وہ فلسطینی علاقوں پر اپنا فوج داری دائرہِ اختیار بڑھا سکتی ہے۔تاہم اس وقت بھی اسرائیل نے بن سودا کی تحقیقات کے فیصلے کو مسترد کردیا تھا۔
واضح رہے کہ عالمی عدالت انصاف (آئی سی سی) کو یہ اختیار ہے کہ وہ ریاستوں اور اُن خِطّوں کی سرزمین پر نسل کُشی، انسانیت کے خلاف جرائم اور جنگی جرائم کے مرتکب افراد کے خلاف معاہدہِ روم کی کے مطابق کارروائی کرے جنہیں اقوام متحدہ تسلیم کرتا ہے۔
عالمی عدالت کی تشکیل کی بنیاد معاہدہِ روم ہے۔لیکن اسرائیل نے کبھی بھی معاہدہِ روم کی توثیق نہیں کی۔تاہم اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل نے2015میں فلسطینیوں کے الحاق کی توثیق کر دی تھی۔
بن سوداکا کہنا تھا کہ اصل توجہ زیادتیو ں کے شکار ہونے والوں پر کیے جانے والے جرائم پر ہونی چاہیے۔ جب بھی کسی ریاست کی کسی صورت حال کو پراسیکیوٹر کے دفتر میں تحقیقات کے لیے بھیجا جاتا ہے اور اس بات کا تعین کر لیا جاتا ہے کہ تفتیش شروع کرنے کے لیے کوئی معقول بنیاد موجود ہے تو وہ (چیف پراسیکیوٹر) اس بات کا پابند ہے کہ اس معاملے پر تحقیق شروع کردے۔ انہوں نے ایک صبر آزما تحقیقاتی کام کا آغاز کیا جو تقریباً پانچ سال تک جاری رہا۔بن سودا نے وعدہ کیاتھاکہ اب یہ تفتیش آزادانہ، غیر جانب دارانہ اور بغیر کسی خوف اور حمایت کے کی جائے گی۔
بن سوداکا اس وقت کہنا تھا کہ انہوں نے 2010 میں غزہ جانے والے (فریڈم فلوٹیلاکےتین جہازوں میں سے ایک) ’’ماوی مرمارا‘‘ پردس ترک کارکنوں کے اسرائیلی فوجیوں کے ہاتھوں قتل کیے جانے کے واقعے کی تحقیقات سے انکار کیا تھا،تاہم موجودہ صورت حال میں پیش رفت کی معقول بنیاد موجود ہے اور قابل قبول مواد بھی موجود ہے۔
اس وقت اسرائیلی وزیراعظم بِن یامین نیتن یاہو نے کہاتھا کہ تحقیقات کے آغاز کا فیصلہ یہود مخالفت اور منافقت کا مظہر ہے۔انہوں نے ان تحقیقات کافیصلہ واپس کروانے کی کوشش کا وعدہ کیا اورخبردار کیاتھا کہ آج اسرائیل کی ریاست پر حملہ کیا گیا ہے۔ان کا کہنا تھاکہ یہودی عوام کے خلاف نازیوں کے ذریعے ہونے والے مظالم کی تکرار روکنے کے لیے قایم کردہ عدالت اب یہودی عوام کے خلاف استعمال ہو رہی ہے۔
دراصل جب فلسطینیوں نے معاہدہِ روم پر عمل کرنے کا مطالبہ کیاتھا تو اس طرح انہوں نےتیرہ جون 2014 کے بعد ہونے والے جرائم کے مجرموں کے خلاف قانونی کارروائی کے مقصد کےلیے آئی سی سی کا دائرہ اختیار تسلیم کیاتھا۔یہ غزہ میں اسرائیل اور فلسطینی عسکریت پسندوں کے درمیان اس وقت کی ایک جنگ شروع ہونے سے ایک ماہ قبل کی بات ہے۔ اس لڑائی میں 2251فلسطینی، جن میں 1462شہری شامل تھے، شہید ہوئےتھےاور اسرائیل کے67فوجی اورچھ عام شہری مارے گئے تھے۔
