• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تھانیدار صاحب! میرا نام حامد ہے تاہم حالات کی ستم ظریفی کی وجہ سے محلے بھر میں ’’حامد قرضئی‘‘ کے نام سے مشہور ہوں۔جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ آج کل مہنگائی کی وجہ سے جینا محال ہے‘ تو میں بھی اسی مہنگائی کے ہاتھوں مجبور ہوکر کبھی کبھار کسی دوست رشتہ دار سے کچھ پیسے قرض لے لیتا ہوں‘ لیکن نیچ لوگوں کی ایک پہچان یہ ہے کہ وہ کبھی قرض دے کر بھولتے نہیں حالانکہ دنیا جانتی ہے کہ حامد کے پاس اگر پانچ کروڑ بھی ہوں تو وہ ہنسی خوشی لوگوں میں بانٹ دے۔جناب آپ سے رابطہ کرنے کی ضرورت اس لیے پیش آئی کیونکہ مجھے لگ رہا ہے کہ میں کسی بھی وقت ’’شہید بالجبر‘‘ کے مرتبے پر فائز ہوسکتا ہوں۔عرض ہے کہ مجھے چھ ماہ قبل 80 ہزار کی اشد ضرورت تھی کیونکہ میری آنکھیں متاثر ہونے کا خدشہ تھا۔میرے گھر میں 14انچ کا ٹی وی تھا اور مجھے دور سے اس کی تصویر واضح نظر نہیں آتی تھی لہٰذا مجھے 42انچ کی ایل ای ڈی درکار تھی۔سارا زمانہ جانتا ہے کہ حامد نے کبھی کسی کے سامنے ہاتھ نہیں پھیلائے لیکن چونکہ بات آنکھوں کی تھی جوکہ اللہ کی بہت بڑی نعمت ہیں لہٰذا اس نعمت کو بچانے کے لیے میں نے اپنے دوست عابد کی منت سماجت کی کہ وہ کسی طرح مجھے 80ہزار ادھار دے دے۔اس نے اپنی مجبوری کا رونا رویا اور کہنے لگا کہ میں تو خود پارٹ ٹائم جاب کرکے بڑی مشکل سے گھر کا گزارہ کرتاہوں ۔مجھے اس کی بات سن کر بہت دکھ ہوا‘ وہ ایک دوست سے بہانے کر رہا تھا۔میں نے پوچھا کہ کیا تمہارے پاس کچھ بھی نہیں؟ اُس نے کہا کیش تو کچھ بھی نہیں بس بیوی کے زیورات ہیں لیکن وہ میں تمہیں کیسے دے سکتا ہوں؟؟؟ میری آنکھوں میں آنسو آگئے‘ میں نے رُندھی ہوئی آواز میں کہا ’’اے میرے دیرینہ دوست!بیوی کے زیورات تو پھر بھی بن جائیں گے لیکن تمہارے جگر حامد کی آنکھیں چلی گئیں تو وہ ساری زندگی گاجر اور مولی میں تمیز نہیں کر پائے گا۔‘‘یہ بات سن کر میرا دوست کچھ پریشان سا ہوگیا‘ پھر کہنے لگا کہ میری بیوی نہیں مانے گی۔ میں نے اس کے پائوں پکڑ لیے اور گڑگڑاتے ہوئے کہا کہ بیوی کون سا روز زیور چیک کرتی ہے‘ تم وہ زیور مجھے دے دو‘ میں بیچ کر اپنی ضرورت پوری کرلیتا ہوں اور ٹھیک ایک ماہ بعد تمہیں تمہارے پیسے لوٹا دوں گا ‘ اُن پیسوں سے بیوی کے لیے نیا زیور بنوا لینا۔عابد نے وقتی طور پر بڑی مہربانی کی اور میری بات مان کر بیوی کے زیورات میرے حوالے کر دیے۔لیکن جناب مجھے نہیں پتا تھا کہ میرے دوست کے اندر کتنی کمینگی بھری ہوئی ہے۔ ٹھیک ایک ماہ بعد اس نے پیسوں کی واپسی کا تقاضا شروع کر دیا۔ میں نے اسے حوصلہ دیا کہ میں کہیں بھاگا نہیں جارہا ، ان شااللہ کچھ روز تک تمہیں تمہارے پیسے مل جائیں گے۔