• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

صوبائی اور مرکزی سطح پر صحافیوں کے تحفظ کا بل پیش کیا گیا ہے۔ اس کو ہم محاورے میں کہتے ہیں ’’اُلٹا چور کوتوال کو ڈانٹے‘‘۔ کمال یہ ہے کہ کچھ صحافیوں نے سرکاری قانون سازی کو لبیک بھی کہا ہے۔ ہمیں تو فیض صاحب اور مظہر علی خاں کی تربیت میں بتایا گیا تھا کہ بغیر کسی تعصب کے، تحقیق کرو، خبر بلاتعلق کے اصلی ہیئت میں آنی چاہئے۔ ہماری نسل نے صحافت پہ بندشوں اور احکامات بعنوان ’’پریس ایڈوائس‘‘ ہر زمانے میں دیکھے۔ انکار کی ہمت کرنے والے سڑک پر بھیج دیئے جاتے رہےہیں۔ کبھی کیا بلکہ اکثر نامعلوم افراد کی گولیوں کا نشانہ بن جاتے ہیں۔ کبھی نالے میں پڑی لاش مل جاتی ہے۔ سفید پوش بھی اپنا کام دکھاتے رہتے ہیں۔

لوگ تو اتنے بے لگام، جس میں میڈیا بھی شامل ہے، ہوگئے ہیں کہ فلسطین کے حق میں جلوس میں نکالنے والی لڑکیوں نے اگر موتیے کے گجرے خرید لئے تو کیا قیامت آگئی۔ مفروضوں پر کہانیاں بنانے کے دن لد چکے ہیں۔ یہ دیکھو سی ایس ایس کے امتحان میں 70فیصد لڑکیاں کامیاب ہوتی ہیں۔ وہ اگر موسم کے مطابق گجرے پہن لیں تو خوش ہوں کہ بچیاں ہماری ثقافتی روایتوں کو زندہ رکھے ہوئے ہیں۔ سوچنے والی بات یہ ہے کہ ہم سرکاری سطح پر چین کے ساتھ 70سالہ دوستی کا جشن بنا رہے ہیں مگر ہم نے چینیوں کی طرح کونسے معاشی اور ثقافتی کام کئے؟ ہم تو ابھی تک تھوڑی سی آندھی سے گھنٹوں بجلی کے لئے ترستے ہیں۔ اسٹیل مل نہیں چلاسکے، صرف ایک جگہ پر توجہ ہے، ناقابلِ تسخیر دفاع پرکہ دشمن مستعد ہیں۔سعودی عرب ہو، افغانستان یا ایران کے لوگوں سے پاکستانیوں کے انفرادی اور اجتماعی رویوں کے بارے میں دریافت کرو تو جواب نفی میں ملتا ہے۔ ترکی کے ہم بڑے دوست بن رہے ہیں۔ اس کے طرزِ حکمرانی اور اسرائیل سے تعلقات پہ ایک حرف بھی نہیں کہتے۔ ثالث بنا مصر اور ہم اُسے اپنی فتح کی تھالی میں پیش کررہے ہیں۔ سب جانتے ہیں کہ سب بڑے ملک فلسطین کی علیحدہ مملکت قائم ہونے میں رکاوٹ ہیں اور ہمیں دیکھیں کہ جب تک فلسطینی بموں سے مرتے رہے توگیارہ دن تک ہم نے کوئی جلوس نہیں نکالا اور اب سرکاری افسر جلوس اپنی سربراہی میں نکال رہے ہیں۔ ہم موضوع اور ہر مسئلے پر لکیر پیٹتے رہتے ہیں۔ ہمیں سعدی کا شعر یاد آتا ہے کہ وہ مکا جو جنگ کے بعد لہرائے، وہ اپنے منہ پر پڑتا ہے۔

