• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عارف الحق عارف ،روزویل، کیلی فورنیا ،امریکا

الحاج شمیم الدّین کا نام سُنتے ہی ایک سچّے پاکستانی کا تصوّر ذہن میںاُبھرتاہے۔وہ محبّ ِ وطن ہونے کے ساتھ ساتھ سچّے عاشقِ رسول ﷺبھی تھے۔ان کا جینا مرنا پاکستان کی سالمیت اور اس کے قیام کے مقاصد کے حصول کی جدّو جہد سے عبارت تھا۔ ان کی بول چال اور عمل ہر وقت اس کی گواہی دیتے کہ وہ 27رمضان المبارک کو’’ پاکستان کا مطلب کیا،لا الہ الا اللہ‘‘ کی بنیاد پر وجود میں آنے والے مُلک سے کس قدر محبت کرتے ہیں۔شمیم الدّین کا لباس،گھر اور دفتر بھی اس بات کی نشان دہی کرتے بلکہ گواہی دیتے تھے کہ وہ ایک محبّ ِ وطن پاکستانی ہیں۔ 

ان کے عثمانیہ کالونی والے گھر پر شروع ہی سے ’’پاکستان ہاؤس ‘‘ کی تختی اور پاکستان کا پرچم لہراتا تھا اور جب نارتھ ناظم آباد منتقل ہوئے تووہ گھر بھی پاکستان ہاؤس بن گیا اور اس پر بھی پاکستان کا پرچم لہرانے لگا۔ان کی پاکستان سے بے لوث محبّت کی لاج اللہ تعالی نے اس طرح رکھی کہ شمیم الدّین کی پیدائش 7 مارچ ۱1931ءکی ہے، تووفات 23 مارچ 2021ءکو ہوئی۔ یعنی وہ مہینہ، جب مارچ 1940ء میں لاہور کے منٹو پارک کے جلسۂ عام میں قیامِ پاکستان کی قرارداد پاس کی گئی ۔

الحاج شمیم الدّین کا تعلق بدایوں کے ایک راسخ العقیدہ مذہبی گھرانے سے تھا۔ اس لیے بچپن ہی سے مذہبی اور سیاسی سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصّہ لیتے۔ پاکستان ہجرت کے وقت ان کی عمر 20،21برس تھی۔میٹرک پاس کر چُکے تھے اور تحریکِ پاکستان میں آگے آگے رہنے والے نوجوانوں کے ہراول دستے میں شامل تھے، جب مسلم نوجوان’’ پاکستان کا مطلب کیا ،لا الہ الااللہ ‘‘کے نعرے گلی کوچوں میں لگاتے تو ہندوؤں کا پارہ چڑھنا شروع ہوجاتا۔ یہ وہ وقت تھا،جب ہندو مسلم بھائی چارہ دَم توڑ چُکاتھااور اس کی جگہ سخت دشمنی نے لے لی تھی۔ہر فریق دوسرے کو اپنا جانی دشمن سمجھتا اور کسی بھی وقت اچانک حملے کے پیش نظر ایک دوسرے سے بچاؤ کی تدابیر اختیار کرنے لگا تھا۔

الحاج شمیم الدین نے ایک موقعے پر ہمیں اپنی یادداشتوں میں سے بتایا کہ ’’بڑی بوڑھیاں قرآنِ حکیم کے نسخے اور جوان عورتیں چھوٹے بچّے، گہنے، زیورات یا جمع پونجی کی پوٹلی سینے سے لگائے ہوتیں۔ لڑکیوں کو محلّے کے ایسے دومنزلہ گھروں کی چھتوں پر پہنچا دیا جاتا، جن کے زینے پختہ نہیں ہوتے ، لکڑی کی سیڑھی کے ذریعے اُنہیں اوپر پہنچا کر دوپٹا باندھ کر سیڑھی اوپر کھینچ لی جاتی۔ چھتوں پر پتھر اور ٹوٹی اینٹیں جمع کر لی جاتی تھیں۔ پانی کی بڑی بڑی ٹینکیوں اور بالٹیوں میں مرچیں گھول کر رکھی جاتیںاور کہیں کہیں توتیزاب کی بوتلیں بھی رکھی رہتی تھیں تاکہ متوقع حملے کی صورت میں اپنا بچاؤ کیا جاسکے۔‘‘