اسی دوران مجھے اپنی تنخواہ کا پچیس ہزار کا بونس ملا‘ پہلے تو سوچا کہ عابد کو دے دیتا ہوں تاکہ کچھ ادھار تو اترے‘ لیکن پھر یاد آیا کہ میرا موبائل کافی پرانا ہوچکا ہے اور کافی دنوں سے سمارٹ فون کی اشد ضرورت محسوس ہورہی ہے ‘ میرے ماموں کا بیٹا کینیڈا میں ہوتاہے اور اکثر بیمار رہتا ہے‘ اسے لینڈ لائن فون کرتا ہوں توکال بڑی مہنگی پڑتی ہے‘ سوچا سمارٹ فون لوں گا تو وٹس ایپ کے ذریعے اُس سے بات چیت میں آسانی رہے گی۔یہ نیک سوچ ذہن میں آتے ہی میں نے پچیس ہزار کا سمارٹ فون خرید لیا۔ دوسرا مہینہ ختم ہوا تو میرا پیسے کا پجاری دوست پھر میرے پاس آگیا اور اپنی رقم مانگی۔ مجھے شدید غصہ آیا‘ میں نے کہا بے فکر رہو تمہارے 80ہزار دیے بغیر نہیں مروں گا۔یہ سن کر اس نے بظاہر بے چارگی سے کہا کہ اگلے مہینے میرے بھانجے کی شادی ہے اور میری بیوی زیور پہن کر جائے گی‘ اگر اسے پتا چل گیا کہ اس کے زیور موجود نہیں تو بڑا مسئلہ ہوجائے گا۔ مجھے اس لمحے شدت سے احساس ہوا کہ میرا دوست بہت کم ظرف اور احسان فراموش ہے‘ میں نے زندگی میں اس کے لیے کیا کچھ نہیں کیا‘ کئی دفعہ اس کو اپنی موٹر سائیکل پر لفٹ دی‘ دو تین دفعہ جب اس کے موبائل کا بیلنس ختم تھا تو اپنے موبائل سے اس کو کال کروائی ۔لیکن صد افسوس! میرا یہ دوست میرے سارے احسان بھلا بیٹھا ۔میں نے نوٹ کیا ہے کہ میں جس کے ساتھ بھی نیکی کرتا ہوں وہ میری ہی تباہی کا باعث بن جاتاہے۔اگلے ماہ میرا دوست انتہائی غصے میں بھرا ہوا میرے گھر آیا اور کہنے لگا کہ اس کی بیوی کو پتا چل گیا ہے کہ میں نے اس کے زیورات تمہیں دیے ہیں، گھر میں شدید لڑائی ہوئی ہے لہٰذا میرے پیسے واپس کرو۔ میں نے ہاتھ جوڑ کر اسے سمجھایا کہ میں اس وقت سکندر کی طرح خالی ہاتھ ہوں لیکن اُس زمانہ شناس نے چلا کر کر کہا کہ مجھے پتاہے تمہاری کمیٹی نکلی ہے میرے پیسے واپس کرو۔ جناب عالی! میری اپنے محلے میں تقریباً 15فیصد عزت ہے اور میں یہ افورڈ نہیں کر سکتا کہ کوئی اس طرح سے میرے دروازے پر آکرمیری بے عزتی کرے لہٰذا میں نے اسی وقت اسے دو ماہ بعد کا چیک لکھ کر دے دیا۔دو ماہ بعد اس نے چیک جمع کرایا تو وہ ڈس آنر ہوگیا۔ اس نے مجھے دھمکی دی کہ اگر دو دن کے اندر اندر مجھے میرے پیسے واپس نہ کیے تو میں یہ چیک تھانے میں دے کر تم پر پرچہ کروادوں گا۔ جناب عالی!مجھے شک ہے کہ یہ میری موت کا بھی خواہشمند ہے‘ براہ کرم اس سے پہلے کہ وہ پرچہ کٹوائے‘ میرا پرچہ کاٹیں اور دھمکیاں دینے اورارادہ قتل کے الزام میں اسے گرفتار کرکے صرف اتنا تشدد فرما دیں کہ اس کی ایک سال پہلے کی یادداشت ختم ہوجائے۔لعنت ایسی دوستی پر… فقط یاروں کا یار‘ حامد قرضئی!!!

تازہ ترین