اس سے قبل پانچ فروری کو عدالت نے کہاتھاکہ غزہ اور مغربی کنارے بہ شمول مشرقی یروشلم، اس کے دائرہ اختیار میں آتے ہیں اوران علاقوں میں ہونے والے جنگی جرائم کی تحقیقات کی جا سکتی ہیں۔ تاہم امریکا اور اسرائیل نے اس اعلان پر سخت اعتراض کیا،لیکن فلسطینیوں نےاس فیصلے کا خیرمقدم کیاتھا۔ اس سے قبل بن سودا نے دسمبر2019میں بھی کہا تھا کہ اسرائیلی فوج اور حماس جیسے مسلح فلسطینی گروہوں نے ممکنہ طور پر جنگی جرائم کا ارتکاب کیا ہے۔
ان تحقیقات میں 2014 میں ہونے والی غزہ کی جنگ کو مرکزی اہمیت دی جائے گی اور 2018 کے بعد احتجاج کرنے والے فلسطینیوں کی اموات کا بھی جائزہ لیا جائےگا۔یاد رہے کہ فلسطینی اتھارٹی 2015سےبین الاقوامی فوج داری عدالت کی رکن ہے۔لیکن اسرائیل اس کا رکن نہیں ہے۔دراصل بین الاقوامی فوج داری عدالت عالمی سطح پر وہ واحد عدالت ہے جو جنگی جرائم سے متعلق تحقیقات کر سکتی ہے۔ اس عدالت کا قیام 2002 میں عمل میں آیا تھا۔ اس کے قیام کا مقصد انسانیت کے خلاف ہونے والے ان بدترین جرائم کی تحقیقات کرناہےجو مقامی عدالتوں کے دائرۂ اختیار میں نہ آتے ہوں، یا ان کی استعداد نہ ہو کہ وہ ان جرائم کی تحقیقات کرا سکیں۔
اس اعلان کے بعد اسرائیلی وزیراعظم بِن یامن نیتن یاہوکا کہنا تھاکہ دی ہیگ میں قائم بین الاقوامی فوج داری عدالت کا فیصلہ دشمنی پرمبنی ہے۔عالمی فوج داری عدالت نے فیصلہ کیا ہے کہ ہمارے بہادر اور اخلاقی اقدار کے پابند فوجی افسران کو عسکریت پسند قرار دے۔ یہ ایک ایسی عدالت ہے جو ہمیں اپنے دارالحکومت یروشلم میں مکان بنانے سے روکتی ہے اور مکان بنانے کو جنگی جرم قرار دیتی ہے۔ اسرائیلی وزیر دفاع بینی گینٹزکا کہنا تھاکہ ان کا ملک سیکڑوں اسرائیلی شہریوں کی حفاظت کے لیے کوشاں ہے، جو بین الاقوامی فوج داری عدالت کے ذریعےممکنہ جنگی جرائم کی تحقیقات کا نشانہ بن سکتے ہیں۔
گزشتہ برس یعنی2020میںاسرائیلی بلڈوزرز نے وادی اردن میں طوبَس کے قریب پورے گاؤں کو مٹا دیاتھا جس میں خیمے، شیڈز، لے جانے کے قابل بیت الخلا اور سولر پینلز شامل تھے۔فلسطینی وزیر اعظم محمد شطیہ نے اسرائیلی فوج پر حومسا البقیہ کے پورے گاؤں کو مسمار کرنے کا الزام عائد کیا جس سے تقریباًاسّی افراد بےگھر ہوئے جن میں پینتیس بچے بھی شامل تھے۔ یورپی یونین نے اپنی رپورٹ میں اس گاوں کو مسمار کرنے کی تصدیق کرتے ہوئے کہاتھا کہ اس کارروائی میں چھیالیس فلسطینی گھروں کو مسمار کیاگیا ہے۔