ان کی ہجرت کی داستان بھی نئی نسل کےلیے سبق آموز ہے تاکہ انہیں معلوم ہو سکے کہ پاکستان کے قیام کے لیے اس وقت کے مسلمانوں نے کیا کیا قربانیاں دیں؟ آگ اور خون کے کتنے دریا عبور کیے ، تب کہیں جا کردنیا کے نقشے پر وہ پاکستان اُبھرا، جسے اِس وقت نیچا دکھانے اور مٹانے کی سازشیں زوروں پر ہیں ،لیکن ہمارا پختہ یقین ہے کہ جو مُلک اللہ تعالی نے قائداعظم محمّد علی جناح کی قیادت میں رمضان المبارک کی 27ویں شب قائم کیا ، اسے دنیا کی کوئی طاقت نقصان نہیں پہنچا سکتی۔

‎الحاج شمیم کی پاکستان ہجرت کی داستان ان مشکلات کی جھلکیاں پیش کرتی ہے، جو نہ صرف ان کے خاندان کو بلکہ ہندوستان کے اقلیتی مسلم صوبوں اور ریاستوں سے پاکستان آنے والوں کو پیش آئی تھیں ۔ان کے خاندان نے7مئی 1950ء کو جب پاکستان ہجرت کی، اُس وقت اُن کی شادی ہو چکی تھی۔ ان کا قافلہ40خاندانوں پر مشتمل تھا، جن میں ان کی والدہ، اہلیہ، دو بھائی اور ایک بہن بھی شامل تھے۔ 

اس مختصر گھرانے کا یہ خاندان گھر کا کچھ سامان اونے پونے بیچ کر اور کچھ مفت بانٹ کر صرف وہ سامان ساتھ لے کر چلا، جس کے ساتھ بآسانی سفر کیا جا سکتا تھا۔ اس کے علاوہ ان کے پاس کچھ زیورات اور چوبیس ہزار روپے نقد تھے، لیکن باڑمیر جنکشن پر وہ رقم بلوائیوں نے چھین لی۔

البتہ، رحم دلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے100 روپے فی فرد کے حساب سے واپس کر دی۔ زیورات کو والدہ نے صراحی میں چھپادیا تھا، تو وہ محفوظ رہے۔ ‎پاکستان پہنچ کر یہ قافلہ اسلام کے نام پر حاصل کی گئی اس پاک دھرتی پر سجدہ ریز ہوا اور اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا۔ لیکن پتھورو جنکشن پر کُھلے آسمان کے نیچے پہلا سوال یہ پیدا ہوا کہ’’ اب زندگی کہاں اور کیسے گزاری جائے؟‘‘ تو طے پایا کہ گھر والے ایک ،دو روز یہیں ٹھہریں اور الحاج شمیم الدّین کراچی جا کر کسی واقف کار کے ذریعے رہائش کا بندوبست کر کے واپس آئیں۔ 

چناںچہ سامان اٹھا کر پلیٹ فارم کے باہر کُھلی ریتیلی زمین پر گنجان جھاڑیوں کے درمیان رکھا اورسائے کے لیے ایک چادر تان دی۔ واضح رہے کہ وہاں اور بھی کئی سو افراد اِسی طرح قیام کیے ہوئے تھے۔نئی سر زمین پرکئی دنوں تک پیدل ہی عزیزوں کی تلاش جاری رہی۔ آخرکار ایک دن مزارِ قائد کے عقب میں ،جہاں مہاجرین لائن سے پانی کے کنستر بھر رہے تھے، خالہ زاد بھائی بھی کنستر بھرتے ہوئے مل گئے، تو اُن کی مدد سے جیکب لائن کی مسجد کے پاس عارضی طور پر تیس روپے ماہانہ کرائے پر کوارٹر حاصل کیا اور گھر والوں کو پتھورو سے لا کر ٹھہرایا۔ 