واجد شمس الحسن نے اپنی یادوں میں یہ تو لکھا کہ بی بی بینظیر ہر کانفرنس میں کشمیر کے موضوع کو اہمیت دیتی تھیں۔لیکن ایک کانفرنس میں راجیو گاندھی آگیا۔ بی بی کی حکومت گئی۔جب دنیا کا نقشہ دیکھیں تو اس میں دکھایا گیا ہے ’’پاکستان کا مقبوضہ کشمیر‘‘ اور ’’انڈیا کا مقبوضہ کشمیر‘‘ کبھی یہ نقشہ عمران خان بھی دیکھیں، حد تو یہ ہےکہ ہندوستان نے کشمیر کا جغرافیائی حلیہ بدل دیا، اس کو عالمی عدالت میں کیوں چیلنج نہیں کیا گیا۔ اب جبکہ وہ اپنے قانون، عدالت اور سربراہ حکومت اور پارلیمنٹ سے منظوری اور سارے کشمیر رہنمائوں کو اسیر کرکے، عالمی کانفرنس بھی کر رہا ہے اور کسی عالمی قوت نے اس کو کھل کر غیر قانونی نہیں کہا۔ کچھ ملکوں نے تو انڈیا کا نیا نقشہ قبول کر لیا ہے۔

چینیوں نے اپنا ملک بنانے میں، پاک چین سرحدی علاقے میں سڑکیں بنانے میں جتنے کارکن مروائے ہیں وہ تو لکھا ہوا۔ اس شاہراہ پر جائو تو سڑک کی حالت اور بورڈ دیکھ کر یقین آجاتا ہے کہ کام محنت اور لگن سے کیا گیا ہے۔ ہم کتنے سال ہوگئے نقارے سن رہے ہیں۔ مگر سی پیک کا منہ سر نکلتا نظر نہیں آرہا۔ میرے کہنے کا مطلب ہے کہ جب تک کسی منصوبے کے فوائد، عام لوگوں تک نہ پہنچیں، لوگ منصوبوں کو قبول نہیں کرتے۔ چینی سی پیک کے لئے چین سے مزدور لا رہے تھے کہ ہمارے بارے میں معلوم تھا کہ ہمارے لوگ ہڈ حرام ہیں۔ پھر جب حکومت نے زور دیا کہ پاکستانی مزدوروں اور انجینئرز کو شامل کریں اس کے بعد سلیم باجوہ آگئے۔ ان کے آتے ہی طلسم ہوش ربا جیسی لمبی چوڑی کہانیاں نکلیں۔اخباروں میں بس یہی کچھ ہوتا ہے، ہر منصوبے کی تشہیر و تردید ہوتی رہتی ہے۔ افسر بے چارے کچھ کریں یا نہ کریں، کچلے جاتے ہیں۔ اور کمیٹیاں اور نیب کی سرعت، کھٹائی میں پڑ جاتی ہے۔ہمارے وزیراعظم کہتے ہیں کہ چار سو سے زیادہ افسروں کو چین میں جیل بھیج دیا گیا۔ پھر حالات قابو میں آئے۔ ماضی میں دیکھیں تو بھٹو صاحب نے سینکڑوں افسر نکالے۔ اس کے بعد یہ سلسلہ چلتا رہا۔ اب بھی روز دھمکیاں کہ آج یا کل سینئر افسر گھر بھیج دیئے جائیں گے۔ جن کو نوکری خدشے میں نظر آئے، وہ خاک فیصلے کریں گے۔ ڈھائی سال سے ایک ہی راگ الاپا جارہا ہے۔

بہرحال یہ معجزہ آپ کو معلوم ہے مگر میں سنانا چاہتی ہوں کہ پونے تین سال بعد چوہدری نثار، پنجاب اسمبلی کی ممبر شپ کا حلف لینے آئے تھے مگر ایسا ممکن نہ ہو سکا۔ آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا۔ موسم میں گرمی آرہی ہے۔ لگتا ہے سیاست میں بھی سرگرمی آرہی ہے۔ کورونا کے زمانے میں سارے معاملات اور اندازے، گھر میں بیٹھ کر ہی لگائے جاسکتے ہیں۔ جب سیاست میں مہنگائی کے باوجود، روز کسی نہ کسی وقت ظہرانہ اور وہ بھی پچاس آدمیوں کیلئے دیے جائیں۔ تو یہ سوچ آتی ہے کہ شیرشاہ سوری کیا کمال کا آدمی تھا کہ خود تو زمین پر بیٹھ کر کھانا کھاتا تھا اور عوام کے لئے ایک تو گرینڈ ٹرنک روڈ بنوائی۔ دوسرے ہر بیس کوس پر کارواں سرائے اور پینے کے پانی کے کنویں بنائے اور سبق یہ بھی پڑھا گیا کہ عدل کی کمی ہی حکومتوں کے زوال کا سبب بنتی ہے۔

تازہ ترین