یورپی یونین نے اسرائیل کے اس عمل کی شدید مزمت کرتے ہوئے کہاتھاکہ کورونا کی وبا کے باوجود پورا سال فلسطینیوں کے گھروں کو مسمار کرنا اور ان پر قبضہ کرنا انتہائی قابل مذمت فعل ہے۔حتی کہ امریکا اور یورپی یونین نے کئی مرتبہ اسرائیل کی غیر قانونی سرگرمیوں کی مذمت کی۔لیکن کیا ہوا؟کیا اسرائیل کی دہشت گردی رُکی؟
صہیونی ریاست کے توسیع پسندانہ عزایم
صہیونی ریاست کے عزایم ابتدا ہی سے توسیع پسندانہ تھے۔وہ اسی لیے شروع سے آج تک فلسطینیوں پر مظالم کے پہاڑ ڈھارہی ہے اور نہتّے فلسطینی جب مزاحمت کرتے ہیں توان پر وحشیانہ انداز میں بم باری کردی جاتی ہے۔ صہیونیوں نے بیسویں صدی کے اوائل میں فلسطین پر اپنے مذہب اور جغرافیائی اہمیت کے پیش نظر قبضہ کرنے کا منصوبہ ترتیب دیا تھا۔ عالمی طاقتوں کی سرپرستی میں اس وقت یہ سازش عملی شکل اختیار کر گئی تھی جب دنیا کے نقشے پر مسلمانوں کے قلب میں واقع اسرائیل نامی ناجائز صہیونی ریاست کا اعلان پندرہ مئی 1948ء کو ہوا تھا۔اسرائیل جب ایک ریاست کے طور پر دنیا کے نقشے پر ابھرا تھا تو اس وقت اس کاکُل رقبہ صرف پانچ ہزار مربع میل تھا اور اس کی حدود میں کم و بیش پانچ لاکھ یہودی آباد تھے۔
لیکن اب اسرائیل کا رقبہ چونتیس ہزار مربع میل اور آبادی ستّاون لاکھ سے زاید ہے۔اسرائیل نےسولہ یہودی بستیوں کو 1948ء میں زیر تسلط آنے والے علاقوں کے ساتھ ملا دیا تھاتاکہ صہیونی ریاست کے توسیع پسندانہ عزائم پورے ہو سکیں۔ تسلط و طاقت کے فلسفے پر قایم اس ناجائز ریاست کے ظلم وستم اور سفّاکیت ووحشت کا سلسلہ ہر آنے والے دن کے ساتھ دراز تر ہوتا جا رہا ہے۔1967ء کی جنگ میں اسرائیل نے مصر سے غزہ کی پٹی بھی چھین لی اور بعد ازاں مزید علاقوں پر قابض ہوتا چلا گیا۔آج مقبوضہ بیت المقدس کے علاقے میں فلسطینیوں کی ہتھیائی گئی اراضی پر چھبّیس یہودی بستیوں میں لاکھوںصہیونی رہائش پذیر ہیں۔
یہ تعداد غربِ اردن میں یہودی آباد کاروں کا 54.6 فی صد بنتی ہے،البریح اور رملہ کے علاقے میں چوبیس یہودی رہایشی منصوبوں میں ہزاروںیہودی رہایش پذیر ہیں۔یہودیوں نے مسجد اقصیٰ سےمحض ڈیڑھ سو میٹر کے فاصلے پر’’معالیہ از یتیم‘‘ کے نام سے ایک کالونی بھی تعمیر کی ہے جس میںایک سو بتّیس رہایشی اپارٹمنٹس ہیں۔
اگر اسرائیل کو اس قسم کے اقدامات سے روکا نہ گیا تو وہ پورے فلسطین پر قبضہ کر سکتا ہے۔اسرائیلی حکومت غزہ کی پٹی پر قبضے کے بعد سے علاقے میں یہودی بستیوں کی تعمیر کےسیکڑوں منصوبے بنا چکی ہے جن پر مکمل عمل درآمد ہو چکا ہے۔ چھبّیس بستیاں تو مقبوضہ بیت المقدس میں اور رملہ اور البریح ضلعے میں چوبیس یہودی بستیاں قائم کی گئی ہیں۔