پھرجب سر چُھپانے کو جگہ مل گئی ،تو سوچا ملازمت تلاش کی جائے، تو پوچھتے پاچھتے سرکاری دفاتر کا رُخ کیا۔اُن دنوں کی یاد داشتیں شیئر کرتے ہوئے ایک مرتبہ بتایا کہ ’’ پی ڈبلیو ڈی میں ڈرافٹ مین کی اسامیاں تھیں۔ مجھے یہ کام آتا تھا اور پاکستان بننے سے پہلے تین سال میونسپل بورڈ ،مرادآباد میں کام بھی کر چکا تھا، لہٰذااس پوسٹ کے لیے درخواست دے دی، لیکن سفارش نہیں تھی۔ 

سفارش اور رشوت کا ماحول اس وقت بھی موجود تھا، جب دیکھا کہ اس پوزیشن پر تو نوکری ملنے سے رہی، تو وہ درخواست واپس لے لی اور اسی دفتر میں چپراسی کی ملازمت کی درخواست جمع کروادی کہ فوری طور پر ملازمت حاصل کرنے کا یہی بہترین طریقہ سمجھ میں آیا تھا۔ اس طرح چپراسی کے طور پر اسی دفتر میں بھرتی ہو ااور خاندان کےلیے روزگار کا بندوبست ہو گیا۔بعد میں اسی محکمے میں ڈرافٹس مین کا عہدہ بھی مل گیا۔1953ءسے1967ء تک برما شیل میں سینئر ڈرافٹ مین 1967ء سے 1970ء تک داؤد پیٹرولیم میں چیف ڈرافٹ مین ، 1970سے1973ء تک انویسٹمنٹ ایڈوائزر سینٹر آف پاکستان میں اِن چارج ڈرافٹ مین اور1973ءسے1975ء تک ایک نجی ادارے میں مارکیٹنگ مینیجر کی حیثیت سے کام کیا۔‘‘

الحاج شمیم الدین نے بھر پور سیاسی اور سماجی زندگی گزاری اور جب تک صحت نے اجازت دی اپنی استطاعت کے مطابق ان سرگرمیوں میںبھرپور حصّہ لیتے رہے۔تحمّل مزاجی ان میں کُوٹ کُوٹ کر بھری تھی، ہر ایک کی بات سُنتے اور سوچ سمجھ کر فیصلے کرتے تھے۔اپنے دھیمے مزاج اور دلیل سے بات کرنے کی وجہ سے ہمیشہ کام یاب رہے۔ان کی سیاسی زندگی کا آغاز تو قیامِ پاکستان سے پہلے ہی تحریکِ پاکستان کے دوران ہو گیا تھا اور وہ ذہنی طور پر مسلم لیگی کارکن تھے۔پھر پاکستان آنے کے بعد انہوں نے باقاعدہ انتخاب میں حصّہ لینے کا آغاز1960ء میں کیا اور بی ڈی ممبر منتخب ہوئے۔ اس کے بعد1968ء تک ممبر اور چیئرمین بھی رہے۔ 

ضیاء الحق کے مارشلائی دَور میں جب گورنر سندھ ،جنرل عباسی کی صدارت میں سندھ کاؤنسل قائم ہوئی تو اس کے رکن بھی رہے اس کے بعد عبدالستار افغانی کی میئرشپ کے زمانے میں گولی مار کے علاقے سے کاؤنسلر منتخب ہوئے ۔ 1985ء کے غیر جماعتی انتخابات میں سندھ اسمبلی کے رکن اور غوث علی شاہ کی کابینہ میں وزیرِ مذہبی امور و زکوٰۃو عشر بھی رہے ۔ بعد ازاں،1987ء میں قائم مقام وزیرِ اعلی سندھ بنے۔

الحاج شمیم الدّین پیدائشی مسلم لیگی تھے۔اس لیے یہ جماعت ان سے کبھی جدا نہ ہوسکی، چاہے وقتی مصالحت یا ضرورت کے تحت دوسری جماعت میں شامل ہونا پڑا ،لیکن پھرواپس مسلم لیگ ہی میں آگئے۔پاکستان ہجرت کے بعد مسلم لیگ میں ان کے سرگرم کردار کا آغاز1957ء سے ہوا، جب ان کو سٹی مسلم لیگ لائبریری کا سیکریٹری بنایا گیا۔1985ء میں محمّد خان جونیجو کی وزارتِ عظمیٰ کے دَور میں ان کو مسلم لیگ، سندھ کا جنرل سیکریٹری اور نواز لیگ کے دَور میں مسلم لیگ، سندھ کا نائب صدر مقر کیا گیا۔

پیر پگارا کی متحدہ مسلم لیگ میں انہیں مرکزی نائب صدر بنایاگیا۔ وہ1986 سے1990ء تک آئی جے آئی ،سندھ کے صدر رہے۔ 1989ءمیں سندھ ڈیموکریٹک الائنس کے رابطہ کار اور2000ء سے 2004ء تک جنرل سیکریٹری کے منصب پر فائز رہے۔ چوہدری شجاعت مسلم لیگ کے صدر منتخب ہوئے تو انہوں نے الحاج شمیم الدّین کو سندھ کا نائب صدر بنادیا،تو انہوں نے2009ء سے سندھ کے سینئر مسلم لیگیوںکے مشاورتی کاؤنسل کے صدر کے طور پر بھی کام کیا۔

الحاج شمیم الدین امام اہلِ سنّت، احمد رضا بریلوی ؒ کے پیروکار اور عقیدت مند تھے، اس لیے ان کا مذہبی معاملات میں رجحان زیادہ تر بریلوی مکتبۂ فکر سے تعلق رکھنے والی مذہبی جماعتوں سے تھا۔1970ء میں مولانا شاہ احمد نورانی بیرونِ مُلک سے واپس آئے اورجمعیت علمائےپاکستان کو کراچی اور ملک بھر میں منظم کرنا شروع کیا ،تو انہوں نے شہر کے بعض اہم ہم عقیدہ لوگوں سے رابطے کیے، جن میں الحاج شمیم بھی شامل تھے۔ ان کی دعوت پر وہ اس جماعت میں شامل ہوئے اور 1978ء تک جماعت کے کراچی وِنگ کے صدر اور انفارمیشن سیکریٹری رہے، لیکن پھر اپنی سیاسی جماعت مسلم لیگ میں واپس آگئے۔ اس کے علاوہ وہ کراچی کی سطح پر زکوٰۃ کاؤنسلز کے صدر اور دوسرے مناصب پر بھی فائز رہے۔ سندھ میں پہلی مرتبہ نظامِ زکوٰۃ کے بنیادی ڈھانچےکے علاوہ سندھ اور کراچی میں اس کی عملی تنظیم اُنہی کی کاوشوں کی مرہونِ منت ہے۔

صحافت ان کا پیشہ نہیں تھا، لیکن انہوں نے اس میں بھی کام یابی کے ساتھ طبع آزمائی کی۔وہ مختلف جرائد میں مضامین اور کالم نگاری کے علاوہ دبستانِ بدایوں کے تحت شایع ہونے والی ادبی کتب اور رسائل کی تدوین و اشاعت کا کام بھی کرتے تھے۔ وہ ایک مجلسی آدمی تھے اور اکثر اپنے گھر میں دوستوں کی محفلیں جماتے ۔فالج کی وجہ سے کافی عرصے تک صاحبِ فراش رہنے کے باوجود اپنے سارے کام خود کرتے اور مُلک کی سیاسی خبروں اور حالات سے مکمل طور پرباخبر رہتے ۔اللہ پاک الحاج شمیم الدّین کو اپنی جوارِ رحمت میں اعلیٰ مقام عطا کرے، آمین۔

تازہ ترین